یہ کیا حکمرانوں اور سیاستدانوں کااندازِ بیوقوفانہ ہے . .. .؟؟؟

سوائے فوج کے حکمرانوں سے لے کر سب ہی اپنی ذاتی اور سیاسی لڑائیاں لڑرہے ہیں....
آج ایسا لگتاہے کہ ہمارے یہاں کسی کو کچھ نہیں پتہ ہے کہ سیاست کیا ہوتی ہے؟ اور اقوام پر اِ س کے کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟آج میرے دیس پاکستان میں سیاست کا یہ حال ہے کہ یہاں سیاستدان تو بہت سے ہیں مگر اِن میں سیاسی عقل اور سمجھ بوجھ ذرابھی نہیں ہے، آج جن لوگوں نے خود کو سیاستدان گردان کر سیاست کا بیڑا اُٹھا رکھاہے بات دراصل یہ ہے کہ اِنہوں نے ہی سیاست کا بیڑاغرق کردیاہے جو سیاست کو اپنی ذاتی اَنا اور ضد سمجھ کراپنائے ہوئے ہیں،اِنہیں یہ بھی شائد علم نہیں ہے کہ یہ جس کو سیاست سمجھے ہوئے ہیں یہ سیاست نہیں ہے یہ دراصل اِن کی ذاتی لڑائی بغض وحسد کے اظہار کا ایک پلیٹ فارم ہے جس میں میرے مُلک کے حکمرانوں سے لے کر اِدھر اُدھر کے خودساختہ اور نومولود سیاستدان سب ہی(حکمرانی کے لئے) اپنی اپنی باریوں کے انتظار میں اپنی توانیاں قوم کو بے وقوف بنا کر صرف کرنے میں لگے پڑے ہیں۔

بہرحال،آج سیاست کے دُوررس نتائج کو سمجھے بغیرمُلکِ عظیم پاکستان میں سیاست کرنے والوں کا بھی یہ کیا اندازِ بیوقوفانہ ہے؟ کہ اِس سرزمین پر ماضی و حال اور شائد مستقبل میں بھی سوائے فوج کے حکمرانوں سے لے کر سب ہی اپنی ذاتی اور سیاسی لڑائیاں ایوانوں اور اداروں کو استعمال کرکے لڑتے آئے ہیں ، لڑرہے ہیں اور یہ اِسی طرح آئندہ بھی لڑتے اور کرتے رہیں گے جیساکہ آج جو کچھ ہورہاہے۔

البرٹ آئن سٹائن کا کہنا ہے جس طرح بھوکا، افلاس زدہ شخص کبھی اچھا سیاسی مشیر ثابت نہیں ہوتا‘‘ اِسی طرح اہلِ ایمان مسلمانوں کا یہ تجربہ رہاہے کہ تاجر اور بزنس مین کبھی بھی اچھا حکمران ثابت نہیں ہوسکتاہے اور جس مُلک کا حاکم تاجر اور بزنس مین ہووہاں تو کسی بھی طور عوامی بہتری کی اُمیدیں رکھنا سیراب جیساہے کیونکہ تاجر اور بزنس مائنڈشخص حاکم بننے کے بعد اپنے ذاتی اور کاروباری یا اپنے جیسے تجارتی حلقوں کے فوائد کے لئے تو اقدامات کرسکتا مگر وہ مُلک کے عام شہریوں کے لئے ایک پائی کا فائدہ نہیں پہنچاسکتاہے،اور ایسی طرح اہلِ علم و دانش کا یہ کہناہے کہ جس طرح اور جب کسی مُلک یا شہر میں کوئی گورکن ڈاکٹر بن جائے تو پھر اِس مُلک اور شہر کے بہت کم باسی علاج کے بعد صحت مندہوتے ہیں ورنہ تو زیادہ تر اِنسان اِس ڈاکٹر سے علاج کے دوران ہی شہرکی ہنستی بستی زندگیوں کو چھوڑ کر شہرِ خموشاں میں جابستے ہیں الغرض یہ کہ تاجر حاکم بن کر اور گورکن ڈاکٹر بن کر کبھی بھی عوام کے لئے اچھانہیں سوچ سکتاہے اَب یہ بات تو ہمیں سوچنی اور سمجھنی چاہئے کہ آج ہم نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کوئی ایک یا دوبار نہیں بلکہ تیسری مرتبہ بھی ایک تاجر اور کاروباری شخص نوازشریف کو اپنا وزیراعظم کیوں بنایا؟؟؟ جنہوں نے ہمیشہ اپنے ہاتھ قومی خزانے میں ٹھونس کراور عوام کی گردنوں پر پاؤں رکھ کر ا پنے فائدے کی بات سوچی ہے اور عوام الناس کو ایک ٹکے کا بھی کہیں سے کوئی فائدہ نہیں دیاہے، ایسے ہی لوگوں سے متعلق رونرفنک کا یہ کہناہے کہ’’ہرزمانے میں ہرآدمی حکومت کی میز پر بیٹھ کرکھاناتوکھاناچاہتاہے لیکن پلیٹوں اور برتنوں سے کوئی سروکارنہیں رکھناچاہتاہے‘‘ آج بدقسمتی سے ایسے ہی لوگ ہم پر حکم بن کر مسلط ہوگئے ہیں جنہیں سیاست سے لے کر حکمرانی تک کچھ پتہ نہیں ہے کہ اِن کی کیا ذمہ داریاں ہیں اپنی ذمہ داریوں سے عاری افراد کا یہ کیا اندازِ بیوقوفانہ ہے؟؟ کہ سب ہی سیاست کی روح اور اِس کے دُور رس نتائج کو سمجھے بغیرسیاست بھی کررہے ہیں اور حکمران بھی ہیں۔

گزشتہ پندرہ ، بیس دِنوں کے دوران محض پاناماپیپرزلیکس کے معاملے پر وزیراعظم نوازشریف نے اپنی صفائیاں پیش کرنے کے خاطرقوم سے دومرتبہ خطاب کرلیاہے جس میں سِوائے اپنی بپتارونے اور گانے کے کچھ نہیں تھا اِنہوں نے اپنے خطابات میں جس طرح کا لب ولہجہ بنایاہواتھاوہ اِن کی ذات اور شخصیت کے اعتبار سے لّگا نہیں کھاتاتھا،پچھلے خطاب میں ذرا سے بوکھلالے ہوئے سے لگے جبکہ دوسرے خطاب میں تووزیراعظم نوازشریف ضرورت سے کہیں زیادہ ہی افسردہ زخم خوردہ اور پریشان سے نظرآئے،آج اِن کی جیسی کیفیت ہے اور اِن پر جیسی گھبراہٹ اور پریشانی کا عالم عیاں ہے اِس سے تو یہی انداز ہوتاہے کہ یقینا کچھ نہ کچھ ایسی بات ضرور ہے جس کی وجہ سے وزیراعظم نوازشریف شدید اضطراب اور بے چین سے نظرآرہے ہیں اور پاناماپیپرز لیکس کے آشکار ہونے سے ہر وہ چیزسامنے آگئی ہے جسے اَب تک وزیراعظم اور اِن کی فیملیز ممبران کے حوالوں سے قوم سے چھپاکررکھی گئی تھی۔

آج اِس حوالے سے قوم کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کے لئے جس طرح وزیراعظم متواتر خطابات کررہے ہیں کاش کہ یہ تین سالوں کے دوران کبھی ایوان میں بھی گئے ہوتے اور وہاں بھی اراکین پارلیمنٹ سے خطاب یا خطابات کرتے ہوتے تو آج کم از کم اِن پر یہ نوبت تو نہیں آتی آج جیسی اِن پر آن پڑی ہے، بھائی بات دراصل یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے ایوان میں جانے اور اراکین ِ پارلیمنٹ سے خطابات کرنایوں گوارہ نہ کیا کہ اِن کے نزدیک خطاب تو خطاب ایوان کی بھی اہمیت صفر ہے، آج اگر اِن کی نظر میں کسی چیز کی اہمیت ہے تو بس یہ ہے کہ وہ مُلک اور دنیا کے سب سے بڑے بزنس مین ہے اور یہ بحیثیت وزیراعظم پاکستان اپنی تاجرانہ اور بزنس مائنڈ خواہش و لگن کو تقویت دینے کے لئے ایسے بہت سے کاموں ا ور منصوبوں کو عملی شکل دے رہے ہیں جس سے اِنہیں بعد میں(یعنی کہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سے کسی بھی طرح’’ ہٹنے یا ہٹائے جانے کے ‘‘ )بھی دائمی فوائد حاصل ہوں گے ۔

اگرچہ پاناماپیپرزلیکس کے حوالوں سے پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے اپنے اُوپر کھلم کھلاہونے والی تنقیدوں اور اُٹھائے جانے والے نشتر کی نوک سے زیادہ گھائل کردینے والے سوالات اور اِسی طرح کبھی کبھار فرینڈلی اپوزیشن کا رول اداکرنے والی ضرورت سے کہیں زیادہ مصالحت پسندی اور مفاہمت و چاپلوسی کا دامن تھامے رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی ہلکی پھلکی تنقیدوں کی وجہ سے وزیراعظم میا ں محمد نواز شریف نے اپنے دوسرے مگر حسبِ ورایت حیرت انگیزطور پربہادرانہ اور جوشیلے خطاب کے دوران اِس کابھی انکشاف کیا کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پاناماپیپرز لیکس پر سُپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کے قیام کے مطالبے کو تسلیم کرلیاہے اور اَب بہت جلد وفاقی حکومت عدالتِ عظمیٰ کے سربراہ کو ایک خط لکھے گی جبکہ اپنے خطاب میں ایک مرتبہ پھر وزیراعظم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے افراد پر لگنے والے الزامات کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہاکہ وہ ایک ایک پائی کے حساب دیں گے اور اگر کہیں سے مجھ پر یا میرے خاندان کے کسی ایک فرد پر کرپشن ثابت ہوجائے تو یہ بلاتاخیر ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر گھر چلے جائیں گے اگرچہ وزیراعظم نے اپوزیشن کے مطالبے کو تسلیم کرلیا ہے اور اُنہوں نے لندن سے اپنی سیاسی بیماری کا علاج کرانے کے بعد وطن واپس آتے ہی اپنے ساتھیوں اور قانونی ماہرین سے صلح مشوروں کے بعد قوم سے خطاب کے دوران سُپریم کوٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں پاناماپیپرزلیکس پر تحقیقا تی کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا ہے جِسے حکومتی ہم خیال طبقہ تو وزیراعظم نوازشریف کا احسن اقدام اور ایک مثبت پیش رفت قرار دے رہاہے۔

جبکہ وزیراعظم کے سُپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں بنائے جانے والے تحقیقاتی کمیشن کے اعلان پرسُپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس ثاقب نثارقائم مقام چیف جسٹس کا یہ کہنا ہے چونکہ چیف جسٹس انورظہیر جمالی سات روزہ دورے پر ترکی چلے گئے ہیں کمشن کا فیصلہ چیف جسٹس ترکی سے واپسی پر کریں گے‘‘ اَب دیکھنا یہ ہے کہ چیف جسٹس انورظہیرجمالی کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

تاہم دوسری جانب اپوزیشن نے وزیراعظم کے کمشن بنانے کے اعلان پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے اِسے مذاق قراردے کرمستردکردیاہے خبرہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے پاناماپیپرز لیکس پر حکومت کی طرف سے اعلان کردہ جوڈیشل کمیشن کو ردکرتے ہوئے کہاہے کہ’’آزادکمشن نہ بناتو رائیونڈ مارچ کریں گے، پہلے میاں صاحب پھر دوسروں کا احتساب ہوگا، حکومت سنجیدہ ہے تواپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کرٹی آراوزبنائے،مجوزہ حکومت کمیشن ضابطہ کار مسترد خود بھی احتساب کے لئے تیارہوں‘‘۔علاوہ ازین عمران خان نے اپنی پارٹی کے یومِ تاسیس کے بڑے جلسے سے خطاب کے دوران پاناما لیکس پر اپنے مطالبات تسلیم نہ کئے جانے پر حکومت کے خلاف مُلک بھر میں باقاعدہ تحریک چلانے اور مظاہرے اور دھرنے دینے کا اعلان کردیاہے ٹھیک ہے عمران خان نے اپنے آئندہ کے منصوبوں اور لائحہ عمل کا اعلان تو کردیاہے مگر اَب کیا عمران خان اِس میں اُس طرح کامیاب ہوتے ہیں جس کامیابی کا خواب عمران خان نے وزیراعظم کے مستعفیٰ ہونے اور ن لیگ کی حکومت کے خاتمے سے تعبیرکررکھی ہے۔

اِدھر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے حکومت مخالف اعلان اور اقدامات پر وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہناہے کہ مستحکم پاکستان کے لئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا بندکرناہوں گی منفی سیاست سے گریز کیاجائے،بدعنوانی کا خاتمہ ، گڈگورننس اولیں ترجیح ہے‘‘ اگر واقعی ایسا ہے جیسا کہ اسحاق ڈارفرمارہے ہیں تو بھائی، وزیراعظم اور اِن کی میملیز اور آپ و حکومتی اراکین سمیت سب ہی مُلک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے پہلے خود کو احتساب کے لئے پیش کرکے ایک ایسی مثال قائم کردیں تاکہ مورخ تاریخ میں لکھ دے کہ زمینِ خداپر ایک مُلک پاکستان کے کبھی ایسے بھی حکمران گزرے تھے جنہوں پاناماپیپرزلیکس میں اپنے ڈھکے چھپے اثاثے اور آف شور کمپنیاں عیاں ہونے کے بعد سب کے اپنے کھلے اور دبنگ احتساب کے لئے خود کو علی الاعلان پیش کردیاتھااسحاق ڈار صاحب ، آج اگر واقعی ایساہوجائے جیساکہ آپ فرمارہے ہیں تو پھر میرے مُلک اور میرے معاشرے سے بدعنوانی کا حقیقی معنوں میں خاتمہ ممکن ہوسکے گا اور مُلک میں چار سوخودبخود اِسی گڈگورننس کا راج قائم ہوجائے گا جس کی حکومت بات کرتی ہے ‘‘ مگر ایسا کبھی نہیں ہوگاکیونکہ آپ سمیت کوئی ایسانہیں چاہتاہے اور آپ کا یہ بیان تو بس ٹائم پاس اور قوم کو بے وقف بنانے اور میڈیامیں سُرخیاں لگانے کے لئے ہے۔

جبکہ اُدھر وزیراعظم نوازشریف اور وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی باہمی سٹ بٹ سے قومی منافع بخش اداروں کی نج کاری کرنے پر شدیدتنقید کا نشانہ بنانے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹونے کہاہے کہ حکومت مزیدآف شورکمپنیوں کے لئے منافع بخش اداروں کو کوڑیوں کے دام اپنے من پسند افراد کو ایک ہاتھ سے فروخت کررہی ہے تو خاموشی سے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ہی دوسرے ہاتھ سے انتہائی کم قیمت پر خود خرید لیتی ہے اِس طرح موجودہ حکومت مُلک کے اندر آف شور کمپنیوں کے میگاپروجکٹس پرکارفرماہے۔

آج مُلک میں حکمران وسیاستدان اور ادارے جو کچھ کررہے ہیں اِس سے بس ایک یہی اندازہ ہوتاہے کہ اُوپر سے نیچے تک سب ہی مُلک کو اپنی اپنی ضرورت اور مفادات کو مدِنظررکھتے ہوئے لوٹ کھارہے ہیں کسی کوایک رتی برابر بھی مُلک اور قوم کی بہتری اور ترقی و خوشحالی کا خیال نہیں ہے سب ایک دوسرے کے ساتھ نوراکُشی کا ڈھونگ رچاکر اپنے اور دوسرے کے مفادات کا خاص خیال کرتے ہوئے اپنا اپنا سیاسی قداپنی ایڑیوں کو اُونچاکرکے بلندکرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ فوج نے اپنے اندر سے کرپشن عناصر کا احتساب شروع کردیاہے جو اَب میرے مُلک کے عیارومکار اور قوم کو جمہوریت کے نام پر دھوکہ دینے والے مکروہ سیاستدانوں اور حکمرانی کی اُوٹ سے قومی خزانے کو اپنے اللے تللے اور آف شورکمپنیاں بنانے والے حکمران کے گریبانوں تک جانے کو ہے جس سے میرے مُلک کے حکمران اور سیاستدان باخبر رہ کر بھی شائد بے خبربنے ہوئے ہیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971332 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.