رینجر کے کراچی آپریشن کے بعد اپوزیشن اور
دیگر سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھاکہ پنجاب میں بھی رینجرز کے ذریعے دہشت
گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کروایاجائے پنجاب کے کئی علاقوں
خصوصاً جنوبی پنجاب میں نوگو ایریازکو ختم کر وایا جائے رینجر ز کو پنجاب
میں کاروائیاں کرنے کی وفاقی حکومت اور نہ ہی صوبائی حکومت اجازت دینے
کوتیار تھی لیکن سانحہ گلشن اقبال پارک کے بعد عسکری قیادت کے پنجاب میں
آپریشن کے اصولی فیصلے کے بعد فورسز نے کاروائیاں شروع کردیں لیکن وزیر
اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے وزیر داخلہ کے ہمراہ عسکری قیادت کو یہ
باورکرانے کی ایک اور کوشش کی عسکری قیادت کے پاس تمام انفارمیشن موجود
تھیں جس کی بنیاد پر انکی فورسز نے اپنا کام جاری رکھا جوخدشات اپوزیشن
ظاہرنے ظاہر کر کے رینجر سے آپریشن کا مطالبہ کیا تھا اس مطالبے کو تقویت
اور حقیقت چھوٹو گینگ نے کاروائیاں کرکے دیں بلکہ پنجاب پولیس کے اعلیٰ
افسروں کی چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کی غلط حکمت عملی کی وجہ پولیس کے
7جوان شہید ہوئے اور 24 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا پولیس کی اس
ناکامی کی وجہ سے چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کے لئے پاک آرمی کو امداد کے
لئے بلانا پڑا وہاں پنجاب حکومت کے ان تمام دعووٰں کی قلعی کھول دی اپوزیشن
جماعتوں کے آرمی اور رینجرز سے آپریشن کے مطالبے کو تقویت دی پاک فوج کے
جوانوں نے پولیس کو پیچھے بلاکر خود آپریشن کی کمان سنبھال لی اور چھوٹو
گینگ کے خلاف اپنی پیشہ ورانہ حکمت عملی کے تحت بھرپور آپریشن شروع کردیا
اور چھوٹو گینگ کو ہتھیارڈالنے کی وارننگ دے دی اوران کی رسد کے تمام راستے
بند کر دئیے جس کے باعث مجبوراً چھوٹو گینگ نے ہتھیار ڈال دئیے اور ان کے
قبضے سے یرغمال بنائے گئے بچوں اور عورتوں سمیت دیگر یرغمالیوں کو چھڑوا
لیا گیا جبکہ چھوٹو گینگ کئی روز سے آرمی کے اعلیٰ افسروں سے ملاقات کے لئے
پیغام بھجواتا رہا اسے خدشہ تھا کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو پولیس مقابلہ
میں نہ مروا یا جائے جبکہ عوامی حلقوں کا بھی یہ مطالبہ تھاکہ چھوٹوگینگ کے
سربراہ اور اس کے ساتھیوں کو زندہ گرفتار کر کے اصل حقائق معلوم کر کے عوام
کے سامنے لائے جائیں اب یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ایک چائے کی دکان پر ملازمت
کرنے والا چھوٹو جرائم کی دنیا کا ڈان کیسے بنا غلام رسول عرف چھوٹو مزاری
قبیلے کی سب کاسٹ باکرانی سے تعلق رکھنے والا ایک غریب بچہ تھا جوراجن پور
(روجھان) کچے کے علاقہ کا مکین تھا اور دریائے سندھ کے کنارے ایک چائے خانے
پر ملازم تھا سڑک کنارے کراچی سے خیبر تک قائم کھوکھوں ،ڈھابوں اور چھوٹے
چھوٹے ہوٹلوں پر ملازمت کرنے والوں کو عام طور پر چھوٹو کے نام سے پکارا
جاتاہے غلام رسول کو چائے کے ہوٹل پر ملازمت کرنے پر چھوٹو کا نام ملا اسے
جرائم کی دنیا کا ڈان چھوٹو گینگ بنانے میں اور اہم مقام دلانے میں جہاں
پولیس کی روائتی زیادتیوں کے ساتھ ساتھ خاندانی ناہمواریوں قبائلی رسم و
رواج اور علاقہ کے سرداری نظام نے اہم کردار اداکیا علاقہ مکینوں کے مطا بق
غلام رسول توشر وع سے ہی مزدور پیشہ بچہ تھا جوکہ بچپن سے ہی مزدوری کرنے
کے لئے ہوٹل پر ملازمت کرنے لگا اس دوران اس کے بھائی رسول بخش کو قتل کے
مقدمہ میں گرفتار کر کے غلام رسول کو پولیس کی طرف سے جھوٹے مقدمات میں
ملوث کر کے تشدد نے جرائم کی دنیا میں آنے پر مجبور کردیا تو اس نے خود کو
محفوظ رکھنے کے لئے علاقہ کے ممبر صوبائی اسمبلی کے ہاں بطور باڈی گارڈ بھی
ڈیوٹی سرانجام دی اور پولیس کے انفارمر کے طور پر بھی کام کیاپھر خود مویشی
چوروں اغواء برائے تاوان اوردوسرے جرائم کرنے والے گروہوں میں شامل ہوکر
کام کرنے لگا جلدہی کچے کے علاقے میں محفوظ پناہ گاہیں ہونے کی وجہ سے جلد
ہی بدنام زمانہ ڈاکو بن گیا اغوابرائے تاوان کے بڑے گروہوں سے رابطے ہوتے
تو وہ گروہ لوگوں کو اغوا کر کے اس کے پاس کچے کے علاقے میں پہنچا دیتے جن
کے تاوان کی رقم سے اپنا حصہ لے لیتا تھا چھوٹوگینگ کی کاروائیوں سے کئی
گروہ اس کے گینگ میں شامل ہوگئے جس سے چھوٹو گینگ مزیدمضبوط ہوگیا تو پھر
اس گینگ نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیوں کی بڑی
وارداتوں کی معمول بنا لیا ان کاروائیوں کے بعد پولیس نے اس گینگ کے خلاف
2010 میں آپریشن کیا تو چھوٹو گینگ کے ساتھیوں نے کچے کے علاقے روجھان میں
پولیس کے اعلیٰ افسران کے سامنے ہتھیارڈالنے کااعلان کیا تھا چھوٹو اور اس
کے ساتھی گھیراتنگ ہونے پر بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں چلے گئے پولیس
نے کچے کے علاقوں کوجانے والے راستوں پر چیک پوسٹیس قائم کردیں اور ایک بار
پھر کچے کے علاقہ میں اپنی عمل داری قائم کرلی اور وارداتوں کا سلسلہ عروج
پر پہنچ گیا اس گینگ نے ایک ضلعی افسر کو اغوا کرلیا اور تاوان وصول کر کے
اسے رہا کیا جس پر حکومت پنجاب نے2013میں چھوٹو گینگ کے خلاف کاروائی کا
آغاز کیا تو چھوٹو گینگ نے چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 10پولیس اہلکاروں کو
اغوا کر لیا جس میں سے دوپولیس اہل کاروں کو مزاحمت کرنے پر شہیدکردیا گیا
جبکہ بقیہ پولیس اہلکاروں کی بازیابی کے لئے ڈاکوؤں سے مذاکرات کئے گئے جس
کے نتیجہ میں چھوٹو نے مختلف جیلوں میں قید اپنے کزن بہادر خان سمیت
انتہائی مطلوب ڈاکوؤں خالد کجلانی اوراسحاق چنگوانی کے علاوہ کالعدم
تنظیموں کے دیگر ساتھیوں کو چھڑوا کر یرغمالی 8پولیس اہلکاروں کو رہا کر
دیا تواس ساری کاروائی کے بعد چھوٹو گینگ کے حوصلے مزید بڑھ گئے تو دیگر
علاقوں سے جرائم پیشہ افراد اس کے گینگ میں شامل ہوگئے تو اس گینگ نے اس
علاقہ کے وسیع رقبے پر قبضہ کر لیا انہوں نے بنکرتعمیر کر لئے تو یہ علاقہ
مکمل نوگرایریا بن گیا تو قانون کی عمل داری کے لئے ایک بارپھر2014میں
پولیس نے آپریشن شروع کیا تواس میں ایک اے ایس آئی شہیداور دوجوان زخمی
ہوئے چھوٹو گینگ کے پاس جدید خطرناک اسلحہ تھا اس کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے آئی جی پنجاب نے فضائی دورہ کیا توان کے ہیلی
کاپٹر پر راکٹ بھی فائر کیاگیا تھا بعدازاں پولیس نے پولیس انسپکٹر غلام
محبتبیٰ گورمانی کی شہادت میں ملوث چھوٹو گینگ کے دوبڑے ڈاکوؤں اکرم( اکری)
سکھانی اور غفور جتانی کو غازی گھاٹ کے علاقہ میں مقابلہ میں ماردیا لیکن
چھوٹو گینگ کامکمل خاتمہ نہ ہوسکا جبکہ 2015میں اس دوران دریائے سندھ میں
پانی کی سطح بلند ہونے اورسیاسی مصلحتوں کے باعث یہ آپریشن روک دیا
گیا۔2اپریل کو ڈی پی او ڈیرہ غازی خاں مبشر میکن نے چھوٹو گینگ کے خلاف ضرب
آہن کے نام سے پانچواں آپریشن شروع کیا جس میں8اضلاع کی پولیس کے جوان شامل
تھے آپریشن کے آغاز پرکئی نوگوایریاز کو ختم کیا اور چھوٹو گینگ کے خلاف
پیش قدمی جاری رکھی ہوئی تھی کہ12اپریل کو کشتی پر سوار ہوکر پولیس اہلکار
کاروائی کے لئے جارہے تھے کہ چھوٹو گینگ کے آدمیوں نے دریامیں ان کو یرغمال
بناکر اپنے ساتھ لے گئے جبکہ سات اہلکاروں کو شہید کردیا گیا پولیس
اہلکاروں کی شہادت اور یرغمال بنائے جانے کو ماہرین نے ناقص حکمت عملی قرار
دیا جس پر پولیس کی کارکردگی پرسوالیہ نشان لگ گیالیکن چھوٹو گینگ نے
آپریشن ضرب عضب سے بچنے کے لئے بھاگ سوئے کالعدم تنظیموں اور دیگر علاقوں
سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند بھی چھوٹو گینگ میں پناہ لئے ہوئے ہیں جبکہ
کئی غیر ملکی خطرناک جنگجوؤں کی موجودگی کے بارے میں اطلاعات مل رہی ہیں جن
کی وجہ سے چھوٹو گینگ ایک منظم اور خطرناک طریقہ سے آپریشن کرنے والے
سیکورٹی جوانوں کے خلاف مزاحمت کررہا ہے پاک فوج کی طرف سے چھوٹو گینگ کے
خلاف اپریشن کی کمان سنبھالنے سے اس علاقہ کے لوگوں میں امید کی کرن پیدا
ہوئی ہے کہ یہ علاقہ اب ہمیشہ کیلئے چھوٹو گینگ اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں
کے قبضہ سے آزاد ہوسکے گا علاقہ میں جرائم پیشہ افراد کے سہولت کاروں اور
ان کے ہمدرد پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنے کے لئے غلام رسول
المعروف چھوٹو کا زندہ پکڑا جانا ضروری اور انتہائی ناگزیر ہے |