پاکستان میں مسلم لیگ جماعتوں کی تعداد

مختلف دھڑوں میں بٹی مسلم لیگ جماعتوں کے رہنما ظاہری طور پر کچھ بھی کہیں لیکن دلی طور پر ان کی اکثریت بکھری جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے خواہاں ہیں اور کبھی کبھار دبے دبے الفاظ میں اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تمام مسلم لیگی اکٹھے ہو جائیں تو ان کو الیکشن میں وہ دو تہائی اکثریت مل سکتی ہے جس کی ہر سیاسی جماعت تمنا کرتی ہے، لیکن ضد، ہٹ دھرمی، تکبر اور طاقت کا خمار تمام مسلم لیگی جماعتوں کے انضمام میں رکاوٹ ہے۔

برطانوی دور میں تحریک علی گڑھ کے پیروکاروں نے 30 دسمبر 1906 میں مشرقی بنگال کے شہر ڈھاکہ میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کی سالانہ کانفرنس کے موقع پر برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق اور الگ وطن کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس جماعت کے پہلے اعزازی صدر نواب وقارالملک کو بنایا گیا۔ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلم لیگ نے پاکستان حاصل کر لیا تو چند ماہ بعد دسمبر 1947 میں کراچی میں قائد اعظم کی صدارت میں اجلاس ہوا جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کا نام ختم کر کے پاکستان مسلم لیگ کر دیا گیا جب کہ بھارت کی مسلم لیگ کا نام انڈین یونین مسلم لیگ رکھا گیا۔ قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کی طرح ملک کی بانی جماعت مسلم لیگ کے لئے بھی ایک ایسے آزمائشی دور کا آغاز ہوا جو ابھی تک ختم نہیں ہو سکا۔ پاکستان مسلم لیگ کو آمروں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے استعمال کیا تو سیاستدان بھی اس کے ساتھ کھیلنے میں پیچھے نہ رہے۔ چنانچہ آج حالات یہ ہیں کہ ایک مسلم لیگ ون مین شو پر مبنی جماعت بھی ہے۔ 1958میں چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر جنرل ایوب خان نے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس وقت کی کنونشن مسلم لیگ تھی جس نے فوجی آمر کی حمایت کی تو 1962 میں وہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ کنونشن مسلم لیگ ایوب کی جماعت بن گئی اور ان کے مخالفین نے اس کے مقابلے میں مسلم لیگ کونسل تشکیل دی۔ کونسل مسلم لیگ میںچودھری محمد حسین چٹھہ، میاں ممتاز دولتانہ، خواجہ محمد صفدر اور چودھری ظہور الٰہی اور خان قیوم خان جیسے رہنما شامل تھے۔ خان عبدالقیوم خان کو کونسل لیگ سے اختلافات ہوئے تو انہوں نے اپنے نام سے مسلم لیگ قیوم قائم کر لی اور 1970 کے الیکشن میں حصہ لیا۔1973 میں بھٹو دور میں کنونشن اور کونسل مسلم لیگیں تو پھر اکٹھی ہو گئیں، جب کہ مسلم لیگ قیوم پیپلز پارٹی کی حکومت کی اتحادی تھی، تب پیر پگارا نے 1973میں فنکشنل مسلم لیگ بنا لی۔ جنرل ضیا الحق نے مسلم لیگوں کو یکجا کر کے محمد خان جونیجو کو اس کا صدر بنایا تو 1985 میں پیر پگارا نے علیحدگی اختیار کرلی، تاہم ان کی فنکشنل مسلم لیگ آج بھی قائم ہے۔

جونیجو کی مسلم لیگ نے 1988 کے الیکشن میں جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر جماعتوں سے مل کر اسلامی جمہوری اتحاد قائم کیا، تاہم پیپلز پارٹی کی الیکشن میں کامیابی کے بعد یہ اتحاد ختم ہو گیا اور 1993میں مسلم لیگ جونیجو کو حامد ناصر چٹھہ، میاں منظور وٹو، اور اقبال خان نے اس وقت دوبارہ زندہ کیا، جب نواز شریف مسلم لیگ نواز کے نام سے اپنی الگ جماعت بنا چکے تھے۔ جونیجو لیگ سے اختلافات کی وجہ سے میاں منظور وٹو بھی الگ ہو گئے اور 1995 میں پاکستان مسلم لیگ جناح قائم کر لی، تاہم جونیجو اور جناح دونوں جماعتیں 2004 میں مسلم لیگ ق میں ضم ہوگئی تھیں۔ ق کے رہنما شیخ رشید نے پارٹی سے اختلافات کے بعد 2008 میں عوامی مسلم لیگ کے نام سے جماعت بنالی، جبکہ سابق آمر پرویز مشرف کا سیاست سے ابھی دل نہیں بھرا، اور انہوں نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے جماعت بنا ڈالی ہے۔ اب تک یہی جماعت مسلم لیگ کے بطن سے نکلنے والی سب سے آخری مسلم لیگ جماعت ہے۔ موجودہ صورت حال میں اگر مسلم لیگ کی تمام جماعتیں ایک ہو جاتی ہیں اور وراثتی سیاست چھوڑ کر جمہوری انداز میں پارٹی کی قیادت کا چناؤ کیا جاتا ہے تو وجود میں آنے والی نئی متحدہ مسلم لیگ کو عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90684 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.