کسی کو یا کسی چیز کو دیکھ کر‘ اپنا اپنا یا دیکھا دیکھا
سا محسوس کرنا‘ انسیت اور مانوسیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح‘ دیار غیر
میں اپنے ملک کے کسی باشندے کو دیکھ کر‘ محبت آمیز خوشی ہوتی ہے۔ یہ الگ
بات ہے‘ کہ وہ کوئی دوسری زبان بولتا ہو۔ تصویر دیکھ کر‘عشق ہو جانے کی
حقیقی اور داستانی مثالیں موجود ہیں۔
خوب صورت اور نفیس سی خطاطی دیکھ کر بھی‘ سرور میسر آتا ہے۔ کسی دوسرے ملک
کے مناظر بھی‘ ہمیشہ اہل ذوق کو‘ خوش آئے ہیں۔ اپنے سے ہوں‘ تو یہ اس سے
بڑھ کر بات ہوتی ہے۔ یہ ہی صورت سماجی رسم و رواج کی ہے۔ اپنے سے‘ یا رائی
بھر مماثلت رکھتے رواج اور اطوار‘ موڈ میں خوش گوار تبدیلی کا باعث بنتے
ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ اپنے ملک کا کوئی لباس پہنے نظر آتا ہے‘ تو وہ اچھا نہیں‘
بہت اچھا لگتا ہے۔ دیار غیر میں‘ اپنے ملک کی کوئی خوردنی یا استعمال کی
چیز‘ دیکھ کر بڑا ہی اچھا لگتا ہے۔
مجھے چینی طور میں‘ عربی زبان کی کیلی گرافی‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ چینی
لوگوں کے پڑھنے میں نہیں آ سکتی‘ ہاں اپنی سی کا احساس‘ ضرور موجود ہے۔
انہیں یہ گمان ضرور گزرتا ہو گا‘ کہ یہ اپنی تو نہیں ہے‘ لیکن اپنی سی ضرور
ہے۔ لہذا اس سے متعلقین سے ربطہ کرنے میں‘ کوئی حرج نہیں۔ یا کم از کم ان
کو جاننے میں‘ کوئی خرابی نہیں۔
رومن اردو‘ انگریزی کا ہر جانو پڑھ سکتا ہے‘ بات کیا کی گئی‘ اس کی سمجھ سے
باہر رہے گی۔ رومن خط میں لکھی اردو‘ پہلی نظر میں انگریزی ہی لگے گی۔
پڑھنے کے بعد معلوم ہو گا‘ کہ یہ انگریزی نہیں ہے۔ جب وہ اسے پڑھے گا‘ اردو
والے بات سمجھ جائیں گے۔
یک ہنری لسانیاتی سکل یہ بھی ہے‘ کہ بہت سے لوگ قرآن مجید پڑھے ہوتے ہیں۔
وہ عربی روانی سے پڑھ سکتے ہیں‘ لیکن اس پڑھے کے مفاہیم کیا ہیں‘ اس سے وہ
آگاہ نہیں ہوتے۔ یہ انسیت یا یک ہنری لسانیاتی سکل بےمعنی اور لایعنی نہیں
ہے۔ یہ ان جانی سے‘ اپنی سی کا رشتہ ہے۔
یہ حرفی کام‘ بڑی ذمہ داری کا ہے۔ اس ہنر سے متعلق لوگوں نے‘ اسے بڑی
نفساست اور دل جمی سے‘ انجام دیا ہے۔ بعض جگوں پر‘ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ
یہ عربی ہے۔ اول و آخر چینی ٹریسز معلوم ہوتے ہیں۔ اس ذیل میں‘ وہ داد و
تحسین کے مستحق ہیں۔
میرے خیال میں یہ کام ہوتے رہنا چاہیے۔ اس کا سرکاری سطع پر اہتمام ہونا
چاہیے تا کہ قومیں‘ ایک دوسرے کو اجنبی یا غیر نہ سمجھیں اور ایک دوسرے کے
قریب آئیں۔ اردو سے متعلق لوگوں کو چاہیے‘ کہ وہ جہاں جہاں اور جن جن ممالک
میں ہیں‘ اس کام کو لایعنی قرار نہ دیں‘ بل کہ لکھنے میں ان کے اطوار
اختیار کرنا کوئی عیب نہیں۔ اہل زبان کو اسے پڑھنے میں‘ کوئی دشواری محسوس
نہیں ہو گی۔ جس کا واضح ثبوت عربی کی چینی طور میں کی گئی کیلی گرافی‘
موجود ہے۔ |