جمہوریت کی بنیادیں عدلیہ پر ٹکی ہوئی ہیں، بہتر عدالتی
نظام اس کے ڈھانچے کو مضبوط اور تعمیر و ترقی سے ہمکنار کرتا ہے۔ بلندی سے
روشناش کراتا ہے، اس کی ترویج وتعمیر میں ناقابل انکار کردار ادا کرتا ہے،
اس کی بقاء کا ضامن ہے، صالح معاشرہ کی تعمیر کا راز اسی طریقہ کار میں
مضمر ہے۔ انسانیت نوازی کا پیغام اسی میں پنہاں ہے، امن وسلامتی اس کے زیر
اثر ہے کوئی بھی سماج یا طبقہ اس وقت تک نہ تو جرائم سے پاک ہوسکتا ہے اور
نہ برائی اور بدکرداری پر قدغن لگائی جاسکتی ہے، جب تک یہ شعبہ متحرک وفعال
اور غیر جانب دار نہ ہو، عدلیہ کی شان ہی یہی ہے کہ اس میں جرائم دیکھے
جاتے ہیں، جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے چہرے، حسب ونسب، عہدے و مناصب،
روابط مال و منال پر نگاہ نہیں کی جاتی،ان پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر تاریخ
کے اوراق کو پلٹا جائے تو اس طرح کی حکومتیں جن کا نظام عدلیہ پختہ، مظبوط
اور غیر جانب دار رہا، حاکم بھی اس کی زد میں آئے ان کا دورحکومت
زریں،انسانوں کی فلاح و بہبود، ترقی و کامرانی سے پُر نظر آئے گا، جہان
مسائل کی بہتات نہیں ہے، انسانیت سوزی، آبرو ریزی، قتل وغارت گری کا گندہ
کھیل نہیں ہے؟ انصاف ہے، امن شرافت پیار ومحبت ہے اور ایک گھاٹ پر بکری اور
بھیڑ کے پانی پینے کی مثال .مثال نہیں حقیقت ہے، مگر زمانہ نے کروٹ بدلی
اور مرور ایام نے وقت کے اس دوراہے پر لاکھڑا کیا جہاں یہ خیال حماقت سے
تعبیر کیا جانے لگا، دیوانگی اور پاگل پن تصور ہونے لگا اور اس کی تلاش
عنقاء کی جستجو اور بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مثل قرارپائی، اب
تو ساری کائنات ایک ایسے مہیب اور بھیانک راستہ پر دوڑ پڑی جس کے مستقبل کا
خیال بھی ذہن کو خوف زدہ اور ہراساں کرنے والا اور انسانیت کی روح کو مسخ
کرنے، قلب کوچکناچور کرنے والا ہے اور ہر شخص نظام عدلیہ کی بدتری اور
ابتری پر شکوہ کناں، ماتم کناں، نالہ بلب ہے، مگر ایسی تدبیر اور ایسی
راہیں نگاہوں سے اوجھل ہیں جو نشانِ منزل ثابت ہوں اور اس دور بے حسی کو
فنا کے گھاٹ اتار دے۔ اس حال کی نسبت کسی ایک خطہ یا ملک کی طرف کرنا تو
شدت ہوگا مگر ہمارا ملک ہندوستان ایک خطیر تعداد کا مسکن وٹھکانہ ایک ارب
اٹھائیس کروڑ کی آبادی سے لیس، اگر اس کا نظام عدلیہ تعطل کا شکار ہوجائے
تو اندازے اور شمارے یقینا چوکانے والے ہوں گے اور ہوئے ہیں۔ آج بھی یاد ہو
مجھے بچپن کا وہ واقعہ کے دھننجئے نام کے ایک شخص نے 14 سال کی بچی کی آبرو
سے کھلواڑ کیا، اس کی عزت نوچ لی، اسے انصاف پانے کے لئے 14سال لگے، تصور
کیجئے ایک شیشے کو پتھر نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا، اس کی کرچوں کو اگر جوڑ بھی
دیا جائے تو کیا دنیا کی کوئی طاقت نشانات کو مٹا سکتی ہے اور اگر اس ٹوٹے
ہوئے وجود کو جوڑنے کے بجائے عدالتوں کے چکر لگوائے جائیں اور رشوت کی کالا
بازاری ہوگی تو کیا ہماری عورتوں کوحفاظت اور حوصلہ ملے گا؟ یا چور، اچکوں،
لفنگوں اور زانیوں کے ارادے مضبوط ہوں گے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہر گزرنے
لمحہ والا قتل، زنا کے واقعات میں تو اضافہ کرتا ہے لیکن سزا اور انصاف کے
دفاتر اس کے بہ نسبت خالی سے محسوس ہوتے، آخر کہاں چلے جاتے زانی مجرم قاتل
ان کو زمین کھا جاتی ہے یا آسمان نگل جاتا ہے سمجھ سے بالا تر ہے۔
گناہ کے خاتمہ کے لئے سزا اور انصاف کیمیا ہے، لیکن آج بھی کروڑوں افراد
انصاف کو ترستے ہیں، غربت افلاس سے ٹوٹ جاتے ہیں اور پھر انصاف کے لئے پیدا
ہونے والا جذبہ سرد ہوجاتا ہے اور اس حدتک کے کانوں کو ایسے جملے سننے کو
ملتے ہیں، میاں چھوڑئیے کہاں عدالت کے چکر میں پڑتے ہیں، یہیں لے دے کر
معاملہ کو رفع دفع کیجئے، عدالت جانے کے لئے تو سونے کے ہاتھ اور لوہے کے
پاؤں درکار ہیں، بس یہیں سے جرم حوصلہ مند طاقت ورمضبوط اور آہنی چٹان
ہوجاتاہے اور شرافت بزدلی کو روپ دھار لیتی ہے اور انصاف امیروں کے گھر کی
لونڈی محسوس ہوتا ہے، جس کا خمیازہ کبھی ہیمنت کرکرے، تو کبھی تنزیل احمد،
تو کبھی اخلاق، تو کبھی نربھیاکی شکل بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ مجرم جانتا ہے
کہ وہ اس ملک کا باشندہ ہے، جہاں 3کروڑ سے زیادہ معاملات ردی کے ٹوکرے میں
پڑے (Case Pending))ہیں اور دس لا کھ کیسز کو دیکھنے کے لئے صرف ایک وکیل
ہے۔ اگر دن رات بحث ہو تو بھی ممکن نہیں کہ عرصہ قلیل میں ان سب کا خاتمہ
کردیا جائے، پھر یہ کسے ممکن ہے کہ جرم میں اضافہ نہیں ہوگا اور معاملات
عدالت کے سپرد نہیں کئے جائیں گے۔ ہرگذرنے والالمحہ ایک حادثہ کو جنم دیتا
ہے اور ہر حادثہ ایک کیس کو اور پھر یہ خیال کہ دن رات بحثیں ہوں، خیال ہی
ہے۔ حقیقت سے خالی ان وجوہات پر نظر کی جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ہمارے
ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ جس ملک کا چیف جسٹس آنسو
بہارہا ہو اس کا نظام عدلیہ تو اس کے آنسو کے قطروں میں ایسے نظر آتا ہے
جیسے پانی میں چاند۔ بے بسی اور لا چاری اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے، اس
منظر کو دیکھنے والے پیشہ ور مجرموں کے حوصلوں کا ساتویں آسمان پر پہنچنا
کیا بعید ازقیاس ہے؟ کیا خوف کریں گے سزاؤں دفعات کا اگر چہ یہ موتی محبت و
ہمدردی کے جذبہ کے ترجمان ہیں لیکن اس منظر کے بعد جو سوالات پیدا ہوئے ان
کے جوابات ہر ذی شعور اور ذی عقل جانتا ہے اور دوسرا پہلو بھی بہت زیادہ
تکلیف دہ ہے،بہت سے بے گناہ نوجوانوں کی زندگیاں جیل کی کال کوٹھریوں میں
گذر گئیں، ان کا مستقبل، ان کا کرئیر خواب، سپنے، جوانی، محبت سب کچھ تباہ
وبرباد ہوگیا، ان کو ضمانت تک نہ مل سکی کیوں کہ ان کے پاس اتنی قیمت اور
اتنا مال نہیں تھا جس سے اپنی ضمانت کی تدبیر کو بروئے کار لا سکتے، بس جیل
کی کوٹھری کو ہی اپنا مقدر گردان کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئے۔ کچھ کو
زندگی کاایک قیمتی حصہ گذار کر لوٹنا نصیب بنا اور معلوم ہوا وہ بے گناہ
تھے۔ مولانا عبدالقوی 11سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذارنے کے بعد لوٹے۔
عبدالکریم ٹنڈا اس گرفتاری کا منظر آج بھی جو ٹی وی چینلز نے نشرکیا قلب پر
ثبت ہے، عرصہ بعد وہ بھی بے گناہ ٹھہرے۔ مالیگاؤں 2006بم دھماکہ ہوا، کیس
سے 9مسلمان باعزت بری ہوئئے، بدنامی کا داغ ان کے سروں پر رہا، زہے قسمت ان
لوگوں کو باہر آنے کا موقع فراہم اب بھی نہ جانے کتنے افراد جیلوں میں جو
ہررات اپنے آپ سے یہی سوال پوچھتے ہیں آخر یہ کس جرم کی سزا ہے جو میں بھگت
رہا ہوں اور اصل مجرم کہاں ہیں جوزندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں اور خوف ودہشت
کے منصوبے بنا رہے ہیں اور ملک وملت کو نقصان پہنچانے کی تدبیریں کررہے ہیں۔
کیوں تلاش نہیں ہے اصل مجرموں کی؟ کس نے انجام دیں یہ گھناؤنی وارداتیں؟
آخر کب تک اس طرح ہوتا ر ہے گا؟ کب تک ہمارے ملک کے چیف جسٹس کو انصاف کا
انتظار کرنا پڑے گا اور برائی کا قلع قمع ہوگا ؟معاشرہ ظلم وجور سے نجات
پائے گا؟ آخر کب ہمارے وزیر اعظم کی آنکھیں کھلیں گی؟ اور اس شعبہ کی طرف
سنجیدگی سے غور کیا جائے گا، جس سے معاشرہ کی حیات وابستہ ہے جس سے جمہوریت
کی زندگی ہے۔
اگر یہ شعبہ اسی طرح بے توجہی کا شکار رہا تو وہ دن دور نہیں جب جنگل راج
ہوگا اور دن کی تابانی اور سورج کی ضیا پاش کرنیں بھی خوف وہراس کے بادلوں
کو ختم نہیں کرپائیں گی اور ہر لمحہ ساون کی بھیانک اور ڈراونی رات کی مثال
بن جائے گا۔ |