عدم برداشت

ہمارا معاشرہ آ ج اس مقام پر کھڑا ہے کہ جہاں کسی کی ایک چھوٹی سی بات بوداشت کرنا ایسے سمجھا جاتا ہے جیسے پتہ نہیں کس قدر بڑا احسان کر دیا ہے۔اور تو اور برداشت کر کے پھر سارے زما نے میں اس بات کو پھیلایا جاتا ہے کہ فلاں نے ایسا کیا تھا ویسا کیا تھا اور میں نے برداشت کر لیا ․․․․اس طرح بات ہزاروں کو بتا کر برداشت کرنے کا دعوٖی کرنے والے اپنے آپ کو بہت ہی بڑا گردانتے ہیں جو کہ بلکل غلط بات ہے․․․․․برداشت کرنا اس فعل کو کہتے ہیں کہ جب کسی کی بُری بات اور نا انصافی پر اﷲ کی رضا کی خاطر خاموشی اختیار کی جائے اور اپنا فیصلہ اﷲ کے سپرد کر دیا جائے․․ آج پاکستان کو دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ اور بہت سے اندرونی اور بیرونی مسائل کا سامنا ہے ہمارے اندر برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے۔بر داشت کرنے کی ہمیں بچپن سے نصیحت تو بہت کی جاتی ہے مگر کبھی ہمارے بڑے ہمارے سامنے اس کا عملی مظاہرہ نہیں کرتے اور بچے نصیحت سے ذیادہ اُس بات پر عمل کرتے ہیں جس پر وہ اپنے بڑوں کو عمل کرتے دیکھتے ہیں اور یوں سب ہی اس صفات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور اب تو ہماری دماغی حالت حالات کے پیش نظر اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ ہم کسی کی جائز بات کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہمارے معاشرے میں کم عمر بچے اور بچیاں خودکشیاں کر رہے ہیں اور جب تحقیق کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یا تو امتحانوں میں نمبر کم آئے جس کی وجہ سے گھر والوں نے ڈانٹا اور یہ برداشت نہ کر پائے اور خودکشی کی کوشش کر ڈالی دوسرا ہمارے ہاں فلموں اور ڈراموں نے اس قدر پیار و محبت کے جذبات کو بھڑکایا ہوا کہ دس ،بارہ سال کے بچے بھی اب کھلونے چھوڑ کر دلوں سے کھیل رہے ہیں عشق ،پیار ،محبت کے کھیل کھیلے جا رہے ہیں اور اس کھیل کھیل میں خط لکھ کر ایک دوسرے کو مارا جا رہا یا کسی کی محبت ( بقول ان کے سچی محبت )میں خود کو مار ڈالتے ہیں ۔ہمارے تعلیمی ادارے ایسے بچوں کے کردار کو نہ پڑھتے ہیں نہ ان کی تربیت کرتے ہیں والدین او ر اُستایذہ سب کچھ دیکھنے کے باوجودخاموشی کی چادار اوڑھے رہتے ہیں اور ساری ذمہ داری وقت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے ٹھیک ہو جائیں گے مگر سوشل میڈیا اور ہمارا میڈیا جو ہر ڈرامہ اور فلم میں عاشقی معشوقی دیکھاتا ہے اور پھر محبت نہ ملنے پر خودکشی کرنے کے سین دیکھا کر ان کے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے اور پھر کیا ہوتا ہے وہ بچے جن کے لیے والدین بے شمار خواب دیکھتے ہیں جنہیں بڑے ہو کر والدین کا سہارا بننا ہوتا ہے ان کے خوابوں کو پورا کرنا ہوتا ہے انہیں بچوں کو والدین خود اپنے ہاتھوں سے لحد میں اُتارتے ہیں ان والدین کا دل کیوں نہ خون کے آنسو روتا ہو گا جب ان کے خواب ان کے جگر کے ٹکرے مٹی میں مل جاتے ہوں گے ہمارے گھروں میں برداشت کرنے کا رواج تو بلکل ختم ہی ہو گیا ہے۔پہلے ساس بہو کے تعلقات پر بہت باتیں کی جاتی تھیں کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتیں ۔نندوں کے بھی اپنی بھابھی کے ساتھ تعلقات ا چھے نہیں ہوتے تھے مگر آج کل ایک گھر میں خون کے رشتے آپس میں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پا رہے بھائی بھائی کل گریبان پکڑ رہا ہے جائیداد اور پیسوں کی خاطر ایک دوسرے کو قتل کرنے پر راضی ہیں والدین کی پروا کئے بنا ایک دوسرے سے بد کلامی کرنا ،نازیبا الفاظ کل تبادلہ نیز گالم گلوچ کرنا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔عدالتوں میں بہت سے ایسے کیس دیکھنے میں ملتے ہیں کہ ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو صرف جائیداد اور پیسے کی خاطر موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔ہماری عدم برداشت اور لالچ اس قدر بڑھ چکی ہے اور کا ہونے کی بجائے اس کی شرخ میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔ عورت کو دوسری عورت کا دشمن سمجھا جا تا ہے۔بہن ،بہن کا ہنستا بستا گھر نہیں دیکھ پا رہی اگر ایک کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوتا ہے تو وہ اپنی بہن کو بھی تکلیف میں مبتالہ کر کے خوشی محسوس کر تی ہے ۔خون کے رشتوں میں اب پہلے جیسی محبت اور ایک دوسرے کے لیے اچھائی کرنے کا جذبہ ختم ہوتا چلا جارہا ہے۔اب صرف پیسے کی قدر کی جاتی ہے اور کسی کی ذرا سی بات کو بر داشت کرنا گوارا نہیں کیا جاتا ۔اگر ہم ٹریفک کے حوالے سے عدم برداشت کو دیکھیں توہمیں دیکھنے میں ملتا ہے کہ کس قدر لوگ عدم برداشت کا مظاہرہ سڑکوں پر سگنلز توڑ کرکرتے ہیں اس قدو کہیں اور دیکھنے میں نہیں ملتا ۔لوگوں کو دو منٹ سگنلز پر کھڑا ہونا پتہ نہیں کیوں برداشت نہیں ہوتا ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ سب سے آگے نکل جائے اور قانون کا احترام کرنا تو ایک طرف کسی کی مجبوری اور پریشانی کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔ٹریفک وارذنز کے ساتھ بدتمیزی ،ہاتھاپائی کرنا عام سا رواج بنتا جا رہا ہے۔بیچارے ٹریفک پویلس کے ملازمین جو سڑکوں پر دھوپ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہوتے ہیں ان کے ساتھ بدسلوکی اور مار کٹائی کے بعداپنے اثرورسُوخ کا استعمال کرتے ہوئے بڑے عہدیداروں کو فون کر کے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں مگر اس سب صورت حال میں ایک غریب پولیس اہلکار عدم برداشت کا شکار ہو کر بنا قصور کے مار کھاتا ہے۔انسانیت کا درس دینے والے اپنے مذہب اور اس مذہب پر عمل کرنے کا طریقہ بتانے والے اپنے آخری نبی حضرت محمدﷺکو بھول چُکے ہیں۔ہمیں ہر جگہ صرف اپنا فائدہ دیکھنا ہوتا ہے پھر چاہے اس کی وجہ سے کسی کی جان جا رہی ہے یاکسی کو مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ہمارا مقصد صرف اپنے عہدے کا اظہار کرنا ، لوگوں کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہوئے بُرا سلوک کر نا اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے ۔اگر ہمارا یہی شیواء رہا تو انقریب منہ کے بل زمین پر گر پڑیں گے کیونکہ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔آج اگر دوسروں کو نیچا دیکھائیں گے ان کے ساتھ بُرا سلوک کریں گے اور اپنے اندر برداشت پیدا نہیں کریں گے تو مزیدپستی کا شکار ہوتے چلے جائیں گیاور پھر ہمیں کوئی بچا نہیں سکے گا نہ ہماری جائیدادیں، نہ اولاد، نہ سرمایہ کچھ ہمارے کام نہ آئے گا۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنی حرکتوں کو ٹھیک کر لیں اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرنا بند کر دیں لوگوں کو اور ان کے رویوں کو برداشت کرنا شروع کردیں۔
Tayyaba Aslam
About the Author: Tayyaba Aslam Read More Articles by Tayyaba Aslam: 4 Articles with 3548 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.