خبر کو سفر کرتے دیر نہیں لگتی خا ص کر جب
خبر ذرا ہٹ کر ہو تو اس کے اڑنے میں مزید پر لگ جا تے ہیں اب وہ پا نامہ
لیکس کے ٹیکس چور ہوں یا پھر مو سیقی کو روح کا عذاب بنا نے والی طا ہر شاہ
کی انیجل ،اینجل والی ویڈیو ہو جس نے پوری دنیا میں اپنے لا کھوں تنقیدی
مداح پیدا کر لئے ہیں خوبصورت گیت مدحر کر دینے والی مو سیقی اور لا جواب
شا عری کچھ بھی تو ایسا ویڈیو میں دیکھنے کو نہیں شوق بڑھ کرجنون کی شکل
اختیار کر لے تو اچھے بھلے آدمی کو لے ڈوبتا ہے بندہ کہیں کا نہیں رہتا
راتوں رات بین الاقومی شہرت پانے وا لے سنگرطا ہر شاہ نے تین سے پہلے بھی
ایک گانا معترف کروایا تھا( آئی ٹو آئی) کے نا م سے جو اسی طرح متنازعات کا
شکار رہا سو شل میڈیا کاکیا جادو ہے اگر گانا مثبت پیرائے میں ہٹ ہو گیا تو
چل سو چل ورنہ بھی بازی مات نہیں بدنا م نہ ہوں تو کیا نا م نہ ہوگا
طاہرشاہ ایک پڑھے لکھے اچھے بیک گرا ونڈ سے تعلق رکھتے ہیں مالی اعتبار سے
بھی خا صے خوشحال ہیں اپنا ٹی وی چینل کھولنے کی تیاریو ں میں مصروف ہیں
انھوں نے یہ گا نا خود لکھا کمپوز کیا اور اس میں اداکا ری بھی خود کی ہے
اس گانے پر مو سیقی کے شا ئقین ان سے کا فی خفا نظر آتے ہیں کا فی لے دے ہو
رہی ہے مو سیقی اور شاعری کے تا بندہ روایت کے سنگم سے ہٹ کر بننے وا لے
سونگ میں علی آفتاب سعید ( آلو انڈے فیم ) تک تو قا بل ہضم تھا طا ہر شاہ
کے اس گا نے کو لے کر سوشل میڈیا میں گویا ایک نیا دلچسپ مو ضوع ہا تھ آگیا
ہو کسی کو اینجل کا کرداراس قدر خوف زدہ کر رہا ہے تو کسی کو وہ پرا نظر
آتا ہے جو خا تون کالباس پہنے زمین کا مذاق اڑانے پر اتر آیا ہے ایک بھارتی
اداکارہ نے تو ایٹم بم سے بھی مہلک قرار دے دیا ۔ طا ہر شاہ کہتے ہیں کہ اس
گا نے میں انھوں نے اپنی پسند کو مد نظر رکھ کر بنا یا ہے ا س سے ا نھیں کو
ئی فرق نہیں پڑتا لو گ اس پر اپنے اظہار کو بیان کرتے رہیں لیکن کیا کوئی
اسقدر نڈرہو سکتا ہے کہ اس طرح شہرت کی خاطر اپنا مذاق بنتا دیکھتا رہے اسے
کو ئی فرق نہ پڑتا ہو دیکھا جا ئے تو ہمارے لیڈر بھی نہایت دلیر وا قع ہو
ئے ہیں ان کے حو صلے کی بھی داد دینی پڑئے گی ان کی ذات سے ملک کا کچھ بھی
بگڑ جا ئے کتنے ہی بحران آئیں وہ پروا نہیں کرتے ملک دو ٹکڑے ہو جا ئے ،
کشمیر کی قبضے کی کہانی ہو ، چشم دید گوا ہان کے بیا نات پورے ثبوت سمیت
مہیا کئے جا ئیں ، وکی لیکس کے اسکینڈل ہوں یا پھر مو جودہ پانامہ لیکس
اسکینڈل ہو بے حسی کی ایک روایات سی پڑ چکی ہے عوا م اور میڈیا چند دن
رودھو کر شور مچا کر چپ بیٹھ جا تے ہیں لگتا ہے ہم نے اپنی راہ گم کر دی ہے
بد گما نی اور خوش فہمیوں کا سفر تو ہم کہیں بہت دور چھوڑ آئیں ہیں ہربا ر
محسو س ہو تا ہے گویا بہت کچھ کھونے کو خطرہ ہے مگر اب اس کے لئے بھی کئی
تدابیر ڈھونڈ لی جاتی ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے کبھی کبھی یہ ماں دوسرے کا
بچہ گود لے لیتی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ سرما یہ دارانہ نظا م پوری دنیا میں دولت کی گردش کو آزادانہ
قرا ر دیتا ہے لیکن کچھ اخلا قی و قانونی اصول وضو ابط ملک اپنے طور پر بھی
لا گو کرتے ہیں اس وقت پا نامہ لیکس کی بدولت کرپشن کے الزامات سے سیاسی
فضا مکدر ہو چکی ہے جواب کبھی صاف نہ ہوسکے گی کرپشن کے الزامات ان بڑی
کارو باری شخصیا ت پر لگ چکے ہیں جن کا نام لینا چا ہیں تو زبان موٹی پڑجا
تی ہے پاکستان کو صرف ایک سیا سی جماعت نے نہیں بلکہ سینکڑوں بیوروکریسی ،
ملٹری ، صنعت کاروں ،دکانداروں وتاجروں نے لوٹا ہے اثاثے جمع کئے جا ئیں تو
پاکستان کے تما م قرضے ادا ہو جا ئیں پا کستان میں سب سے زیادہ ٹیکس نجی
کارو با ری ملا زمت پیشہ افراد ادا کر تے ہیں جب کہ دیگر کاروباری افراد
اول تو ٹیکس ادا نہیں کرتے اگر کسی طرح ان پر بار گراں آجا ئے تو کو شش
کرتے ہیں ٹیکس ریٹرن فا ئل کراتے ہو ئے اپنے اثا ثے بچوں کے اخراجات وغیرہ
بڑھا چڑھاکر بتا ئیں جا ئیں اس سلسلے میں خود ادارہ بھی ان کی مدد کر تا ہے
اقٹصادی ما ہرین کہتے ہیں ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اگر ٹیکس چوری
نہ ہوتی تو تین سال میں قرضے ختم ہوسکتے تھے ماہرین معا شیات ڈاکٹر شاہد
حسن صدیقی کے مطابق جنوبی ایشا کے سات ممالک میں پاکستان کی شرح نمو سب سے
کم ہے کرپشن اور ٹیکس چوری سے ملک کو سالانہ آٹھ ہزار ارب کا نقصان ہو رہا
ہے پچھلے سال پا کستان کی تا ریخ میں بجٹ خسارہ سب سے زیادہ رہا اس وقت
پاکستان قومی ما لیاتی اداروں کا سترہ ہزار ارب رو پئے اور بیرونی مالیاتی
اداروں کا اسی ارب ڈالر کا مقروض ہے پاکستان 124ممالک کی فہرست یں سما جی و
اقصادی اشاریوں کے لحا ظ سے113 ویں نمبر پر ہے سیاست کو ملکی خد مت کے جذبے
کے تحت نہیں تجارتی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے کڑوڑں رو پئے صرف کر کے
بیرون ملک کے دورے کئے جا تے ہیں غیرملکیوں کوملک میں سرمایہ کاری کرنے کے
لئے آمادہ کیا جاتا ہے اور خود وزراء ملکی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک اسمگل
کرتے ہیں ہماری سیاسی قیادت اپنا عالمی برادری میں اپنا وقار احترا م کھو
چکی ہے موجودہ قیادت کو کرپشن کے الزامات کے با وجود صرف کہانیوں میں تخت
سے اتارا جا سکتا ہے استعفیٰ دینا ہماری روایات ہے نہ شیوہ محض عذر سنا ئیں
جائیں گے اعتراضات کا پنڈورا باکس کھلے گااس کے علاوہ کچھ نہیں جاتے جاتے
قرآن پاک کا ایک قصہ یاد آتا ہے آپ بھی سنتے جا یئے۔
پرانے زمانے میں دولت کو چھپانے کے لئے دیوارکے نیچے گا ڑ دیا جا تا تھا
سورہ کہف میں حضرت مو سیٰ ؑکا قصہ بہت مشہور ہے جب وہ حضرت خضر ؑکے ساتھ
سفر پر تھے ایک خوشحال بستی سے گزر ہوا ایک مکان کی گرتی دیوار کو حضرت خضرؑ
نے بناء اجرت کے مرمت کردی حضرت موسیٰ ؑ بستی والوں کی بے التفاتی سے نا
لاں تھے ا نھیں یہ بات نا گوار گزری شکایت کی تو اﷲ نے فر مایا جو تم نہیں
جانتے وہ ہم جا نتے ہیں یہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی ملکیت ہے ان کا
باپ ایک نیک آدمی تھا اس نے دیوار کے نیچے خزانہ دفن کیا تھا پس تمھارے
پروردگار نے چا ہا کہ ان کا خزانہ لڑکوں کی جوانی تک محفوظ رہے اس لئے اسے
دوبارہ چھپا دیا گیا باپ نیک ہو اولاد اس کے نقش قدم پر ہو تو دیوار اسی
طرح محفوظ کی جاتی ہے کہ خزانہ حقیقی وار ثوں تک پہنچ سکے ۔جی ہاں ورنہ خبر
کو سفر کرتے دیر کب لگتی ہے خاص کر جب وہ ذرا ہٹ کر ہو ۔ |