امیدوں کی دنیا کے شہہ سوار

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

محفل پورے زوروشور پر تھی۔سامعین ہمہ تن گوش متکلم کی جانب مکمل توجہ کیے ہوئے تھے۔کسی کو علم نہ تھا کہ ان کے اردگرد بھی کچھ ہورہا ہے۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی نگاہیں مخاطب کے چہرے سے ہٹیں اور کوئی قیمتی نصیحت ان سے رہ جائے۔اب سامنے بیٹھے مبلغ نے تین شاخیں اٹھائیں اورپہلی شاخ کو ایک جگہ گاڑھ دیا ۔’’اس کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟‘‘سب کی سوچوں کا محور زمین میں گاڑھی گئی شاخ بن گئی۔ سب اپنے تئیں اپنی، اپنی سوچ کے مطابق مختلف اندازے لگا رہے تھے۔’’چلو خیر اس کا مطلب ابھی تھوڑی دیر میں معلوم ہوجائے گا۔‘‘یہ سوچ کر ہر ایک سابقہ حالت پر لوٹ آیا۔اب مبلغ نے تھوڑا آگے چل کے دوسری شاخ اسی پہلے والی کی سیدھ میں کچھ دور گاڑھ دی اور پھراس سے مزید کچھ دور تیسری بھی دونوں کی سیدھ میں گاڑھ کراپنے مخاطبین کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’اس سے میری کیا مراد ہوسکتی ہے؟‘‘اس سوال کے ساتھ ہی سب کے اذہان ایک دفعہ پھر جواب کے تلاش میں گھومنے لگے۔مبلغ نے کچھ انتظار کیا کہ شاید کوئی جواب دے۔مگرسب نے چپ سادھے رکھی۔مبلغ نے جب دیکھا کہ سب ہی خاموش ہیں اور کہیں سے جواب آتا نظر نہیں آتا اس لیے وہ خود ہی سب سے مخاطب ہوا اور فرمایا:’’غور سے سنو یہ آدم علیہ السلام کے بیٹے یعنی انسان کی مثال ہے۔یہ تینوں شاخیں اس کی زندگی ،موت اورامیدوں کو ظاہر کررہی ہیں۔پہلی اورآخری شاخ زندگی اورامید ہیں جب کے درمیان میں موت ہے۔انسان کا نفس اس کوا میدوں کے پیچھے لگا کراسے اﷲ سے غافل کیے رکھتا ہے۔حتیٰ کہ اس غفلت بھری زندگی میں اسے موت آدبوچتی ہے اور اسے علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ قبر کی راہ لے لیتا ہے۔‘‘یہ مبلغ جناب محمدﷺ تھے جبکہ آپ کے سامنے زانوئے تلمذ بچھائے آپ کے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین تھے۔ آپ اکثر اوقات اپنے ساتھیوں کو اس طرح کی مثالیں دے کر سمجھایا کرتے تھے۔تاکہ بات اچھی طرح سمجھ آجائے۔

قارئین کرام!ایک مشہور محاور ہ ہے ’’امید پر دنیا قائم ہے‘‘اگر دیکھا جائے تو کچھ حد تک یہ درست ہے، مگر اپنی ذات کو امیدوں کا غلام بنا لینا باالکل غیرمناسب ہے۔انسان اس دنیامیں ہمیشہ جینے کے لیے نہیں بلکہ مرنے کے لیے آیا ہے اوراس فناء کے بعداسے ہمیشہ کے لیے بقاء ملنے والی ہے۔اُس زندگی میں جو شخص کامیاب ہوگیا وہ حقیقی کامیاب اورجواُس آنے والی زندگی میں ناکام ہوگیا وہ حقیقی ناکام ہوگا۔انسانوں کی اکثریت کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی امیدوں کی تکمیل کے لیے ہرراستہ استعمال کرتے ہیں اوراس دوران اﷲ ،رسول اوردین کو بالکل بھلا بیٹھتے ہیں ۔کیونکہ دنیا کی چکا چوندیاں انسانوں کو ہرچیز سے بیگانہ کردیتی ہیں۔حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ دنیا انسان کی آنکھوں میں محبوب اورانہیں خیرہ کرنے والی ہے اوراﷲ تعالیٰ تمہیں دنیا کا مال دے کرآزماتا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو۔‘‘ (سنن الترمذی:2350)توانسان اس مال کے بڑھانے کی امیدوں میں اس قدر مگن ہوجاتا ہے کہ وہ اس عارضی حیات کا حقیقی مقصد بھلا بیٹھتا ہے جو کہ اﷲ کی بندگی اوراس کو راضی کرکے ہمیشہ کی کامیابی کاحصول ہے۔جولوگ لمبی لمبی امیدیں باندھتے ہی رہتے ہیں اوروقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ان کی امیدیں بھی بدلتی اوربڑھتی رہتی ہیں۔ ان کے لیے ہدف کا حصول مشکل ہوجاتا ہے، مگر جو لوگ اپنا خاص ہدف لے کرآگے بڑھتے ہیں اور جب تک وہ اپناہدف حاصل نہیں کرلیتے اس کی تکمیل میں مگن رہتے ہیں وہ ایک نا ایک دن کامیاب ہوجاتے ہیں۔انسان کو ہدف بھی وہ چننا چاہیے جو اس کے لیے کامیابی کاضامن ہو۔نہ صرف دنیاوی بلکہ اخروی کامیابی جو کہ حقیقی کامیابی ہے۔اگر سیرت نبوی کے سنہری گوشوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس بات کاعلم ہوگا کہ امیدوں کے بجائے عملی اقدامات کیے جائیں۔جناب محمدﷺ کی پوری زندگی عمل سے متصل ہے۔اگر عمل نہ ہوتودعویٰ کسی کا م کا نہیں۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جھنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اس لیے یہ دنیا کی چند دن کی زندگی میں عمل صالح کرکے ہمیشہ کی زندگی کو محفوظ وممنون بنالیجئے۔ناصرف دنیا بلکہ آخرت بھی تاکہ ہمیشہ کی زندگی میں کبھی پچھتاوانہ کرنا پڑے۔کیونکہ رب تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب قرآن میں فرما دیا:’’جو مومن شخص بھی نیک اعمال کرے کرے گاچاہے وہ مرد ہویا عورت ہو ہم اسے ان اعمال کے سبب سے دنیامیں پاکیزہ زندگی عطاکریں گے اورانہیں ان کے نیک اعمال کے سبب سے عمدہ بدلے سے نوازیں گے۔(النحل:97 ) اس لیے دنیا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی جانیے اوروقت کو فضولیات اورجھوٹی امیدوں میں ضائع کیے بغیر عملی زندگی اپنائیے۔تاکہ کبھی پچھتاوے کا سامنا نا کرنا پڑے۔گزرا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔
 
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 25 Articles with 20985 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.