اِس سے پہلے ہم نے چار ایسے عناصر دیکھے جن کی کمی شعر کو
ناقص بنا دیتی ہے۔۔ اب ہم مختصراََ دس ایسے "ہتھیاروں" کی بات کریں گے جن
کے درست استعمال سے شاعر اپنے بیان میں جان ڈال سکتا ہے۔
- منظر کشی
ایسی منظر کشی جو قاری کے حواسِ خمسہ (ایک یا زائد) کو اپیل کرے۔ مثلاََ
میر تقی میر کے یہ اشعار دیکھیں (پہلے میں خوشبو اور دوسرے میں لمس)
آتشِ غم میں دل بُھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے
نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اِک گُلاب کی سی ہے
- تجسم
تجسم یہ ہے کہ کسی بے جان یا غیر انسانی چیز کو جانداروں یا انسانوں جیسی
خصوصیات سے نواز دیا جائے۔ اِسی کو انگریزی میں پَرسانِیفِیکَیشَن کہتے
ہیں۔ اِس کے استعمال سے شاعر بہت دلچسپ معانی، خیال، اور "مناظر" پیش کر
سکتا ہے۔ مثلاََ میر درد کے اِس شعر میں پھولوں اور شبنم کے تجسم سے ایک
کمال منظر جنم لیتا ہے۔
ہمیں تو باغ تجھ بن خانہِ ماتم نظر آیا
اِدھر گُل پھاڑتے تھے جیب، روتی تھی اُدھر شبنم
شاید یہی وجہ ہے کہ تجسم کا استعمال اساتذہ کے ہاں جا بجا ملتا ہے۔
- خطاب اور مکالمہ
خطاب اور مکالمے کے ذریعے کلام میں کشش پیدا کی جا سکتی ہے۔ رومی اور اقبال
دونوں کے ہاں اِن کا خوب استعمال ملتا ہے۔ خطاب میں شاعر کسی حاضر یا غائب
شے یا گروہ کو مخاطب کر کے بات کرتا ہے، مثلاََ یہاں شاعر ایک خیالی مجمعے
سے مخاطب ہے
یہ مصرع لکھ دیا کِس شوخ نے محرابِ مسجد پر؟
یہ ناداں گِر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
یا یُوں بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شے یا فرد شاعر سے خطاب کرے۔ مثلاََ
میں جو سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تِرا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں؟
اِسی طرح اشعار میں مختلف کردار تخلیق کر کے اُن کے باہمی مکالمے سے دلچسپ
کشمکش پیدا کی جا سکتی ہے۔ مثلاََ کلامِ اقبال میں دیکھیں "ایک پہاڑ اور
گلہری"، "شمع اور شاعر"، "چاند اور تارے"،، "عقل و دل" اور "خضرِ راہ"
وغیرہ۔
- تضاد
متضاد احساسات، افعال اور صفات کو ایک جگہ جمع کر کے قاری کے ذہن کو
گدگدانے کے ساتھ ساتھ بیان میں حُسن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ مثلاََ
(احساسات)
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے
اور
(افعال)
وہ گیت سارے وہ دیپ سارے
جلا کے جانا بجھا کے جانا
نظر نظر سے مِلا کے جانا
اور
(صفات)
سناٹے کا شور
اِس آخری مثال کو انگریزی میں "آگزی موران" (متضاد صفات کا مرکب) کہتے ہیں۔
- تقابل : تفریق، تشبیہ، استعارہ
تشبیہ اور استعارے سے عموماََ ہم واقف ہوتے ہیں۔ یہاں میں صرف تفریق پر بات
کروں گا۔ تفریق میں دو چیزوں کے درمیان فرق کے ذریعے ایک چیز کی حقیقت یا
خصوصیت کو واضح کیا جاتا ہے۔ مثلاََ
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں!
سنگ و خشت سے تقابل دل کی نرمی اور ایک زندہ شے ہونے پر زور دے رہا ہے۔
- صوتی اثرات : بحر، قافیہ، ردیف، تکرار (آواز، لفظ، فقرہ)، صوتی تراکیب
صوتی اثرات (موسیقیت، نغمگی، روانی) کے لئے بحر، قافیہ اور ردیف کے استعمال
سے ہم واقف ہیں۔ اِن کے علاوہ "تکرار" اور "صوتی تراکیب" کے استعمال سے بھی
کلام میں مزید حُسن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ قافیہ اور ردیف خود بھی تکرار کی
دو شکلیں ہیں۔ ردیف میں ایک یا ایک سے زائد الفاظ (فقرہ) ہوبہو دہرائے جاتے
ہیں اور پڑھنے سُننے والے اِس تکرار سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قوافی میں چند
حروف (لیکن غیر مکمل لفظ) پر مشتمل آواز کی تکرار سے نغمگیت پیدا کی جاتی
ہے۔ مگر تکرار کے استعمال کے لئے ہم ردیف اور قافیے تک محدود نہیں ہیں،
بلکہ ایک ہی مصرعے کے اندر ہی خاص آوازوں اور الفاظ کی قریب قریب تکرار سے
خاص موسیقیت پیدا کی جا سکتی ہے۔ مثلاََ جالب کا شعر دیکھیں
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
یہاں پہلے مصرعے میں ظ اور ض کی ملتی جُلتی آوزوں ("ظلمت کو ضیا") اور پھر
ص کی تین بار فوری تکرار ("صرصر کو صبا") سے مصرعے کے الفاظ کا ایک خاص
صوتی رشتہ سا بن جاتا ہے۔ اِسی طرح دوسرے مصرعے میں حرف "ر" کا بار بار آنا
شعر کے صوتی حُسن کو دوبالا کر رہا ہے ("پتھر کو گُہر، دیوار کو دَر")۔
یہ تو تھی آوازوں کی تکرار، اب داغ کے اِس شعر میں مکمل الفاظ کے دو دو بار
دہرائے جانے سے پیدا ہونے والی موسیقیت کو دیکھیں
تری محبت نے مار ڈالا ہزار ایذا سے مجھ کو ظالم
رُلا رُلا کر، گھلا گھلا کر، جلا جلا کر، مٹا مٹا کر
اِسی طرح ایک مصرعے میں "اندرونی قوافی" سے بھی نغمگیت پیدا کی جا سکتی ہے۔
مثلاََ اِس مصرعے کے چار حصے ہم قافیہ ہیں (اور دیکھیں کیسے زبان پر جاری
ہوتے جاتے ہیں)
مِرا عیش غم، مِرا شہد سم، مِری بود ہم نفسِ عدم
تکرار کے علاوہ "صوتی تراکیب" بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ صوتی ترکیب (یا
اسمائے اصوات) سے مراد وہ الفاظ ہیں جو کسی اصلی شے کی آواز کو کاپی کرتے
ہیں (جیسے دھک دھک، ٹپ ٹپ)۔ مثال
پھر ٹپ ٹپ آنسو ٹپکیں گے، اور رم جھم بارش برسے گی
- مبالغہ
مبالغے کے لئے شعراء بدنام ہیں۔ بہرحال اِس کا درست استعمال کلام کو پُرلطف
بناتا ہے۔ ایک مثال
جب تک تجھے نہ دیکھوں سورج نہ نکلے
زلفوں کے سائے سائے مہتاب ابھرے!
- خوش کلامی
سخت یا بُرے الفاظ کے استعمال سے شعر "ادبی" طور پر ناپسندیدہ ہو سکتا ہے۔
اِس لئے اہم ہے کہ نفیس الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ مثلاََ یہاں بجائے یہ
کہنے کے کہ "ہر کسی نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے"، شاعر نے ادبی پیرائے میں بات کو
پیش کیا ہے
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
- اشارہ، تلمیح
اِن سے بھی ہم عموماََ واقف ہوتے ہیں۔ مختصراََ یہ کہ کسی جانے پہچانے
واقعے، شے یا فرد (حقیقی یا خیالی) کی عام مانوسیت کو استعمال میں لا کر
شعر کو دلچسپ بنایا جا سکتا ہے۔ مثلاََ یہاں مجنوں (قیس) کی مقبولِ عام
کیفیت کو خوب استعمال کیا گیا ہے
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے کی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
- مزاج
خاص مزاج کے تواتر سے بھی ایک دلچسپ کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ مثلاََ غالب کے
ہاں شوخی/شرارت خوب ملتی ہے۔ اسی طرح اقبال کے ہاں امر و نہی (دیکھ!، کر!،
چھوڑ دے!)، فیض کے ہاں حفیف طنز/گِلے ، اور جون ایلیا کے ہاں لاابالی پن کی
سی کیفیات وافر مقدار میں ملتی ہیں۔ (یہ سب استاد شعراء ہیں، اِس لئے یہ
کہنا تو غلط ہو گا کہ صرف یہی کیفیات ملتی ہے، پر میری رائے میں کچھ کچھ
غلبہ اِنہی کا ہے )۔ ایک ایک مثال
ہے کیا جو کَس کے باندھئے، میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں؟
- غالب
مِرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!
- اقبال
دلداریِ واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ
اب شہر میں ہر رندِ خرابات ولی ہے
- فیض
شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں
- جون ایلیا
تحریر: ابنِ مُنیب
(نوٹ: یہ سب میرے مطالعے اور مشاہدے پر مبنی ہے۔ اردو اصطلاحات کچھ جانی
پہچانی ہیں اور کچھ میں نے حسبِ ضرورت "ایجاد" کی ہیں۔ اِس فہرست کے حتمی
ہونے کا کوئی دعوی نہیں)۔ |