انتخابی سیاست کو سمجھیں مسلمان
(Tasleem Ahmed Rehmani, India)
ہندوستانی مسلمانوں کے بہت سے مسائل ایسے
ہیںجنھیںخود مسلمان اوران کے دانشور جانتے ہیں۔لیکن کچھ ایسے مسائل بھی ہیں
جن سے خود مسلمان بھی واقف نہیں ہیں،بات اگر صرف سیاست کی کی جائے تو یہ
صاف ظاہر ہے کہ مسلمان انتخابی سیاست کے ہنر سے مکمل طور پر ناواقف ہیں۔حتی
کہ مسلمانوںکے سیاسی لیڈر جو مختلف سیاسی جماعتوںمیں بڑے عہدوںپر فائز
ہیںوہ بھی اس ہنر سے ناواقف ہیںاوربس اپنے ہی اسمبلی یاپارلیمانی حلقے کی
ریاضی جانتے ہیں،امت کی سیاسی نمائندگی کیسے ہو؟اس سے انھیں کوئی سروکار
نہیں ہے۔ا وریہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ لایعنی بحثوں میں تو الجھے رہتے ہیں
لیکن زمینی حقائق کا تجزیہ نہیں کرتے۔
سیاست کی تاریخ سب سے پہلے ارسطو نے بیان کی تھی ۔یونانی زبان کے اس لفظ کا
مطلب عام شہریوںکی فلاح وبہبود کے انتظام کرناہے ۔دوسرے لفظوں میں اسی کو
حکمرانی کہتے ہیں۔اسلام نے بھی سیاست کی تعریف کرتے ہوئے اسے حکمت مدنیہ ہی
قرار دیاہے۔ حالانکہ ہمارے علماءآزادی کے بعد سے اب تک اسے شجر ممنوعہ ہی
قرار دیتے ہیں۔ اس سیاست کو تین حصوں میںتقسیم کرکے سمجھاجاسکتاہے۔۱۔کسی
مخصوص نظریہ،خیال،منصوبہ کو سماجی بہبود کے لیے بروئے کار لانے کی
پالیسی(Ideology) ،۲۔اس غرض سے مختلف افراد ،گروہوں اوردیگر ہم خیال طبقات
سے رابطہ کاری(Politicking)۳۔حکمرانی(Governance)اسی تیسرے حصہ یعنی
حکمرانی کو حاصل کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ان میں سے ایک جمہوریت ہے جو
انتخابی حکمت عملی کے ذریعے حکومت حاصل کرنے کا نام ہے۔گویاایک جمہوری نظام
حکومت میں اپنے نظریے کے مطابق حکومت سازی کے لیے ایک مخصوص انتخابی حکمت
عملی کو اختیار کرنا لازمی ہوگا۔یہی وہ حکمت عملی ہے جو آج کل باقاعدہ ایک
سائنس اورعلم کی حیثیت اختیار کرچکی ہے مگر مسلمان اس کی اہمیت کو سمجھنے
سے قاصر ہیں۔
اس انتخابی حکمت عملی کی تازہ مثالیں۳۱۰۲کا دہلی،راجستھان اورمدھیہ پردیش
وغیر ہ کے اسمبلی انتخابات اوراس کے بعد ۴۱۰۲کے لوک سبھاانتخابات ہیں جنہوں
نے یہ ثابت کردیاکہ ایک مخصوص طریقے سے ووٹوںکو تقسیم کرکے بہت کم حصہ
ووٹوںکا حاصل کرکے بھی حکومت سازی کی جاسکتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے
ہیں کہ ۵۲۱کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں جہاں تقریبا۰۸کروڑ رائے دہندگان
موجود ہیں ان میں سے محض ۶۱کروڑ رائے دہندگان کے ووٹ حاصل کرکے بی جے پی نے
ایک ۲۸۲حلقوں میں کامیابی حاصل کرلی جب کہ ۱۱کروڑ ووٹ حاصل کرنے والی
کانگریس کو محض ۴۴سیٹوں پر سمٹناپڑا۔اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ
۳کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی ملک کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بی
ایس پی کو ایک بھی نشست نہیں ملی جب کہ اس سے بہت کم ووٹ حاصل کرنے والی
جماعتوںکو اچھی خاصی سیٹیں مل گئیں۔یہ وہ اعداد وشمار ہیں جن کا بنظر غائر
تجزیہ کرناچاہیے اورملک کی تمام ۵۴۵لوک سبھا حلقوں کا الگ الگ تجزیہ
کرناچاہیے تب یہ سمجھاجاسکتاہے کہ ووٹوں کی تقسیم کا آخر یہ کون سا طریقہ
کار تھا جس نے ایسانتیجہ پیداکیا۔ظاہر ہے کہ یہ ایک مخصوص انتخابی حکمت
عملی کا نتیجہ ہی قرار دیاجاسکتاہے۔کہاجاتاہے کہ ان دنوں بی جے پی کے صدر
امت شاہ اس انتخابی حکمت عملی کے سب سے بڑے ماہر ہیں جو اپنی نگرانی میں
ایک ایک سیٹ کی الگ الگ حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔پہلے یہ انتخابی حکمت عملی
ریاستی سطح پر وہاں کے حالات ،معاملات ،مختلف ذاتوں،قبیلوں اورمذہبی
اکائیوں کی تعداد پر منحصر ہواکرتی تھی ،بعد کے زمانے میں یہ حلقہ حلقہ الگ
ہونے لگیں ،اب یہ عالم ہے کہ ہر ایک حلقے کے الگ الگ بوتھ کی الگ الگ حکمت
عملی تیار کی جاتی ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ملک کے ہر
ایک اسمبلی حلقے میں عام طور پر ۰۰۳بوتھ ہوتے ہیںاورہر بوتھ پر اوسطاً ایک
ہزار ووٹ ہوتے ہیں ،یعنی ہر ہزار ووٹ کی الگ حکمت عملی تیارکی جاتی ہے
اوراس طرح انتخابات جیتے اورہارے جاتے ہیںجو حکمت عملی کو مضبوطی سے
اختیارکرتاہے وہ کامیاب ہوجاتاہے اورجو اس میں چوک جاتاہے وہ ناکام
ہوجاتاہے۔لوک سبھاانتخاب میں تو اس حد تک محنت کی گئی کہ محض ۰۵،۰۵ووٹ حاصل
کرنے کے لیے الگ الگ ٹیمیں بنائی گئیں،تب کہیں جاکر ۱۳فیصد ووٹ بی جے پی کو
مل سکے۔یہ حکمت عملی جو اب ایک سائنس کی صورت اختیار کرگئی ہے ،اسے
Psephologyبھی کہاجاتاہے اورElectoral airthmeticانتخابی ریاضی بھی
کہاجاتاہے۔اسی بنیاد پر انتخابات سے پہلے ہی نتائج کے اندازے اورہار اور
جیت کی پیشین گوئیاں بھی کی جاتی ہیں۔اس پورے علم سے مسلمان ناواقف ہیں۔
۳۱۰۲کے ریاستی اسمبلیوںکے انتخابات میں عام طور پر مسلمانوںنے کانگریس کو
ووٹ دیاتھا اورنتیجہ یہ نکلاکہ ہر جگہ کانگریس کو بری طرح شکست کا
سامناکرناپڑا۔دلی اورراجستھان میںتو خاص طور پر انتہائی شرمناک شکست ہوئی ۔دلی
میںکانگریس کو صرف ۸سیٹیں ملیں جو اکثر مسلم اکثریتی علاقوںکی تھیں،اسی طرح
راجستھان میں بھی کانگریس ۰۲سے زیادہ نشستیں نہیں حاصل کرسکیں۔اسی طرح ۴۱۰۲لوک
سبھاانتخاب میں بھی مسلمانوںنے جس پارٹی کو بھی ووٹ دیاوہ پارٹی اکثر
جگہوںپر ہار گئی ۔صرف چند جگہوںپر جہاں کوئی علاقائی پارٹی خود ہی جیتنے کی
پوزیشن میں تھی اور ویاں بی جے پی کمزور تھی وہاں مسلمانوںکے ووٹ سے کچھ
فائدہ ہوا۔اس نتیجے سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ دانستہ طور پر یہ کوشش کی گئی کہ
مسلمانوںکا ووٹ بے اثر ہوجائے اوراسے حاشیے پر کھڑاکردیاجائے۔ایسے نتیجے
اچانک اوربغیر کسی مخصوص حکمت عملی کے اپنائے حاصل نہیں ہوتے ۔اسی نتیجے کے
بعد یہ کہاگیاکہ بی جے پی ۵۱فیصدووٹوںکو درکنار کرنے کی سیاست کررہی اورصرف
۵۸فیصد کی سیاست کررہی ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ دلی میں کانگریس کے ہاتھوں
سے ساراووٹ چھین لیاگیااورمسلم ووٹ کو نہیں چھیڑاگیا۔اس کی دوسری مثال
اترپردیش کا لوک سبھاالیکشن ہے جہاںمسلم ووٹ کو سماج وادی پارٹی کی طرف
جانے دیاگیااورسماج وادی پارٹی سے اس کا روایتی ووٹ چھین لیاگیا۔نتیجے
میںتنہامسلم ووٹ حاصل ہونے کی وجہ سے یہ پارٹیاں ہار گئیں۔ایساہی کچھ بہار
میں بھی ہواتھا۔کہاجاسکتاہے کہ لوک سبھاانتخاب کے بعد دلی اسمبلی انتخابات
میں سارامسلم ووٹ عام آدمی پارٹی کو ملاتھااوراس میں ۰۷میں سے ۷۶سیٹیں عام
آدمی پارٹی نے جیت لی تھیں اس نتیجے کے اعتبار سے ہماری پہلی بات غلط ثابت
ہوتی ہے ۔یہی مثال بہار کے مہاگٹھ بندھن کے سلسلے میں بھی پیش کی جاسکتی ہے
جہاںمسلم ووٹ یکمشت مہاگٹھ بندھن کو ملاتھالیکن غور سے دیکھیے تو یہ ایک
دوسری انتخابی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ان دونوں ریاستوں میں جیتنے والی
پارٹیوں کے پاس پہلے سے ایک قابل لحاظ ووٹ موجود تھاجس میں مسلم ووٹ بغیر
کسی کوشش کے اضافہ ہوگیاتھا۔بہار میں مہاگٹھ بندھن کے پاس نتیش کمار کا
اپناپسماندہ طبقات کا ووٹ اورلالوپرساد یادوکے پاس یادوووٹ پہلے سے موجود
تھا۔اس کے ساتھ کانگریس کا کچھ روایتی ووٹ بھی جڑ گیاتھا۔اتنی بڑی تعداد
میں اکٹھاہوئے ووٹ کے ساتھ مسلم ووٹ نے جڑکر اسے اورطاقت دے دی ۔لیکن غور
سے دیکھیے اگر اس ووٹ میں سے مسلم ووٹ کو نکال لیاجائے تو بھی اس مہاگٹھ
بندھن کو بہت زیادہ نقصان نہ ہوتا۔یہی واقعہ دلی میں عام آدمی پارٹی کے
ساتھ بھی پیش آیاکہ اس کے پاس دیگر طبقات کا ووٹ اتنی بڑی تعداد میں
اکٹھاہواکہ اگر اس میں سے مسلم ووٹ کو کم کردیں تو بھی عام آدمی پارٹی آرام
سے جیت جاتی ۔گویاان دونوں جگہوںپر حکمراں جماعتوںکے لیے مسلم ووٹ محض ایک
اضافی ووٹ بن کے رہ گیاجو اگر نہ بھی ملتاتو یہ پارٹیاں انتخاب جیت
لیتیں۔یعنی ہر دوصورت میں مسلم ووٹ غیر اہم ہی ثابت ہوا۔یہی وجہ ہے کہ
انتخابات کے وقت بہار میں مہاگٹھ بندھ کے لیڈر مسلمانوں سے یہ کہتے رہے کہ
خاموشی سے ووٹ دیجیے۔ہم نے مسلمانوںکی زیادہ بات کی تو ردعمل کے طور پر
ہندوووٹ اکٹھاہوجائے گا۔گویامسلمانوںنے ووٹ بھی دیااوران کو کوئی اہمیت بھی
نہیں دی گئی ۔انتخاب کے وقت بھی انھیں خاموش کردیاگیااورحکومت سازی کے بعد
بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ۔عام آدمی پارٹی نے بھی دلی میں انتخابات
کے وقت بھی مسلمانوںکی خواہشات کو نظر انداز کیاتھااوراب انتخابات کے بعد
بھی مسلم مسائل جہاںکے تہاں ہیںاس سب کی وجہ صرف یہ ہے کہ انتخابی سیاست
میں مسلم طبقہ کا ووٹ با اثر نہیں سمجھا گیا۔مسلمانوںمیں ان انتخابی حکمت
عملیوںکو سمجھنے والے لوگ ہوتے تو بہار میں بھی ایسی مخصوص حکمت عملی
اختیار کی جاسکتی تھی کہ مہاگٹھ بندھن مسلمانوںکی سننے پر مجبور ہوجاتا۔ اب
ظاہر ہے کہ اگر ۵۱فیصد ووٹ کو درکنار کرنے کی سیاست رائج ہو ہی چکی ہے تو
اس ۵۱فیصد ووٹر کو اپنی علحدہ حکمت عملی وضع کرلینی چاہئے۔ مگر یہ اسی وقت
ہوسکتاہے کہ یہ طبقہ ایک ایک سیٹ کا الگ الگ مطالعہ کرے اورجہاں ان کے ووٹ
زیادہ ہیں اوردوسرے طبقات کے ووٹ منتشر ہونے کے امکانات ہیں وہاں وہاں وہ
اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں۔
ملک میں مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں لیکن یہ سیاسی جماعتیں
ملک گیر سطح پر کوئی مشترکہ حکمت عملی بنانے سے قاصر ہیں وہ یاتو محض ایک
دو حلقوںمیں کامیابی کے لیے ہی کوشاں رہتی ہیں یاکسی دیگر سیاسی جماعتوںکو
فائدہ نقصان پہنچانے کی غرض سے برسرعمل رہتی ہیں ۔امت کا مجموعی مفاد
اورمسلمانوںکی متناسب نمائندگی ان کے پیش نظر نہیںہوتی ۔دوسری جانب خود ملی
تنظیمیں بھی جو خود کو غیرسیاسی کہتی ہیں اورانتخابات کے وقت اچانک سیاسی
بن کر ہر سیٹ پر مسلمانوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ کہاں کس کو ووٹ دیں ،وہ خود
بھی نہیں جانتی کہ ان سیٹوں پر مختلف طبقات کا تناسب کیاہے اور وہ کس جماعت
سے متا ¿ثر ہیں ۔ان کے پیش نظر بس ایک ہی نعرہ رہتاہے کہ بی جے پی کو ہرانے
والے لوگوں کو کامیاب کیاجائے۔اس کے نتیجے میں چاہے جو بھی جیتے ۔انھیں نہ
تو اس سے کوئی سروکار ہے اورنہ ہی اس بات سے کوئی غرض ہے کہ اس طریقے سے
مسلمانوں کی متناسب نمائندگی بھی ہوسکے گی یا نہیں۔۰۸۹۱میں بی جے پی کے
قیام سے لے کر اب تک ۶۳سالوںسے مسلمانوںکے مختلف طبقات یہی نعرہ لگاتے
لگاتے ہار گئے کہ بی جے پی کو ہرانے والوںکو ووٹ دیاجائے ،یہ نہ تو کوئی
انتخابی حکمت عملی ہے اورنہ کوئی سیاسی طریقہ کار ہے بلکہ جمہوری سیاست میں
یہ ناعاقبت اندیشی کی سب سے بڑی مثال ہے کہ ہم نے ایک دشمن کو ممیز کرکے تو
سامنے کھڑاکردیالیکن قابل بھروسہ دوست اوربرابر کے حلیف بنانے میں ناکام
رہے۔ آج جس کو ہم سیکولر مان کر ووٹ دے رہے ہیں کل وہی بی جے پی میں شریک
ہو جاتا ہے یا کوئی جب تک بی جے پی میں ہے تو فرقہ پرست ہے جیسے ہی اپنے
سیاسی مفاد کی خاطر وہاں سے نکلا سیکولر ہو گیا۔ اسی نعرے کی وجہ سے بی جے
پی نے بتدریج یہ حکمت عملی اختیار کی کہ وہ ووٹرجو اسے اچھوت سمجھتاہے خود
اسی کو سیاسی اچھوت بنادیاجائے ۔آج عملا دیکھا جاسکتاہے کہ مسلمانوں کے ووٹ
حاصل کرنے والی سیکولر سیاسی جماعتیں بھی یہ اعتراف کرنے میں جھجھک محسوس
کرتی ہیں کہ انھیں مسلمانوں کا ووٹ ملاہے یا انھیں مسلمانوں کا ووٹ
چاہیے۔ایک زمانہ تھاجب بی جے پی واقعی سیاسی اچھوت تھی اورملک کی کوئی بھی
سیاسی جماعت اسے منہ لگانے کو تیار نہ تھی ،وہ تو بھلاہوجے پرکاش نارائن کا
کہ جنھوںنے ۶۷۹۱کے زمانے میں جب کانگریس کے خلاف بغاوت چھیڑی تو آرایس ایس
اورجن سنگھ کو بھی اپنے ساتھ شریک کرلیااورپھر جنتاپارٹی کی تشکیل میں بھی
جن سنگھ شریک ہوگئی ،جس سے اسے اس اچھوت پن سے بڑی حد تک نجات مل
گئی۔جنتاپارٹی کی حکومت کے بعد قائم ہوئی بی جے پی نے جے پرکاش نارائن کی
اسی سیاسی سخاوت کا فائدہ اٹھاکر اپنے برگ وبار پھیلائے اوربالآخراقتدار تک
پہنچ گئی اورآہستہ آہستہ مختلف سیاسی جماعتوں کی مجبوری بن گئی ۔اٹل بہاری
واجپئی نے اپنی ۳۱دن کی حکومت کے اختتام کے وقت لوک سبھامیںکھڑے ہوکر واضح
طور پر کہاتھاکہ ہم کو سیاسی اچھوت نہیں بنایاجاسکتااوراس کے فورابعد
انھوںنے جو انتخابی حکمت عملی تیار کی اس کے نتیجے میں ۸۲پارٹیوںکا این ڈی
اے بھارتیہ جنتاپارٹی کی قیادت میں قائم ہواجس میں سیکولرزم کی خاطر جینے
اورمرنے کے بڑے بڑے دعوے کرنے والی سیاسی جماعتیں اورلیڈران شریک تھے ۔یہی
این ڈی اے آج تک نہ صرف قائم بلکہ مرکزمیں ایک مستحکم سرکار بھی چلارہاہے
اورآج ملک میں دوتین سیاسی جماعتوں کے سواکوئی ایسی قابل ذکر پارٹی نہیں
بچی جس نے بی جے پی کے ساتھ مل کر کبھی نہ کبھی حکومت نہ کی ہوحتی کہ اب
کشمیر میں بھی پی ڈی پی نے اسی اچھوت کہلائی جانے والی بی جے پی کے ساتھ مل
کر مخلوط حکومت بنالی ہے اوراٹل بہار واجپئی نے آخر کار یہ ثابت کردیاکہ وہ
انھیں اچھوت بنانے والوںکو ہی اچھوت بنادیںگے۔اسی انتخابی حکمت عملی کی وجہ
سے آج مسلمان سیاسی حاشیے پر کھڑاہے۔ہمارے لیڈران کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے
موجودہ حالات میں سیاست کو شجرممنوعہ سمجھنے کے بجائے ایک نئی سیاسی حکمت
عملی اختیار کریںاوران ۵۱فیصد نظر انداز کردیے گئے ووٹوںکو کٹھا متحد کر
لیںاوریہ یاد رکھیں کہ ملک کی بہت سی علاقائی اورذات پات پر مبنی سیاسی
جماعتیں حصول اقتدار کی خاطر اگر بی جے پی سے ہاتھ ملاسکتی ہیں تو
مسلمانوںسے بھی ہاتھ ملانے میں انھیں عار نہ ہوگا،شرط یہ ہے کہ ہم سیکولر
زم اورفسطائیت جیسے فرضی نعروںسے باہر نکلیںاورحکمرانی میں اپنی متناسب
نمائندگی حاصل کرنے پر ہی توجہ مرکوز رکھیں۔ |
|