کشمیر کی جدودجہد آزادی مختلف مراحل سے
گزرتی ہوئی آج ایک نئے موڑ میں داخل ہو رہی ہے۔ محا ز رائے شماری، الفتح،
آپریشن جبرالٹر،مسلم متحدہ محاز، جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ، حزب المجاہدین،
حریت کانفرنس، متحدہ جہاد کونسل اس آزادی کی چند علامتیں بنی ہیں۔ عام طور
پر ہر وقت یہی کہا جاتا ہے کہ تحریک آزادی ایک نازک موڑ میں داخل ہو چکی ہے،
یا فیصلہ کن موڑ میں ہے۔ یہ مراحل جیسے بھی دشوار گزار ہوں، مقبوضہ کشمیر
کے عوام نے ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس میں نئی روح پھونکنے میں کردار ادا کیا۔
نائن الیون کے بعد کشمیریوں کی سوچ میں ایک انقلابی تبدیلی آئی۔ بھارت نواز
اسے اپنے حق میں اور آزادی پسند اسے اپنے پیرائے میں دیکھتے رہے۔ 1989کے
بعد سے اس تحریک کا نیا چہرہ سامنے آیا ہے۔ نوجوانوں نے بندوق اٹھائی۔ اس
تازہ لہر کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالا گیا۔ یہ افواہ عام ہوئی کہ چند مٹھی
بھر کرائے کے لوگ پاکستان سے کشمیر میں داخل ہو کر حملے ک رہے ہیں۔ جو لوگ
بندوق سمیت پکڑے گئے یا جن کو ملی ٹنٹ قرار دیا گیا۔ ان کے بارے میں کہا
گیا کہ یہ گمراہ لوگ ہیں۔ انہیں پاکستان نے گمراہ کیا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب
افغانستان سے سوویت فوجیں بھاگ رہی تھیں۔ سویت یونین ٹوٹ کر بکھر رہا تھا۔
افغان مجاہدین کشمیر کی طرف جا رہے تھے۔ کئی کشمیر میں شہید بھی ہوئے۔ کئی
کشمیریوں نے افغانستان میں اسلحہ کی ٹریننگ بھی حاصل کی۔ پہلے مہمان
مجاہدین کشمیری تنظیموں کے اندر رہ کر کام کرتے رہے۔ معلوم نہیں اس کے بعد
حرکت الجہاد اسلامی، حرکت المجاہدین، البدر، جیش محمد، لشکر طیبہ تنظیموں
کوالگ کیوں کر دیا گیا۔ کیوں کہ ان کی الگ پاکستانی شناخت نے عالمی سطح پر
کشمیر کاز کے لئے مشکلات پیدا کیں۔ بھارت کو پاکستان اور تحریک آزادی کے
خلاف مزید پرپگنڈہ کرنے کا موقع ملا۔ بھارت نائین الیون کے بعد دنیا پر یہ
باور کرانے میں کسی حد تک کامیا ب ہو گیا کہ نائن الیون جیسے حملوں کی سوچ
اور سرینگر اسمبلی اوردہلی کی پارلیمنٹ پر حملوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
کوئی اگر چہ موجودہ تقاضوں کے تحت ارتقائی نظام کا کتنا ہی مخالف ہو، ان
نقادوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ سٹریٹجی ناکام ثابت ہوئی۔ اس نے
کشمیر کے اندر عوام میں کافہ مقبولیت حاصل کی۔ کیوں کہ کشمیری بھارت کے
خلاف دنیا کی ہر ایک طاقت کی حمایت پر مشکور و ممنون نظر آتے ہیں۔ پاکستان
کے لئے یہی کہا سکتا ہے کہ کشمیری خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کے مسلمان کے
اندر پاکستان کا رتبہ مقدس مقام کا ہے۔
موجودہ مسلح تحریک کا تیسرا عشرہ بھی ختم ہونے والا ہے۔ لیکن عوام کے جذبات
کبھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ جب کہ بھارت کے پالیسی ساز یہ سمجھتے تھے کہ وقت
گزرنے کے ساتھ یہ جذبہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ اس کے بعد تحریک خود ہی ختم ہو
جائے گی یا اسے بندوق سے کچل دیا جائے گا۔ اس لئے دہلی حکومتیں تاضیری اور
ٹال و مٹول کے حربے آزماتی رہیں۔ انھوں نے حریت کانفرنس سے بات چیت کی،
جیلوں اور ٹارچر سیلوں میں لوگوں کو بہکانے اور انہیں سرینگر کی حکومت تحفہ
میں دینے کی پیشکش کی۔ مگر کچھ نہ ہوا۔ اس کے بعد بھارت نے کشمیریوں کو
جیلوں اور تعذیب خانوں میں Slow Poisoningسے جسمانی اور ذہنی طور مفلوج
کرنا شروع کیا۔ ہزاروں کشمیری اس سے معذور ہو گئے۔ جب یہ پالیسی بھی ناکام
ہوئی تو کشمیریوں کو Catch and Killپالیسی کا نشانہ بنایا۔’’ پکڑو اور
مارو‘‘آپریشن کے تحت سیکڑوں کشمیریوں کو قتل کر دیا گیا۔ مگر کشمیری پھر
بھی باز نہ آئے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک سے منحرف جنگجو متحرک کر دیئے گئے۔ یہ
Renegadesتھے۔ جو اخوانی، نابدوغیرہ جیسے ناموں سے بے نقاب ہو گئے۔ پھر
جیلوں اور جیل سے باہر جنگجوؤں اور عام نوجوانوں پر مشتمل ایک پولیس فورس
تشکیل دی گئی۔ انہیں سپیشل پولیس آفیسرز یا SPOsکہا گیا۔ انہیں مجاہدین سے
لڑانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن یہ سازش بھی بری طرح ناکام ہوئی۔ بھارت نے ایک
نیا کھیل کھیلنا شروع کیا۔ بھارتی فوج نے جنات اور چڑیلوں کے روپ اختیار
کئے۔ ہاتھ پاؤں اور جسم پر برچھیاں اور لوہے کے ناخن لگا کر بھارتی فوجی
شہروں اور دیہات میں آپریشن کرنے لگے۔ لا تعداد شہریوں کو اس آپریشن میں
شدید زخمی کیا گیا۔ مگر کشمیری نہ ڈرے اور نہ ہی خوفزدہ ہوئے۔ بلکہ کئی
فوجیوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ بھارت نے تنگ آ کر ہندو آبادی کو جدی ترین
اسلحہ سے لیس کر دیا۔ انہیں Villege Defence Committeesیا وی ڈی سی کا نام
دیا گیا۔ ہزاروں وی ڈی سی جموں، پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، بھدرواہ، رام بن،
بانہال، کٹھوعہ، ریاسی اور علاقوں میں بھرتی کئے گئے۔ ہندو آبادی کو مسلم
آبادی کے خلاف خانہ جنگی شروع کرانے کی یہ ایک خطرناک چال تھی۔ کیوں کہ یہ
وی ڈی سیز ہندو نوجوان اور ریٹائرڈ بھارتی فوجی تھے۔ انہوں نے مسلم آبادی
کی نسل کشی شروع کر دی۔ انہوں نے ہندو آبادی کو بھی نشانہ بنایا مگر اس کا
الزام مجاہدین اور پاکستان پر ڈال دیا۔ مگر پھر بھی ہندو اکثریتی علاقوں
میں مجاہدین کا اثر کم نہ ہو سکا۔
بھارت ایک بار اتنا تنگ آیا اور لاکھوں کی فوج اور جدید ترین مہلک اسلحہ
رکھنے کے باوجود کشمیری مجاہدین کے آگے شکست خوردہ ہو گیا کہ اس نے وادی
کشمیر کو مسلم آبادی سے صاف کرنے کا منسوبہ بنا لیا۔ گورنر جگ موہن کو
آپریشن کا انچارج بنایا گیا۔ جس نے راتوں رات وادی سے کئی لاکھ کشمیری پنڈت
ہندو آبادی کو نکال کر جموں اور دیلی پہنچا دیا۔ تا کہ وادی کے مسلمانوں کا
کام تما کر دیا جائے۔ مگر اﷲ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وادی مسلم آبادی کے
بجائے ہندو پنڈت آبادی سے پاک ہو گئی۔ آج وہ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
انہوں میں وادی میں اپنے مکان، زمینیں مقامی مسلمانوں کو فروخت کر دیں۔ مگر
اس کا ریلف جسے مقامی محاورے میں Ex-Gratia Reliefکہا جاتا ہے، بھارت سے لے
لی ۔ یہ کہا گیا کہ ان کی جائیدادکو کشمیری جنگجوؤں نے تباہ یا خاکستر کر
دیا۔ جو پنڈت سرینگر میں سرکاری ملازم تھا، اسے جموں یا بھارتی شہروں میں
اس ملازمت پر بحال رکھا گیا۔ انہیں ماہانہ 2500روپے بھی دیئے جا رہے ہیں۔
تا ہم انہیں آن ڈیوٹی دکھایا جا تا ہے۔ یہ لوگ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے
ہیں۔ کئی دوسری نوکریاں بھی کرتے ہیں۔ ایک ساتھ دو سرکاری نوکریاں کر رہے
ہیں۔ ان کی نئی نسل دنیا بھر میں بھارتی سفارتخانوں میں ملازمت کر رہی ہے۔
اسلام آباد میں بھی کشمیری پنڈت سفارتکار کے طور پر تعینات رہے ہیں۔اب
برسوں گزرنے کے بعد انہیں ایک بار پھر وادی کی یاد آتی ہے۔ اس لئے اب بھارت
کہہ رہا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کی جائیدادیں زبردستی چھین لی گئیں ہیں۔ اس
لئے انہیں واپس کرنے کے لئے کشمیریوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ
وادی میں کشمیری پنڈتوں کے لئے اسرائیل کی طرز پر بستیاں ’’ہوم لینڈ‘‘ کی
صورت میں قائم کی جا رہی ہیں۔ کشمیر کو تقسیم کرنے یا آبادی کا تناسب کم
کرنے کے لئے بھی اس سے استفادہ ہو رہا ہے۔
بھارت نے ان تمام حربوں کے ساتھ کشمیری بستیوں کو جال کر راکھ کرنے کا بھی
ایک فارمولہ شروع کیا تھا۔ اس کے تحت شہروں اور دیہات میں لا تعداد بازار
اور رہائشی بستیاں جلا ڈالی گئیں۔ مگر کشمیری پھر بھی تحریک سے دستبردار نہ
ہوئے۔ بھارت نے خواتین کی آبرو ریزی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
مگر یہ بھی کام نہ آیا۔ پھر کشمیری نوجوانوں کو شہید کر کے انہیں جنگلوں
اور ویرانوں میں اجتماعی قبروں میں ڈالنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اب بھی
کشمیر میں یہ اجتماعی قبریں دریافت ہو رہی ہیں۔ مگر آزادی کی آگ سرد نہ ہو
سکی۔بھارت نے تنگ آ کر سرینڈر پالیسی کا اعلان کیا۔ جس کے تحت اسلحہ ڈالنے
والوں کے لئے مالی پیکج دیا گیا۔ مگر یہ پالیسی ناکام ہو گئی۔
سرینڈر پالیسی کو آزاد کشمیر اور پاکستان تک توسیع دی گئی۔ 1989کے بعد آزاد
کشمیر آنے والے کشمیری مہاجرین کی واپسی کے لئے بھی پیکج کا اعلان ہوا۔
لاکھوں روپے کی مراعات دی گئیں۔ کشمیری نوجوان نیپال کے راستے واپس جانے
لگے۔ یہ نوجوان جب وادی میں گھروں میں داخل ہوتے تو بھارتی فورسز اور
ایجنسیاں انہیں ہر روز کیمپوں میں حاضری دینے پر مجبور کرنے لگیں۔ جو لوگ
نارمل زندگی گزار رہے تھے۔ ان کو بھی تنگ کیا جانے لگا۔ بھارت کا یہ خیال
تھا کہ آزاد کشمیر سے واپسی پر کشمیری پاکستان کے خلاف آواز بلند کریں گے۔
مگر ایسا نہ ہوا۔ تو بھارت نے ہی ان کا قافیہ تنگ کر دیا۔ ان کی پاکستانی
بیویوں اور ان کے بچوں کے لئے مسائل کھڑے کئے گئے۔ بچوں کا سکولوں میں
داخلہ تک مشکل ہو گیا۔ پھر ان میں سے متعدد گھرانے واپس آنے لگے۔ یہی نہیں
بلکہ نیپال سے بھارت داخل ہونے والوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالنے کا
سلسلہ شروع کیا گیا ۔ یہاں تک کی بھارتی پولیس نے کئی خاندانوں کو حراست
میں لے کر انہیں پاکستانی دہشتگرد کے طور پر ظاہر کیا۔ انہیں پاکستانی خود
کش بمبار قرار دیا گیا۔ وادی لولاب کپواڑہ کے لیاقت شاہ جیسے نوجوانوں کو
پاکستانی خودکش حملہ آور قرار دینے کے بعد اور بھارتی مظالم اور واپس جانے
والوں کی ھالت زار سے واپسی کا عمل رک گیا۔
سرینڈر پالیسی سے کشمیریوں کو بہکانے اور ان کے نام پر سیاست کرنے کا عمل
نہیں رکا۔ نئی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے دہلی میں ایک نئے سرینڈر پلان کو
زیر غور لایا ہے۔ نریندر مودی کو اس پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ برطانوی م
میڈیانے انکشاف کیا ہے کہ بھارت اب آاد کشمیر سے مہاجرین کی واپسی کے لئے
کشمیر کی جنگ بندی لائن کو کھولنے پرغور کر رہا ہے۔ زاد کشمیر میں اس وقت
تقریباً40ہزار کشمیری مہاجرین ہیں۔ جو ملک کے مختلف شہروں میں وہاں کی
تعمیر و ترقی میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ اب اپنی مدد آپ کے تحت
بھی تحریک آزادی کے لئے کام کرتے ہیں۔ بھارتی مظالم کے متاثرین، شہداء،
بیواؤں، یتیموں کے ساتھ کسی حد تک تعاون کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ یہی وجہ
ہے کہ بھارت اس سے پریشان ہے۔ وہ پاکستان میں ان کشمیری مہاجرین کی
آبادکاری یا ان کی خود کفیل بننے سے اس لئے پریشان ہو رہا ہے کہ یہ لوگ
پاکستان کی تعمیر و ترقی میں کیوں پیش پیش ہیں۔ نیپال کا راستہ بھارتی
کشمیر دشمن ایجنڈے کی وجہ سے بند ہو نے لگا ہے۔ اس لئے محبوبہ مفتی چکوٹھی،
ٹیٹوال، چکاں دا باغ ، تیتری نوٹ جیسے راستے کھول کر یہاں سے مہاجرین کو
واپس وادی میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زیادہ تر
کشمیری یہاں شادی، بچوں کی تعلیم ، معاشی مسائل سے دوچار ہیں۔ ان کا یہ
مسلہ ا ن کی مستقل آبادکاری اورپاک فورسز میں نئے یونٹس قائم کر کے انہیں
اس میں شامل کرنے سے حل ہو سکتا ہے۔ ان کے لئے 6فی صد کوٹہ بھی ہے لیکن اس
پر عمل کرنے میں سستی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ انہیں گزارہ لاؤنس بھی مل رہا
ہے لیکن مہاجرین اس کی کمی پر نالاں ہیں۔ کئی برسوں سے اس میں اضافہ نہیں
ہو سکا۔ ایسی تجویز بھی قابل عمل بن سکتی ہے کہ انہیں بھی پنجاب اس طرز پر
بسایا جائے جس طرح 1989سے پہلے کے مہاجرین کو بسایا گیا۔ انہیں ایک سو کنال
زمین فی کنبہ کے حساب سے دی گئی تھی۔ مگر یہ لوگ ان زمینوں پر آباد نہ ہو
سکے۔
بھارت نے جو حربے آزمائے ، ان کی تفصیلات میں جائیں تو بحث طویل ہو اجاتی
ہے، یہاں ان میں سے بعض کا یہاں مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ کس طرح بھارت
تحریک کو کچلنے اور کشمیری تحریک کو کامیاب بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
حالات بھی پہلے جیسے نہیں۔ اب لوگ بھارتی کریک ڈاؤن اور محاصروں میں پھنسنے
والے مجاہدین کو نکال لیتے ہیں۔ پہلے جب کسی جگہ بھارتی فوج کریک ڈاؤن کرتی
تھی یا جہاں جھڑپیں ہوتی یھیں، لوگ وہاں سے دور کے علاقوں کی طرف بھاگ جاتے
تھے۔ کئی دنوں تک نوجوان گھروں کو واپس آنے سے کتراتے تھے۔ اب ایسا نہیں۔
درجنوں واقعات گواہ ہیں کہ اب عوام جھڑپوں کی جگہ کا خود محاصرہ کرتے ہیں۔
بھارتی فوج پر پتھراؤ کرتے ہیں۔ بھارتی فوج سے پتھروں اور ڈنڈوں کے زور پر
مجاہدین کو چھڑا لیا گیا۔ مجاہدین فوج کا مھاصرہ توڑ کر نکل گئے۔ بھارتی
فوج کی سخت وارننگ کے باوجود کشمیری نوجوان پتھراؤ سے باز نہیں آرہے ہیں۔
ہندواڑہ میں کمسن لڑکی کی عزت پر بھارتی فوجی کی جانب سے حملے کی کوشش کے
بعد اس سے زبردستی بیان دلایا گیا۔ مگر لوگ مظاہرے کرتے رہے۔ بھارتی فوج کی
کوئی چوکیاں عوام نے مسمار کر دیں۔ پانچ سے زیادہ شہری شہید کئے گئے۔ جن
میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ بھارت اب بھی اپنی روایتی ناکام پالیسی پر
چل رہا ہے۔ یہ پالیسی اس کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ شیخ عبد اﷲ خاندان
کی طرح مفتی سعید خاندان بھی بھارت کو اپنا کندھا پیش کر رہا ہے۔ یہ اپنی
کرسی کے لئے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے باریاں لگائی ہیں۔ بھارت
نے اپنی کٹھ پتلیوں کے سہارے متعدد خطرناک منصوبوں کو آزمایا جو بری طرح
ناکام ہوئے۔ کشمیری کوئی کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے باوجود بھارت
کشمیر سے فوجی انخلاء پر غور کرنے کے بجائے مزید فوج کشمیر میں داخل کر رہا
ہے۔ کشمیریوں کے قتل عام اور بدترین مظالم کی بھارت کو قیمت چکانا پڑے گی۔
کشمیری کی تیسری نسل نے بھارتی پالیسی سازوں کو واضح پیغام دے دیا ہے ۔ مگر
وہ بہرے بن کر بھارت کے مفاد کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ |