میں یہ بات کئی سالوں سے اپنے کالموں کی
نذر کر رہا ہوں کہ یہاں دو مفاداتی ٹولے ہیں جو اپنے مفادات، کاروباراور
رشتہ داریاں بڑھانے میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے کو مشکل وقت میں ’کولیشن
سپورٹ ‘ فراہم کرتے ہیں…… موجودہ حالات کو دیکھ کر حبیب جالب کی یاد آجاتی
ہے۔
اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہے ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا ہی نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
دونوں ٹولوں کے ماضی اور حال کا احوال یہ ہے کہ ماضی میں یہ دونوں ایک
دوسرے سے کرسی چھین کر حکومت کیا کرتے تھے جبکہ اب مکمل ’’تعاون‘‘ کی یقین
دہانی کے ساتھ حکومت کی جاتی ہے…… ماضی میں یہ جماعتیں دست و گریبان تھیں
مگر اب یہ امربیل کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ لپٹی نظر آتی ہیں، ماضی میں ان
جماعتوں کے قائدین غریب ہوا کرتے تھے مگر اب پاکستان کے امیر ترین افراد
میں ان کا شمار ہوتا ہے۔۔۔ اب تو ان کا آپسی معاہدہ بھی ہے کہ آپ جو مرضی
کر لیں ، جتنی مرضی کرپشن کر لیں، جتنے مرضی دیہاڑے لگا لیں، بس کرنا یہ ہے
کہ مل بیٹھ کر کھانے کو ترجیح دینی ہے،اگر آپ اکیلے کھائیں گے تو پھر آپ
’’کولیشن ‘‘ پارٹنر نہیں رہیں گے۔۔۔ پھر آپ بگوڑے قرار دے دیے جائیں گے اور
آ پ کو پارٹی سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔۔۔ اب ان حالات میں اگر کوئی یہ کہے
کہ حکومت گئی ۔۔۔ تو میرے خیال میں اس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہو سکتا۔
سنا ہے حالیہ سیاسی بھونچال میں عوام نے امیدیں لگائی ہوئی ہیں کہ کچھ ہو
جائے گا، یعنی حکومت چلی جائے گی ، پانامہ لیکس سب کچھ تباہ کردے گی تو
برائے مہربانی عوام اس خوابِ غفلت سے نکل آئیں، کیوں کہ کچھ نہیں ہونے
والا……
کچھ ہو بھی کیسے ؟ ملک میں اپوزیشن کہاں ہے؟
دنیا بھر میں اپوزیشن تو حکومت پر پریشر رکھنے کے لیے ہوتی ہے مگر یہاں
اُلٹی گنگا بہتی ہے۔یہاں سسٹم ہی نہیں ہے جس کے بل بوتے پر آپ ان
سیاستدانوں سے کوئی امید لگائیں پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس
میں کوئی عار نہیں کہ وہ مستقبل قریب میں طاقتور ریاستی اداروں کی سرپرستی
میں کردار ادا کرے۔ مقصد و منزل اقتدار حاصل کرکے دولت کے انبار بڑھانا ہے
نہ کہ عوامی سطح پر دولت کی جائز تقسیم۔ وہ پارٹی لد گئی جو کسانوں اور
محنت کشوں کی پارٹی تھی۔ موجودہ پارٹی کا ذوالفقار علی بھٹو سے تعلق صرف
اتنا ہی ہے کہ ان عظیم لوگوں کی تصاویر کو پوسٹرز اور بینرز پر لگا کر عوام
کے ایک بڑے طبقے کو اپنا حمایتی بنایا جائے۔ کہاں ذوالفقار علی بھٹو اور
کہاں آج کے قائد۔ وہ دار پر جھول جانے والے تھے اور یہ اقتدار کے جھولوں
میں جھولنے کے خواہاں۔ اُن کی جھولیاں خالی اور اِن کی جھولیاں ہر آئے روز
مال و دولت سے بھاری ہوتی جاتی ہیں۔ وہ عوام کے لیے مرتے تھے اور یہ عوام
کو اپنے لیے مرنے کا کہتے ہیں۔ یہ وہ پارٹی ہی نہیں جو محترمہ بینظیر بھٹو
شہید نے چھوڑی۔ یہ تو ایک نئی پارٹی ہے، پاکستان کے ’’کامیاب حکمران‘‘ کی
پارٹی، جس نے اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے پر داد لیتے ہوئے پارٹی کی
ساکھ، مقبولت، نظریے، عوامیت کو قربان کر دیا۔ ذراغور سے دیکھیں، آصف علی
زرداری صاحب کا سفرِسیاست اور کاروانِ سیاست کے ہمراہی،تو معاملہ سمجھ
آجائے گا۔ حالیہ پانامہ لیکس پر احتجاج کے حوالے سے پیپلزپارٹی کا معاملہ
کچھ اور ہے۔ اب وہ بھٹو کی نظریاتی پارٹی نہیں تو مک مکا کی پارٹی ہے۔ اُس
کا اس سے زیادہ مفاد موجودہ تحریک میں اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ ہر قیمت
پر ڈاکٹر عاصم اور اُن لوگوں کو جو رینجرز کے شکنجے میں آئے ہیں، بچایا
جائے۔ اب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول سے زرداری تک کیا حکمت عملی اپناتے
ہیں۔ اس وقت وہ آدھے عمران خان کے ساتھ اور آدھے میاں نواز شریف کے ساتھ
کھڑے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس صورتحال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا
جائے اور یہ پیپلزپارٹی کی حکمت عملی محمد خان جونیجو کے دور سے جاری ہے۔
زرداری اپنے کارکنوں کی منشاء کے خلاف فیصلے کرتے ہیں ، اسی طرح ن لیگ میں
بھی ون مین شو ہے۔
یہ وراثتی پارٹیاں ہیں یا دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے کہ تو یہ ریاستی
پارٹیاں ہیں جن کی پارٹیوں کے اندر علیحدہ ریاستیں قائم ہیں۔ گزشتہ دنوں
ایک خبر نمایاں تھی کہ بلاول بھٹو نے اپنے والد محترم کو نواز شریف سے لندن
میں ملاقات سے روکا ہے۔ حالانکہ جب نوازشریف لندن میں تھے تو ان کا ہوٹل
زرداری کی رہائش سے چند سو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ تو کیا بعید کہ رابطے
ہوئے بھی ہوں۔۔۔ میں تو کہتا ہوں کہ جب تک مفاہمتی سیاست کا کنگ زرداری
موجود ہے تب تک آپ ملک میں اپوزیشن کا سوچ بھی نہیں سکتے۔پیپلز پارٹی کی
امربیل جب تک زرداری کے ہاتھ میں ہے تب تک پیپلز پارٹی عوام میں دوبارہ
مقبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔
موجودہ حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو آپ کو اپوزیشن جماعتوں میں
کہیں پیپلز پارٹی نظر نہیں آئے گی، صرف اس لیے کہ ان کے اپنے مفادات ہیں،
اکیلی تحریک انصاف کیا کر سکتی ہے؟ عمران خان تو خود ان لوگوں میں گھرے نظر
آتے ہیں جن کی سیاسی ساکھ ہی کچھ نہیں ہے ، علیم خان اور جہانگیر ترین یہ
وہ لوگ ہیں جن کی سیاسی ساکھ نہیں ہے یہ عمران خان کے لیے اے ٹی ایم مشینوں
کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ دونوں کے بیک گراؤنڈ کچھ نہیں تھے، لوٹ مار کے
پیسوں سے دولت بنانے والے لوگ ہیں۔ جب تک یہ غیر سیاسی لوگ ہمارے قائدین کے
گرد جمع رہیں گے پاکستان کا کچھ نہیں ہو سکتاکیوں کہ پاکستان کو گذشتہ 69
سال سے صرف نواز شریف نے نہیں لوٹا بلکہ شریف خاندان کے ساتھ ساتھ بُہت
سارے اور بھی سیاست دانوں ، ملٹری اور سول بیروکریسی نے لوٹا ہے۔ اس وقت
پاکستان قومی مالیاتی اداروں کا17 ہزار ارب روپے اور بیرونی مالیاتی اداروں
کا تقریباً 80 ارب ڈالرمقروض ہے۔پاکستان 124 ممالک کی فہرست میں سماجی اور
اقتصادی اشاریوں کے لحا ظ سے 113 ویں نمبر پرہے ۔ اگر دیکھاجائے تو اس
تباہی اور بر بادی کے ذمہ دار صرف ہمارے سیاست دان اور سول و ملٹری بیو رو
کریسی ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ ریاست چلانا اور تجارت کرنا دو الگ الگ
اور مختلف چیزیں ہیں۔ اور جو ریاست چلا رہاہو تو اُسکو حکومت نہیں کرنا
چاہئے کیوں کہ جب وہ تجارت کر رہا ہوتا ہے تو پھر ریاستی وسائل کو تجا رتی
مفادات کے لئے استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے نواز شریف ریاست کو
دکان کی طرح چلاتے ہیں۔
میری ناقص رائے میں اگرکوئی سیاسی لیڈرکرپشن میں ملوث ہوتواس کو ملکی
قوانین کے مطابق احتساب کے کہڑے میں لایاجانا چاہیئے۔اگرملکی قوانین یانظام
احتساب موثرنہیں توقوانین کوقابل عمل بنایا جائے۔لیکن چونکہ بنیادی مقصد
،اقتدارکی بساط پرعوام کے منتخب نمائندوں کوہٹاکر،اپنی مرضی سے ناچنے والی
کٹھ پتلیاں لانا مقصود ہوتا ہے ،لہٰذا ہرسیاسی تحریک جلد یابدیر
پاپولرلیڈرشپ کوہٹانے کی مہم جوئی بن جاتی ہے۔ذوالفقارعلی
بھٹو،بینظیربھٹواورنوازشریف ایسے مقبول رہنماؤں کی بجائے معین قریشی
اورشوکت عزیزایسے ایمپورٹڈوزیراعظموں کولایا جاتا ہے۔کرپشن پھر بھی جاری
رہتی ہے۔عوام کی توجہ ،نان ایشوزکی جانب موڑدی جاتی ہے۔چونکہ کرپشن کا
خاتمہ تومحض سموک سکرین کے طورپراستعمال ہوتاہے۔اصل میں جن سیا ستدانوں اور
لیڈروں نے عوام کو ایسے عالم میں متحرک کر نا ہے وہ سارے کے سارے میثاقِ
جمہوریت کی آکاس بیل تلے کرپشن زاد رشتے داریوں کے بند ھن میں بندھے ہو ئے
ہیں۔۔اور مزے کی بات یہ کہ سارے کے سارے کرپشن، اقرباء پروری، موروثیت، مرا
ثیت، ٹکے ماری اور معا شی ذلالت کے حمام میں نہ صرف ننگے ہیں !!!اُن کا
ذاتی اور خاندانی نظریہ ہے کہ جمہو ریت عوام کے لیے بہترین انتقام اور
ہمارے خاندانوں کے کاروباروں کے لیے بہترین انتظام و انصرام ہے۔ اِ ن سیا
سی خاندانوں اور سیا سی قیا دتوں نے غربت ، مہنگا ئی، بے روز گاری اور
لوڈشیڈنگ کی چکی میں عوام کو اتنا پیسا ہے کہ عوام ’ پہلے پیٹ پوجا تے فیر
کم دوجا ‘ کے گھمبیر گھن چکروں سے باہر آنے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔میثاقِ
جمہوریت کا تاج اپنے سر پر سجا ئے پاکستانی حکمرانوں اور سیا ستدانوں نے
اپنے آپ کو ڈالرز میں کھرب پتی اور عوام کو ٹکوں میں ککھ پتی بنا ڈالا
ہے۔پاکستان کی سیا سی اشرافیہ نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کی سر پر ستی میں
اپنے اپنے خاندانوں کا نام جمہوریت اور جمہوری نظام رکھ لیا ہے۔جب بھی اِن
کے خاندانوں کی معا شی، سیا سی اور اخلاقی ٹکے ماری پر کوئی گرفت ہو نے
لگتی ہے تو رضا ربا نی کی طرح کے اِن کے حواری اور نام نہاد آئین اور
جمہوریت کے چیمپئن چیمپئن میدانِ عمل میں نکل آتے ہیں۔ جمہوریت خطرے میں
ہے!!!پارلیمانی نظام خطرے میں ہے!!!جمہوری سسٹم ڈی ریل ہونے کو ہے!!! کے
دلفریب نعرے لگا کر عوام کی مت نکال دیتے ہیں۔
ایسے حالات میں میری ہمدردیاں بلاول کے ساتھ ہیں کہ وہ مفاہمتی ’’کنگ‘‘کے
ہوتے ہوئے اپنی توانائیاں ضائع نہ کریں۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ
نوجوان ہیں، عوام کے لیے کچھ کر نے کو بے تاب ہیں ، مگر ان کے ہاتھ بندھے
ہوئے ہیں۔ تھوڑا انتظار کریں شاید کوئی الہامی طاقت آجائے جو پیپلز پارٹی
کے دن پھیر دے ورنہ ایسا فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ پیپلز پارٹی
صحیح معنوں میں دوبارہ ایک منظم جماعت بن کر سامنے آئے۔۔۔ اور کم از کم
حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر سکے۔
آخر میں بلاول کی نذر ایک شعر
ابھار کر مٹائے جا بگاڑ کر بنائے جا
کہ میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا |