ٹریفک کبھی رُک جاتی اور کبھی آہستہ آہستہ
چلنے لگتی، گاڑی آہستہ آہستہ رینگ رہی تھی۔ جب بھی کسی ادارے میں چھٹی کا
وقت ہوتا ہے اور والدین بچوں کو لینے کے لئے پہنچتے ہیں تو نہ باری کا
انتظار کرتے ہیں اور نہ ہی کسی قطار کی پرواہ کرتے ہیں۔بلکہ چاہتے ہیں کہ
ان کی گاڑی گیٹ کے سامنے ہی کھڑی ہو، تا کہ ان کے بچے کو ان تک پہنچنے کے
لئے کوئی تردد نہ کرنا پڑے۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ان کی اس
حرکت سے خلق خدا مشکل کا شکار ہوتی ہے۔ٹریفک رک جاتی ہے یا لوگ کسی اور
مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ لوگ ایمبولینس کو بھی راستہ بڑی مشکل
سے دیتے ہیں۔ چوک کے قریب واقع یونیورسٹی کا بھی یہ چھٹی کا وقت تھا اور
بمشکل ایک لین تھی جس سے ساری ٹریفک گزر رہی تھی۔ اشارہ کھلتا تو ٹریفک
رینگنے لگتی اور اشارہ بند ہوتا تودور دور تک ٹریفک رک جاتی۔گاڑیوں کی اس
لمبی قطار میں چلتے مجھے چوک تک پہنچنے میں دس پندرہ منٹ خرچ ہو گئے۔ وہاں
پہنچا تو اشارہ بند ہو گیا۔ میرے آگے والی دو گاڑیوں نے ہمت کی اور اشارہ
توڑتے ہوئے نکل گئے۔ بقول میرے دوستوں کے مجھے اشارے پر رکنے کاخبط ہے، اس
لئے میں ہمت نہ کر پایا کہ سرخ بتی پر پھرتی دکھاؤں کہ سبھی دکھا رہے تھے،
اس لئے رک گیا اور دوبارہ سبز بتی ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اب میں قطار
میں سب سے آگے کھڑا تھا۔
ایک شخص جس کی عمر تقریباً 50 سال ہوگی، ہاتھ کے ساتھ ایک تھیلا باندھے ایک
طرف سے آیا اور بڑے اطمینان سے میری گاڑی کے آگے سے گزرتے ہوئے سڑک پار
کرنے لگا۔ ابھی وہ میری گاڑی کے آگے سے گزرا ہی تھا کہ اچانک ایک بیس،
بائیس سال کا نوجوان تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور اسے پکڑ کر پیچھے کھینچنے
لگا۔ اس نے تیزی سے تھیلا سینے سے لگا لیا اور مزاحمت کی کوشش کی، مگر
نوجوان کے آگے اس کا بس نہیں چلا۔ اتنے میں ایک اور نوجوان بھاگتا ہوا آیا
اور لمحوں میں دونوں اسے کھینچ کر پیچھے چوک کے ایک کونے میں لے گئے، جہاں
چنگ چی رکشے کھڑے تھے۔ اس شخص کو اٹھا کرایک رکشے کی اگلی سیٹ پر بٹھایا
اور دائیں بائیں خود بیٹھ کر رکشے والے کو چلنے کا کہا۔ رکشے کا اشارہ نہیں
تھا، مگر انہوں نے رکشے والے کو کچھ دھمکی دی تو وہ چل پڑا۔ دوسری طرف سے
آنے والی ٹریفک کو وہ دونوں رکنے کا اشارہ کرنے لگے۔
گرفت ڈھیلی دیکھ کر اس آدمی نے رکشے سے چھلانگ لگا دی۔ وہ دونوں نوجوان
رکشے سے اتر کر اس کے پیچھے بھاگے اور اسے پھر پکڑ لیا۔ رکشے والا رکشہ
خالی پا کر اسے دھکیل کر واپس اپنی پرانی جگہ لے گیا۔ اب وہ نوجوان اس شخص
کو دوبارہ پکڑ کر لائے تو رکشے والا بھی جانے کو تیار نہ تھا۔ بہت سے لوگ
اور دوسرے رکشا ڈرائیور بھی اکٹھے ہو گئے، مگر ان نوجوانوں کے قریب جانے سے
ہچکچا رہے تھے۔ مگر معلوم ہوتا تھا کہ اب شاہد وہ اس شخص کو آسانی سے لے کر
نہیں جا سکیں گے۔ اسی دوران میرا اشارہ سبز ہو گیا اور میں نے گاڑی آگے
بڑھا دی۔
اس سارے واقعے کے دوران میں نے کئی دفعہ فون اٹھایا کہ پولیس کو اطلاع دوں
اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دوں۔ اس طرح دن دہاڑے لاہور کے انتہائی
بارونق چوک میں ایک بندے کو یوں اٹھا لینا، وجہ چاہے کچھ بھی ہو، انتہائی
افسوس ناک ہے۔ میں نوجوان تھا تو ایسے موقعوں پر بیچ میں کود پڑتا تھا۔ مگر
اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور شاید عقل بھی آگئی ہے۔ اس لئے نہ تو خود کو ، نہ
ہی پولیس کو دعوت دی۔ پولیس کو دعوت دینا تو اک عذاب کو دعوت دینا ہے۔ وہ
بندے تو بھاگ جاتے ، مگر میں کبھی گواہی اور کبھی تفتیش کے چکر میں تھانوں
کے چکر میں رہتا۔ نتیجہ کچھ نہیں ہونا تھا۔ جسے اغوا ہونا تھا، اسے بہرحال
اغوا ہو جانا تھا۔ اگر کسی کو لٹ جانا تھا تو بھی کوئی روک نہیں سکتا تھا۔
پولیس تو کبھی حدود، کبھی شناخت اور کبھی کسی اور انداز میں لوگوں کو خراب
کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔
کسی چینل پر ایک صاحب ایک مذاکرے میں کہہ رہے تھے کہ پولیس کی اصلاح کی
ضرورت ہے، جب کہ میرا موقف ہمیشہ سے یہی ہے کہ ہماری پولیس ناقابل اصلاح ہے۔
یہ جان بوجھ کر وقت پر کام نہیں کرتے، لٹکاتے ہیں۔ کوئی چوری یا ڈکیتی ہو
جائے تو تفتیش کا عمل اتنہائی سُست رکھتے ہیں۔ جب سائل مایوس ہو جائے تو
برآمد کیا ہوا مال ان میں بٹ جاتا ہے۔ بڑے دعوے کرتے ہیں کہ یہ برآمد کر
لیا، وہ برآمد کر لیا مگر کتنا مال حقداروں تک پہنچایا، کبھی کچھ نہیں
بتاتے۔ چھوٹے علاقوں میں صورتحال اور بھی خراب ہے۔ ایک چوکی میں جانے کا
اتفاق ہوا۔ چوکی انچارج نے بجائے خود کاروائی کرنے کے مدعی کو ٹاؤٹوں کے بس
ڈال دیا۔ چوری کا معاملہ تھا۔ چور اپنی حمایت میں کچھ ٹاؤٹ لے آئے تھے۔
چوکی انچارج جو پہلے بہت بڑھک بازی کر رہا تھا انہیں دیکھ کرمدعی کو کہنے
لگا کہ یہ جو معزز لوگ آئے ہیں یہ آپ کا تصفیہ کرا دیتے ہیں، آپ شریف لوگ
ہیں لمبے چکروں میں نہ پڑیں۔ ٹاؤٹوں کا تصفیہ یہ تھا کہ آپ امیر آدمی ہیں ،اس
معمولی نقصان سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے، معاف کر دیں اور اگر نہ کریں گے تو
اس چوکی میں تو آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ اندازہ تو ہو گیا ہو گا۔ اور پھر
مجبوری میں ایک ٹاؤٹ کے ساتھ مک مکا کے بعد ان کا مسئلہ حل ہوا |