کوئی لائحہ عمل؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
چھوٹو گینگ کی کہانی کی تفصیل قوم نے
جان لی، اب اس کے محرکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ گینگ کیوں پیدا ہوتے
ہیں، قوم کا جینا کیوں دوبھر کرتے ہیں، لوگوں کی آبرو اور جان و مال سے
کیوں کھیلتے ہیں، کیوں اتنے سفاک ہو جاتے ہیں کہ لوگوں کو قتل کرتے، تاوان
کے لئے اغوا کرتے اور تباہی وبربادی کا موجب بنتے ہیں؟ اس کے پیچھے سب سے
اہم عنصر ماحول ہے، غربت، ناخواندگی، اور جاہلیت مل کر لوگوں کو جرائم پیشہ
بنا دیتے ہیں، جرم کی دنیامیں قدم رکھتے ہی سب سے پہلا واسطہ پولیس سے پڑتا
ہے، اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پولیس اپنے رویوں سے عام آدمی کو
بھی ڈاکو بنانے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہوتی ہے۔ جو لوگ ایک مرتبہ کسی
چھوٹے موٹے جرم میں بھی تھانے میں پہنچ جائیں، تو پولیس اس کا یہ حشر کرتی
ہے کہ وہ تھانے سے نکلتے وقت ہی شرافت کا خول اتار پھینکتا ہے، اور اس عزمِ
مصمم کے ساتھ باہر آتا ہے کہ اب اگر کوئی کام کرنا ہے تو وہ یہ کہ قانون
شکنی کو شعار بنانا ہے، قانون سے ٹکر لینی ہے اور پولیس جہاں بھی دکھائی دے،
اس پر حملہ کرنا اور اسے نقصان پہنچانا ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک ہی قبیل
کے لوگ باہم اکٹھے ہوتے جاتے ہیں اور گینگ بن جاتا ہے، اس کے بعد یہی کچھ
ہوتا ہے، جو راجن پور کے کچے کے علاقہ میں ہوا۔
اگر چھوٹو گینگ کا سربراہ غلام رسول پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا تو وہ اس کا
انجام کیا ہوتا؟ یہ سب کو خبر ہے، اسے اول تو راستے میں ہی پار کردیا جاتا،
اگر جیل کی ہوا کھانا پڑتی تو وہ کسی پیشی میں ہی پھڑکا دیا جاتا، قوم کو
بتایا جاتا کہ ہم چھوٹوا ور اس کے ساتھیوں کو عدالت لے جارہے تھے کہ راستے
میں اس کے ساتھیوں نے حملہ کردیا ، اور ملزم کو چھڑوانے میں کامیاب ہوگئے،
پولیس نے ملزم کو بازیاب کروانے کی کوشش کی تو مزاحمت کے دوران چھوٹو اور
اس کے ساتھی ہلاک ہوگئے، (جو لوگ چھڑوانے آئے تھے ان کے بارے میں خبر گول
ہو جاتی ہے، یا وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں)۔ پولیس کی یہ کہانی
مستقل ہے، ہر موقع پر یہی سٹوری گھڑی جاتی ہے۔ پولیس کے ایسا کرنے کی
وجوہات ہیں، اول یہ کہ اس کہانی کے پیچھے یہ فلسفہ ہوتا ہے کہ عدالتیں ایسے
لوگوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچاتیں، جن کی بنا پر وہ دوبارہ باہر آکر
ماحول خراب کرتے ہیں، دوم یہ کہ اگر ایسے لوگوں کو پولیس راستے سے نہ ہٹائے
تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ پولیس کے بہت سے راز فاش کرسکتے ہیں۔ اب
چھوٹو چونکہ پولیس کے قابو نہیں آیا، اس لئے فی الحال تو وہ زندہ بچ گیا ہے،
دیکھیں وہ جیل سے پیشی پر جاتے ہوئے بھی بچ نکلا تو پولیس کے بارے میں بہت
سے رازوں سے پردہ اٹھائے گا۔
غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ گلی گلی میں چھوٹو گینگ موجود ہے،فرق یہ ہے کہ
کوئی بڑے پیمانے پر ہے اور کوئی چھوٹے پیمانے پر۔ یہ سب کچھ معاشی اور
معاشرتی ناہمواریوں کی بنا پر ہوتا ہے، گویا سب سے پہلے اس بات کی طرف توجہ
دی جائے کہ ایسی خرابیاں پیدا ہی نہ ہوں جو بعد میں بڑی مصیبتوں کا روپ
دھار لیں۔ اس کے لئے جہاں تعلیم کی اہمیت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے، اسے
عام کرنا ضروری ہے وہاں حکمرانوں کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ معاشی ناہمواریوں
کو بھی کم کرے۔ ایک طرف اربوں کھربوں کی باتیں ہیں اور میٹرو بسوں کے بعد
میٹرو اورنج ٹرین چلنے کو ہے، تو دوسری جانب سڑکیں ہی نہیں، ہیں تو نہایت
خستہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔ ہسپتال ہیں تو ڈاکٹر نہیں اور ادویات ندارد۔
سکول ہیں تو اساتذہ نہیں اور سہولتوں کا فقدان۔ قانون ہے تو صرف کچھ
کمزوروں اور چند غریبوں کے لئے۔ ایسے میں چھوٹو نہیں پیدا ہونگے تو کیا
سائنسدان پیدا ہونگے؟ حکومتیں ایک جانب تمام وسائل صرف دارالحکومتوں میں ہی
جھونک رہی ہیں، دوسرا ستم یہ کرتی ہیں کہ دور دراز کے علاقوں کا حال ہی
معلوم نہیں کرتیں، کہ وہاں ان بادشاہوں کی رعایا کس قسم کی زندگی گزار رہی
ہے۔ اس سے نفرت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور انتقامی کاروایئاں بھی سامنے آتی
ہیں۔ پولیس کی اصلاح کے دعوے دم توڑ چکے ہیں، اس کو دیئے گئے اسلحے کی قلعی
بھی کھل گئی ہے، اس کی تربیت اور دہشت گردی کے خلاف ان کی کوششوں کے مناظر
بھی قوم نے دیکھ لئے ہیں۔ پولیس دراصل ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لئے ہے بھی نہیں،
بلکہ یہ حکمرانوں اور وی آئی پی کلچر کے فروغ کے لئے کام میں لائی جاتی
ہے۔نظام میں بہتری لانے کے لئے کوئی لائحہ عمل بھی دکھائی نہیں دیتا۔
|
|