جنرل راحیل شریف کا عزم اور پانامہ کمیشن

 بالا آخر وزیر اعظم نے پانامہ پیپرز کے ہنگامے کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر ہی لیا، وزیر اعظم نے اس فیصلہ کا اعلان پاکستانی قوم سے ایک اور خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ وزیر اعطم کا ایک مہینے میں تیسرا خطاب تھا، یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں ایک نیاریکارڈ بنا ہے، اپوزیشن سمیت تمام ایسے حلقوں نے حکومت کے تشکیل کردہ کمیشن کو قبول نہ کرنے کی اپنی روایت برقرار رکھی جو پاکستان میں واقعی احتساب اور بلا دریغ احتساب ہوتے دیکھنے کے خواہش مند ہیں ، تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی اعتزاز احسن گروپ،سپریم کورٹ بار اور دیگر کی جانب سے مجوزہ تحقیاتی کمیشن کو مسترد کردیا گیا ہے، بلاول بھٹو کی جانب سے وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ مقبولیت اور اپنی ساکھ بحال کرنے کا ایک موقع حاصل کرنے کی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔فوج سے منسلک ایک پرانے کیس ( این ایل سی) کے کرداروں کو سزاؤں کا اعلان جنرل راحیل کی مقبولیت کے گراف کو بلندیوں پر پہنچانے میں ’’ جادو سر چڑھ کربول رہا ہے‘‘فوجی اقتدار کے استحکام کے لیے بیساکھیاں فراہم کرنے والے خوشامدی عناصر وزیر اعظم کی جانب سے کمیشن کی تشکیل کو جنرل راحیل شریف کے بیان سے منسلک کر رہے ہیں۔

پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کو وقت حاصل کرنے کا بہانہ قرار دیا جا چکا ہے ، اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی ترکی کے دورے پر انقرہ پہنچ چکے ہیں، وفاقی سکریٹری قانون اپنی مدت ملازمت کی معیاد مکمل کر کے گھر کی راہ لے چکے ہیں اس طرح چیف جسٹس کی واپسی اور پھر نئے سکریٹری قانون کی تقرری کو بنیاد بنا کر معاملے کو کھٹائی میں ڈالا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم اس معاملے کی صدق دل سے تحقیقات کروانے میں مخلص ہوتے تو بیماری کا بہانہ بنا کر لندن جانے کی ضرورت نہیں تھے اگر ترکی کا دورہ صحت کی خرابی کی بنیاد پر ملتوی کیا تھا تو پھر وزیر اعظم لندن کا سفر بھی اختیار کرنے سے احتیاط برتتے۔ اپوزیشن کے تیور دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاملہ سلجھاؤ کی طرف جانے کی بجائے مذید الجھاؤ کی سمت سفر کرے گا اور حالات روز برو دگرگوں ہوتے جائیں گے۔

پانامہ پیپرز قانونی سے زیادہ اخلاقی معاملہ ہے دنیا بھر میں جیسے عوامی منتخب راہنماؤ ں کی جانب سے سرکاری منصب سے الگ ہونے کی خبرین میڈیا کی زینت بن رہی ہیں انہیں دیکھتے ہوئے پاکستان میں بھی حکومت پر اخلاقی دباؤ پڑنا فطری بات ہے۔ پاکستان میں سیاستدان (خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں) جس طرح خود کو فرشتہ صفت بنا کر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اس کا تقاضا یہی ہے کہ کسی معاملہ مین ان کی ذات پر انگلی اٹھے تو انہیں اخلاقی طور پر اپنے منصب سے مستعفی ہوجانا چاہیے اور خود کو تحقیقات کے لیے پیش کردینا چاہیے اور اگر وہ اس معاملہ مین کلین چٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر دوبارہ اپنے منصب پر فائز ہوکر عوامی خدمت کا آغاز کردیں۔

لیکن ایسی کہانیاں پاکستان میں صرف کتابوں میں مطالعہ کے لیے دستیاب موجود ہیں عملا اس کا وجود دور دور تک نہیں ،پاکستان میں پاکستانی سیاستدان اقتدار کے حصول کے لیے تمام اخلاقی حدود کو عبور کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں، اگر انہیں آئین کو اپنے بھاری بھر کم بو ٹوں تلے روندنے والے آمروں کی کابینہ میں جھنڈے والی گاڑی ملے تو ’’ ذرا سی‘‘ نہیں کرتے آئین شکن کے ساتھی کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس امر میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آئین توڑنے والے اور ان کا ساتھ دینے والے دونوں پاکستان کے بہترین مفاد میں ایسا کرتے ہیں ، اگر وہ اپنے اقتدار کو طول بھی دیتے ہیں تو پاکستان اور پاکستانی قوم کے مفاد میں اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی اقتدار کو کئی دہائیوں پر محیط کرلیتے ہیں۔ سیاستدان کو جلاوطن بھی کیا جاتا ہے تو پاکستان کے مفاد میں کیا جاتا ہے اور اگر کسی سیاستدان کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے تو بھی اس کے وجود کو ناپاک اور وطن عزیز کے لیے ایک ناسور قرار دیکر ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے۔

جنرل راحیل شریف نے ملک کو مستحکم بنانے کی راستے میں حائل کرپشن کی دیواروں کو منہدم کرنے کے سلسلے میں اپنے عزم اور مشن کی تکمیل میں اپنی نیت دکھا دی ہے اور اپنے ادارے کے اعلی افسران کو سزائیں سنا کر ثابت کردیا ہے کہ وہ پاکستان کے دفاع میں رکاوٹ ہر قوت سے ٹکر لیں گے چاہیے اس میں انکا اپنا ادارہ ہی کیوں نہ آئے ،اب سویلین جمہوری حکومت کی کورٹ میں بال ہے کہ وہ بھی ملک و قوم سے اپنی وابستگی کا مخلص ہونے کا ثبوت دیں ، اور خود کو مختلف چھتریوں تلے چھپنے کی کوشش کرنے کی بجائے خود کو احتساب کے لیے پیش کردیں ، اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ایسا کرنا پاکستان میں بہت مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اور رہا بھی ہے ماضی میں ایسی کوئی ایک نظیر بھی نہیں ملتی کہ برسراقتدار تو دور کی بات ہے سابق ہونے کے باوجود کسی حکمران نے خود کو احتساب کے لیے پیش نہیں کیا ، جھوٹا سچا مخالف حکومتوں نے ہی ایک دوسرے کو احتساب کے نام پر نشانہ بنایا ہے۔یہ میں نہیں کہتا سیاسی جماعتیں خود ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہی ہیں۔

فوج کی جانب سے اپنے افسران کو سزائیں سنانے کے اقدام اور فیصلے کو عوام میں پزیرائی حاصل ہو رہی ہے، اسی بنیاد پر عوامی حلقے جنرل راحیل شریف کے کرپشن کے خاتمے کے عزم سراہتے ہیں اور اس عزم کی حمایت میں عوامی ریلیاں بھی نکالی جا رہی ہیں۔ جس سے عوام میں فوجی اقتدار کی حمایت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس لیے کسی انہونی سے جمہوریت اور منتخب عوامی حکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کرنا نہایت ضروری ہوگیا ہے اس کے لیے سب سے اہم اور زیادہ ذمہ داری برسراقتدار ھکمران جماعت پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت خصوصا وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ جمہوریت کے تحفظ اور اس کے خلاف سازش کرنے والے سرگرم عناصر کے عزائم خاک میں ملانے کے لیے اسے فوری اور بروقت اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے،میرے خیال میں اگر وزیر اعظم پانامہ پیپرز کے معاملے کو دانشمندی سے حل کرنے کی بجائے اسے خوامخواہ طول دینے کی پالیسی پر گامزن رہتے ہیں تو یہ جمہوریت اور پاکستان کے قومی مفادات کے لیے سراسر خسارے کا سودا ہوگا۔ لہذا حکومت کو جوش میں باولا ہونے کی بجائے باہمی ہوش خواس کے ساتھ فیصلے کرنے چاہئیں اور پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے لیے تشکیل دئیے جانے والے کمیشن کو عوامی اور مخالفین کی آرزوؤں کے عین مطابق بنا کر ان کے منہ بند کرکے سرخرو ہونے کا اچھا موقعہ ہاتھ سے نہیں کھونا چاہیے۔

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161139 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.