چھوٹو گینگ٬ پنجاب حکومت کی ناکامی٬ پولیس کی نااہلی٬ عوام کدھر جائیں؟
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
عین ممکن ہے کہ اِن سطور کے شائع
ہونے تک چھوٹو گینگ کا قلع قمع ہوچکا ہوگا، جنوبی پنجاب کے آخری اور
پسماندہ اضلاع میں کچے کا علاقہ ڈاکوؤں سے پاک ہو چکا ہوگا۔ کچے اور قرب و
جوار کے پکے کے باسی بھی اپنی عزت، جان اور مال کی امان پائیں گے، سکون کا
سانس لیں گے، حکومت اور پولیس کو کوسنے اور پاک فوج کو دعائیں دیں گے۔
چھوٹو گینگ نے ایک عرصہ سے راجن پور اور رحیم یار خان کے ملحقہ علاقوں میں
دہشت پھیلا رکھی تھی، آئے روز قتل اور اغوا برائے تاوان کی خبر آجاتی تھی،
یہ گینگ علاقے میں دہشت اور خوف کی علامت جانی جاتی ہے۔ پولیس نے متعدد
مرتبہ آپریشن کیا، مگر ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اب بھی آپریشن کا
آغاز تو پولیس نے ہی کیا تھا، مگر حسبِ روایت ناکامی ہی مقدر بنی، مگر اب
معاملہ اس قدر آگے بڑھ چکا تھا کہ حکومت کی ناکام واپسی کا مطلب یہی تھا کہ
چھوٹوگینگ کو الگ ریاست کا پروانہ دے دیا جائے۔ اسی لئے یہاں فوج بلانا پڑی۔
کیونکہ ہر حکومتی ناکامی پر فوج ہی طلب کی جاتی ہے۔ یہاں جرائم پیشہ لوگوں
کی پناہ گاہ ہونے کی بنا پر شمالی وزیرستان میں ’’ضربِ عضب‘‘ کے بعد سے
پیدا ہونے والی صورت حال کے اثرات یہاں بھی دیکھے گئے، وہاں سے بچ نکلنے
والے دہشت گردوں نے بھی اِ ن ٹھکانوں کو اپنی کمین گاہ بنالیا، جس کی وجہ
سے بھی یہاں آپریشن ضروری ہوگیا تھا۔ اب ڈاکوؤں نے یرغمالی پولیس اہلکاران
کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہوا ہے، امید ہے فوجی آپریشن میں معاملات
قابو میں آجائیں گے۔
گینگ کیوں بنتے ہیں؟
چھوٹو گینگ کیسے وجود میں آیا؟ اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے
ہاں عموماً ڈاکوؤں وغیرہ کو ہیرو بنا کر پیش کردیا جاتا ہے، فلموں کو دیکھ
لیں، کسی ڈاکو کی تاریخ پڑھ لیں، معلوم ہوگا کہ وہ بہت ہی شریف اور اچھا
انسان تھا، حالات کی ستم ظریفی نے اسے بدمعاش بنا دیا۔ اس میں بہت حد تک
حقیقت بھی ہوتی ہے، مگر ہمیشہ ایسے نہیں ہوتا۔ چھوٹو تو چند برس پہلے تک
راجن پور کی منتخب شخصیات کا دستِ راست بھی تھا۔ اپنے ہاں جاگیر داروں کو
اپنی حفاظت کے لئے یا دوسروں پر رعب ڈالنے کے لئے چند بندوق بردار اپنے
ساتھ رکھنے پڑتے ہیں، چھوٹو کی حیثیت بھی ایسے ہی تھی، تعارف اور بات آگے
بڑھی، پولیس سے پینگیں بڑھیں، وہ پولیس کا مخبر بن گیا،پھر جرائم کی دنیا
میں اترنے میں اسے پولیس کی بھر پور حمایت حاصل رہی۔ یہ بات بھی سامنے آئی
ہے کہ جب گینگ کے ٹھکانے پر حملے کئے گئے تو یہ جواب ملا کہ اغوا شدہ پولیس
اہلکاروں کو نہیں چھوڑا جائے گا، کیونکہ ہمیں یہاں تک پہنچانے والی پولیس
ہے، جوجرائم میں باقاعدہ ہماری معاونت کرتی تھی اور باقاعدہ حصہ بٹورتی تھی۔
ڈاکو بنانے کے عوامل میں بے روز گاری بھی شامل ہے، پولیس تشدد اور معاشرے
کی ناہمواریاں بھی اس کی وجہ ہیں، تاہم بدمعاش اور ڈاکو صرف مظالم سہتے
سہتے ہی نہیں بنتے، بلکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو شوقیہ اس طبقے کا
حصہ بن جاتے ہیں، یوں جب بہت سے لوگوں کے مفاد ات آپس میں جُڑ جاتے ہیں تو
گینگ وجود میں آتا ہے۔
کچے کا علاقہ!
کچے کے علاقے کے بارے میں شہروں، دور دراز اور بالائی علاقوں میں بیٹھے
ہوئے لوگ درست اندازہ نہیں لگا سکتے۔ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ دریائے
سندھ راجن پور کے ان علاقوں میں کس طرح سیلاب کے دنوں میں پھیل جاتا ہے،
وسیع علاقہ زیر آب آنے کی وجہ سے زیادہ تر علاقہ عوام کے زیر کاشت نہیں آتا،
کیونکہ نہ وہ جگہ ہموار ہوتی ہے، اور نہ ہی محفوظ۔ کچے کے علاقے میں جیسا
کہ نام سے ظاہر ہے، نہ سڑکیں ہوتی ہیں اور نہ مناسب راستے۔ شہروں سے کچے کی
جانب جاتے ہوئے پہلے پہل تو سڑکیں اور فصلیں دکھائی دیں گی، مگر جوں جوں
دریا قریب آتا جاتا ہے، یہ دونوں چیزیں منظر سے غائب ہوتی جاتی ہیں۔ اس
ویران اور دشوار گزار علاقے کو ہمیشہ سے جرائم پیشہ لوگوں نے اپنی
آماجگاہیں بنا رکھا ہے۔ اب وہاں نہ صرف یہ کہ چھوٹو گینگ کا قبضہ ہے، بلکہ
انہوں نے پختہ مورچے بھی بنا رکھے ہیں، دریا یہاں چونکہ زیادہ پھیلاؤ میں
ہوتا ہے، اس لئے اس کی کئی شاخیں بھی بن جاتی ہیں، اسی طرح دو شاخوں کے
درمیانی حصہ کو چھوٹو گینگ نے اپنی ریاست بنا رکھا ہے۔ یہ جزیرہ نما علاقہ
کچہ جمال کہلاتا ہے، اس کی لمبائی تقریباً نو کلومیٹر اور چوڑائی ڈھائی
کلومیٹر ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں پولیس نے کشتیوں پر بیٹھ کر جزیرے کی جانب
پیش قدمی کی تھی اور جس کے نتیجے میں ساتھ پولیس اہلکار شہید اور چوبیس
یرغمال بنا لئے گئے تھے۔
آپریشن کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟
اگر کسی مسئلے کو بر وقت قابو کر لیا جائے تو بعد میں مسائل پیدا نہیں ہوتے،
زندگی تندرست گزرتی رہتی ہے، خرابی کی صورت میں اول اول پرہیز سے کام چل
جاتا ہے، اگر بات مزید بڑھ جائے تو دوائی کی ضرورت پڑتی ہے، جب کام دوائیوں
سے بھی باہر ہوجائے تو پھر آپریشن سے مسئلہ حل کیا جاتا ہے، کبھی یوں بھی
ہوتا ہے کہ متاثرہ عضو ہی کاٹنا پڑ جاتا ہے۔ راجن پور میں کچے کے علاقے میں
ڈاکوؤں کو قابوکرنے کے لئے بات آپریشن تک پہنچ گئی، نوبت یہاں تک پہنچی
کیسے ؟ اس کے پیچھے سالوں کی داستانیں ہیں اور سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت
اور پولیس کی ہے، سیاستدانوں کا ہاتھ بھی رد نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ
سرپرستی کے بغیر ایسی کاروائیاں آسان نہیں ہوتیں۔ ڈی سی او راجن پور کے
بقول اس آپریشن میں ڈیڑھ ہزار فوجی، تین سو رینجرز اور سولہ سو پولیس
اہلکار حصہ لے رہے ہیں ۔
پولیس آپریشن کی ناکامی کی وجوہات!
چھوٹو گینگ ہو یا کوئی اور، پولیس کے پاس ان کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی
بھی مناسب بندوبست نہیں ہوتا۔ اب بھی یہی ہوا، کہا جاتا ہے کہ جب پنجاب
پولیس کے سربراہ نے ہر قیمت پر یہ آپریشن کرانے کا فیصلہ کیا تو مقامی
پولیس کے کچھ لوگوں نے انہیں مناسب تیاری وغیرہ کی طرف توجہ دلائی، پرانا (کسی
حد تک ناکارہ ) اسلحہ اور مناسب منصوبہ بندی کے بغیر آپریشن کامیاب نہیں
ہوسکتا، مگر صوبہ کی پولیس کے سربراہ نے یہ عزم کر رکھا تھا، انہوں نے کہا
کہ اگر آپ لوگ نہیں جانا چاہتے تو میں خود آگے جا کر لڑوں گا۔ ان کی دوسری
خواہش پوری نہ ہوسکی، چنانچہ اہلکار اگلے مورچوں پر موت کے منہ میں اور آئی
جی صاحب لاہور کے ٹھنڈے دفتر میں پہنچ گئے۔ انہوں نے اگرچہ آپریشن کے مختلف
مراحل میں موقع پر موجود رہ کر اپنے اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کی کوشش کی،
مگر زمینی حقائق مختلف تھے۔ سات اہلکاورں کی شہادت ہی ایک المیہ نہ تھا، دو
درجن ساتھیوں کی یرغمالی ہی تکلیف دہ نہ تھی، اسلحہ بھی کم تھا، پرانا بھی
اور کھانے پینے کی اشیا کی کمی کی خبریں بھی عام ہیں، وہ اہلکار کسی تیاری
کے بغیر موت کے منہ میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے، اوپر سے انہیں بھوک
پیاس کا سامنا بھی تھا۔ مزید شرمناک صورت حال یہ ہوئی کہ ڈی پی او راجن پور
اور چھوٹو کی گفتگو کا ریکارڈ بھی منظر عام پر آیا، جس میں ڈی پی او نے
چھوٹو کے ترلے کئے اور لاشیں اور یرغمالی واپس کرنے کی درخواست کی، اسے
بہادر مرد قرار دیا۔جواب میں چھوٹو نے چوکیاں خالی کرنے کا حکم دیا ،اگرچہ
حکومتی حلقوں نے اس گفتگو کو جعلی قرار دیا۔
پولیس کی اس آپریشن میں ناکامی کی ایک وجہ نہیں۔ اپنے ہاں پولیس کے معاملات
ہمیشہ متنازع رہے ہیں۔ حکومتیں پولیس کی اصلاح کے دعوے کرتی ہیں، براہِ
راست بھرتیاں کی جاتی ہیں، ان کی تربیت کا مستقل بندوبست ہوتا ہے، ان کی
تنخواہوں میں معقول اضافہ ہو چکا ہے، ان کو بہت حد تک جدید سواری اور اسلحہ
کی دستیابی کا مسئلہ حل کردیا گیا ہے، مگر پولیس کو کبھی بھی پیشہ ورانہ
مہارتیں حاصل نہیں ہو سکیں، وہ دیسی طریقے سے ہی اپنے کاروبارِ ملازمت کو
چلاتے ہیں۔ حکومتیں پولیس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں، جن کی
وجہ سے عوام کی جان و مال کی بجائے پولیس حکمرانوں کے جان ومال کی محافظ ہے۔
اگر کبھی کہیں احتجاج یا جلسہ وغیرہ ہے، تو اس کے باہر پولیس اہلکار
باقاعدہ سوئے ہوئے پائے جاتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ نہ ان کو آرام ملتا ہے
اور نہ ڈیوٹی کے اوقات متعین ہیں۔ ان کی تربیت میں انہیں چاک وچوبند بنانے
کا عمل سست ہے، اگر ایلیٹ فورس وغیرہ میں کچھ تیزی ہے تو اس کا استعمال بھی
کرنے کا کوئی بندوبست نہیں۔ اب اگر فوج آپریشن کر رہی ہے تو اس میں کامیابی
کے امکانات سو فیصد ہیں، مگر اس آپریشن کی صورت میں اہم مجرموں کو زندہ
گرفتار کیا جانا کافی مشکل کام ہے، شاید حکومت بھی ایسا نہیں چاہتی، کیونکہ
جب ملزم گرفتار ہوتے ہیں تو وہ بہت سے اہم انکشافات بھی کرتے ہیں، جن سے
حکمرانوں کی ہی سبکی ہوتی ہے، کراچی میں یہی کچھ ہورہا ہے، رینجر جس فرد پر
ہاتھ ڈالتی ہے، وہ ’را‘ کی معاونت کا اعتراف کرتا ہے۔ یہاں کچے میں بھی
ڈاکوؤں کے پاس پایا جانے والا اسلحہ بھارتی ہے، گویا یہاں بھی ’را‘ اپنا
کام دکھا رہی ہے۔
پولیس مقابلے!
آئے روز اخبارات اور میڈیا پر پولیس مقابلے کی رودادیں آئی ہوتی ہیں، ان
میں جگہ، افراد اور واقعہ مختلف ہوتا ہے، مگر سٹوری ایک ہی ہوتی ہے، اس میں
ذرہ بھر فرق نہیں ہوتا۔ بتایا جاتا ہے کہ ملزموں کو پیشی پر، یا فلان مسئلے
کی نشاندہی کے لئے لے جایا جارہا تھا، راستے میں ملزم کے حامیوں نے اپنے
ساتھیوں کو چھڑوانے کے لئے حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں ملزم پولیس مقابلے
میں جان کی بازی ہار گئے۔ ایسے مقابلے میں کبھی کسی پولیس اہلکار کو معمولی
زخم بھی نہیں آتا، ظاہر ہے جب اہتمام کے ساتھ مقابلہ کیا جائے گاتو کسی کو
خراش کیسے آئے گی۔ مگر اس عمل کو بھی ستم ظریفی کہیے کہ جب کبھی اصلی پولیس
مقابلہ ہوتا ہے، تو ڈاکو یا جرائم پیشہ لوگوں کا ایک آدھ فرد مارا جاتا ہے
یا ایک دو زخمی ہوجاتے ہیں، مگر پولیس کا کوئی نہ کوئی اہلکار ضرور جان سے
ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مقابلوں میں بھی پولیس کے ہاتھ پاؤں پھول
جاتے ہیں۔ جب واسطہ راجن پور کے کچے جیسے اصلی پولیس مقابلے سے ہو تو پھر
نتیجہ کیا ہوگا، سب کے سامنے ہے۔ کچے کے یہ علاقے طویل عرصے سے ڈاکوؤں کی
آماجگاہیں ہیں۔ یہاں جب بھی اصلی مقابلے ہوئے تو پولیس کے افسران سمیت
اہلکاران شہید ہوتے رہے۔
خون رائیگاں نہیں جائے گا!
خون انسان کے اثاثوں میں قیمتی ترین اثاثہ ہے، اور جب کوئی اس کا نذرانہ
پیش کردے تو اس کے بارے میں عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ ’’شہیدوں کا خون رنگ
لائے گا‘‘ یا ’’شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا‘‘۔ پنجاب پولیس کے
سربراہ مشتاق سکھیرا نے پولیس کے شہدا کے لئے بھی یہی محاورہ استعمال کیا
ہے۔ پنجاب حکومت نے موقع کی مناسبت اور اپنی کمزوریوں کی پردہ پوشی کے لئے
فوری طور پر ان شہدا کے اہل خانہ کے لئے پچاس پچاس لاکھ روپے امداد دینے کا
اعلان کردیا ہے، گھر کے لئے بھی پیسے دیئے جائیں گے اور لواحقین میں سے کسی
ایک کو ملازمت بھی دی جائے گی۔ شہید کے ورثا کی امداد ریاستی فریضہ ہے، جو
اپنی حکومت خوب نبھاتی ہے، پنجاب میں اکثر مقامات پر مظلوم کے گھر وزیراعلیٰ
خود پہنچ جاتے ہیں اور پانچ لاکھ کا چیک بھی دے آتے ہیں، تاہم جس وجہ سے
کسی کی جان گئی اس کے سدِّ باب کے لئے حکومت نے کم ہی توجہ دی ہے۔
آئی جی پنجاب کا اپنا مزاج ہے، وہ تیز رو وزیراعلیٰ پنجاب کی ’گڈ بکس‘ میں
بھی ہیں، ظاہر ہے جو پسند ہوگا ، عہدہ اسی کو ملے گا۔ آئی جی کا کچے کے
علاقوں کے مسائل کا ذاتی تجربہ بھی ہے، کیونکہ وہ کچے کے علاقوں میں اپنی
ملازمت کے دنوں میں افسر رہ چکے ہیں۔ جب وہ بہاول پور میں آر پی او تھے تو
انہوں نے اپنے آفس کے باہر سے گزرنے والی مصروف سڑک کو عوام کے لئے (دفتری
اوقات میں) نو گو ایریا بنا دیا تھا، وہاں سے بھاری ٹریفک پر پابندی تھی،
جو چار کلومیٹر چکر کاٹ کر ایک جیل ، ایک گرلز کالج اور ایک گرلز ہائی سکول
کے سامنے واپس آتی تھی، جہاں ٹریفک کے جام ہونے کے مناظر مستقل صورت اختیار
کرگئے تھے۔ وہ نو گو ایریاز کی فطرت سے خوب آشنا ہیں، راجن پور کے کچے میں
پولیس اہلکاران کی شہادت اور دیگر کو مشکل میں پھنسانے کی زیادہ تر ذمہ
داری انہی پر لاگو ہوتی ہے۔
حکومتی دعوے!
وزیراعلیٰ پنجاب چونکہ بے حد جذباتی انسان ہیں، پنجاب کے ہوم منسٹر بھی وہ
خود ہی ہیں، ان کا اندازِ حکمرانی یہ ہے کہ وہ ہر کام خود کرنے کے قائل ہیں،
شاید دوسروں پر اعتماد نہیں کرتے، یا دوسروں کو مخلص نہیں جانتے، یا ان کے
خیال میں دوسرے لوگوں میں یہ کام کرنے کی صلاحیت نہیں۔ رانا ثنا اﷲ بھی
بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ پنجاب میں کوئی نو گو ایریا نہیں، اس لئے یہاں
رینجرز وغیرہ کے آپریشن کی کیا ضرورت ہے، رہے پنجاب کے آئی جی پولیس ، وہ
خوب جانتے ہیں کہ وہی بات کرنی چاہیے، جو میاں صاحب کو پسند ہو، تاکہ صاحب
کا موڈ خراب نہ ہو، سو وہ ایسا ہی کرتے ہیں، مضبوط گرفت، گڈ گورننس اور اسی
قسم کے دیگر دعووں کی قلعی کچے کے علاقے میں کھل گئی ہے، اﷲ نہ کرے اگر کسی
اور علاقے میں بھی ہاتھ ڈالا گیا اور صورت حال یہی رہی تو کیا پنجاب کی
صفائی فوج سے کروائی جائے گی؟
سرکوبی کیسے کی جائے؟
کسی علاقے میں جب کوئی بدمعاش سراٹھاتا ہے، تو اسے شہ اس بات سے ملتی ہے کہ
لوگ اس سے ڈرتے ہیں، اسی لئے اس مزاج کے لوگ اس کے ساتھ جمع ہوجاتے ہیں۔
اپنے ہاں ستم یہی ہے کہ جب قانون شکنی کا آغاز ہوتا ہے، تو مقامی
پولیس،انتظامیہ حتیٰ کہ معاشرہ معاملے کو زیر بحث تو لاتا ہے، کچھ لوگ اندر
ہی اندر سے صورت حال سے کُڑھتے رہتے ہیں، مگر جس نے ایکشن لینا ہوتا ہے، وہ
مجرمانہ غفلت سے کام لیتے ہیں، یوں یہ چھوٹی سی بیماری بڑھتی جاتی ہے، پھر
لاعلاج ہوجاتی ہے۔ اگر اس طرح کے معاملے کو شروع ہی سے قابو کرلیا جائے تو
اتنے بڑے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔
تعلیم اور ترقی!
اس قسم کے حالات پیدا ہونے میں بہت بڑی معاونت علاقے کے معاشرتی حالات بھی
کرتے ہیں، کچے کے علاقے ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ لوگوں کے لئے محفوظ پناہ
گاہیں ہیں۔ یہاں ترقی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں، کیونکہ میلوں کے میل
یہاں ریتلا اور ویران علاقہ ہوتا ہے، جہاں نہ فصل ہوسکتی ہے اور نہ آبادی،
کیونکہ ہر سال پانی نے یہاں سے پھیرا ڈالنا ہوتا ہے۔ اگر یہاں ترقیاتی کام
کئے جائیں گے تو وہ بھی دریا برد ہونے کے امکانات ہیں۔ مگر اتنا خیال کیا
جانا ضروری ہے کہ جب تک وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہوگی، اس وقت تک مسائل
بڑھتے رہیں گے۔ ڈیرہ غازی خان پنجاب کا پسماندہ ترین ڈویژن ہے، یہاں جاگیر
داری نظام کی جڑیں بہت مضبوط ہیں، لغاری، مزاری، کھوسے، دریشک، کھر،
دستی،گورچانی اور بھی بے شمار قبائل آباد ہیں۔ جاگیر داری علاقوں میں ایک
روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہی بڑے اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں
ہونے دیتے، سڑکیں اور سکول نہیں بننے دیتے، تاکہ لوگ پڑھ لکھ کر اُن کے
مقابل نہ آکھڑے ہوں۔ جبکہ وہ خود اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ اس روایت میں
بہت حد تک سچائی بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ ان علاقوں سے پاکستان کے اعلیٰ ترین
عہدوں تک بھی لوگ پہنچے ہیں، اب بھی اہم عہدوں پر جلوہ گر ہیں۔ مگر اب
جاگیر داری نظام کی گرفت بہت حد تک ڈھیلی پڑ چکی ہے، خاص طور پر شہروں میں
۔ اس کے باوجود تعلیمی لحاظ سے بھی یہ علاقہ پسماندہ ترین ہی ہے، یہی حال
صحت اور ترقی اور بنیادی ضرورت کی دوسری چیزوں کے بارے میں ہے۔ جب ان
علاقوں کے لوگ حکومتوں کو لاہور میں کھربوں روپے کے میگا پراجیکٹ بنتے
دیکھتے ہیں تو ان کے جذبات میں منفی عناصر ابھرتے ہیں، بہرحال جرم کی دنیا
کا راستہ روکنے کے لئے ترقی کا رخ بھی ایسے علاقوں کی طرف موڑنا بہت ضروری
ہے۔ |
|