حقائق کا سامنا نہ کیا تو ملک کو نقصان ہو گا!

 کسے نہیں معلوم کہ پاکستان میں سیاست ایک نفع بخش کاروبار ہے۔ ایک لاکھ لگاؤ ایک کروڑ کماؤ والا معاملہ ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ اس ملک میں سیاست کو عبادت سمجھ کر سیاست کرنی والی ایک سیاسی جماعت بھی موجود ہے مگر بوجہ عوام اس کے نمائندوں کو منتخب نہیں کرتے تو پھر حالات تو ایسے ہی رہیں گے نا۔الیکشن میں نمائندہ بنتے وقت ہرامیدوار اپنے اثاثے ظاہر کرتا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد اس نے ملکی خزانے میں لوٹ مار تو نہیں کی ہے۔ مگر اس پیمانے کو بھی سیاست دانوں نے مذاق بنا دیا ہے۔اس پر اگر صحیح طریقے سے عمل ہو تو ملک میں جاری کرپشن کے ہنگامے سے قوم کو نجات ملتی مگر اس پر عمل کرنے اورکرانے والے بھی سیاست دان ہی تو ہیں۔ اگر موجودہ ہلچل پر بات کی جائے تو ۲۰۱۳ء کے الیکشن میں چار حلقے کھول دیے جاتے تو تیرہ ہفتوں کا دھرنا نہ ہوتا اور اگر پاناما لیکس میں وزیر اعظم صاحب کے بیٹوں کے نام آنے پر وزیر اعظم صاحب اپنے عہدے سے استفٰا دے کر شفاف تحقیقات کروا دیتے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا اور موجودہ غیر یقینی جیسے حالت نہ پیدا ہوتے اور ملک میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر وقت صرف ہوتا اور دکھوں کی ماری قوم جس کی آبادی کے ساٹھ فی صد لوگ، خط غربت سے نیچے زندگی گزانے پر مجبور کر دیے گئے ان کو سکھ نصیب ہوتا ۔ ہماری قوم کو سکھ دینے کے بجائے قوم کے ہر فرد کو ایک لاکھ بیس ہزار کا بین الاقوامی سودی اداروں کا مقروض نہ ہونا پڑتا۔ملک کے سیاست دانوں، اسٹبلشمنٹ ،چائے فوجی ہو یا سولین ملک کو لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ فوج کا تواپنا چیک اینڈ بیلنس کانظام ہے جس کے تحت سپہ سالا نے عمل کر کے اپنے چوٹی کے افراد کو سزا دلوا کر فارغ کر دیا ہے ان کی تمام مراعات بھی واپس لے گئی ہیں اس پر سیاست دانوں کو بھی عمل کرنا چاہیے تھا مگر عمل کرنے کے بجائے وہ پرانے والی باتیں’’ میں کسی سے ڈیکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ اور اب’’میں کسی سے ڈرتا نہیں ہوں‘‘ کی گردان شروع کر دی۔ محب وطن حلقے پریشان ہیں کہ اﷲ نہ کرے کہیں جنرل کاکڑ والا فارمولا پھر نہ دھرایا جائے۔ سول اسٹبلشمنٹ والوں کا کیا کہنا کہ ہماری نیپ ارب کی کرپشن کرنے والوں سے ایک لاکھ لے کر چھوڑ دیتی ہے۔ سیاست دان تو سیاست دان ہیں بھئی ان کے ہاتھ میں تو ملک کا سیاہ سفید ہوتا ہے وہ تو اپنے آپ کو فرشتہ سمجھتے ہیں جیسے ہماری وزیر اعظم صاحب نے اپنے آپ کو سمجھا ہوا ہے۔جب پاناما لیکس سامنے آئیں تو دو وزیر اعظموں نے شفاف تحقیق کے لیے استفٰا دیا اور ایک وزیر اعظم نے اپنے اثاثے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دیے اور کسی نے اپوزیشن سے مل کر تحقیقاتی سسٹم بنا دیا۔ہمارے ملک میں اپوزیشن نے شفاف تحقیق کی بات کی تو پہلے ریٹائرڈ جج کے تحت اوراب چیف جسٹس کے تحت کمیشن بنانے کے لیے خط لکھ دیا۔ مگر اس کے ٹی او آر کو اس طرح رکھا کہ بقول میڈیا یہ ۱۸۵۷ء سے احتساب شروع ہوگا پھر وزیر اعظم کا نام آئے گا۔ ارے بھائی آپ کے بیٹوں پر الزام لگا ہے اور مخالفین کہتے ہیں کہ آپ نے ان کو پیسے دیے ہیں۔ آپ نے یہ ثابت کرنا ہے کہ نہیں میرے بیٹوں نے باہر ملک میں کاروبار کر کے پیسے کمائے ہیں۔ اتنی سے بات تھی جسے آپ نے اتنا لمبا کر دیا۔عمران خان کی باتوں میں وزن نظر آنے لگتا جب وہ کہتا ہے کہ پاکستان کی دونوں بڑی پارٹیوں نے آپس میں مفاہمت کر لی ہے کہ ایک دوسرے کی کرپشن کر تحفظ دیں گے۔کیا آصف علی زرداری نوسال کرپشن کے کیسوں میں پابند سلاسل نہیں رہے ہیں کیا دنیا نے اُنہیں مسٹر ہینڈرنڈ پرسنٹ کا نام نہیں دیا تھا؟ کیا ملک سے لوٹا ہوا پیسا سوئس بنکوں میں نہیں پڑا ہوا ہے۔ کیا ان کی پارٹی کے دو وزیر اعظموں کے خلاف ملک کی عدالتوں میں کرپشن کے مقدمے نہیں چل رہے۔ اگر وزیر اعظم صاحب کی بات کی جائے تو کیا انہوں نے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور سے لیکر آج تک ایک فیکٹری سے کئی کارکانے نہیں بنائے؟ کیا آپ کرپشن کے الزامات سے پریشان ہو کردو دفعہ قوم سے مظلومانہ خطاب نہیں کرچکے؟ اخباروں کے پیش کردہ ریکارڈ کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے آپ نے اپنے چھبیس کارخانوں کے لیے بنکوں سے۶۳۸۰ ؍ملین قرضے نہیں لیے؟ آپ نے اپنے سابقہ دور اقتدار میں ۳۵؍ ارب کے قرضے معاف نہیں کروائے؟اتنے دولت رکھنے والے پاکستان کے وزیر اعظم کا اگر ٹیکس ریکارڈ دیکھا جائے تو ان کی آمدنی اور اثاثوں سے لگا نہیں کھا تا۔ جب پنجاب کے وزیر خز انہ بنے تو ان کی فیملی کا ایک انڈسٹریل یونٹ تھا۔ جب پہلے بار وزیر اعظم بنے تو تعداد ۹؍ ہو گئی۔ دوسری بار اقتدار ملا تو یہ تعداد ۲۸؍ تک بڑھ گئی۔ عہدوں کا ناجائز فاہدہ اُٹھاتے ہوئے سرکاری اور پرائیویٹ مالیاتی اداروں سے بھاری قرضے حاصل کیے۔۱۹۹۳ء میں شریف فیملی پر واجب الادا قرضوں کا حجم ۶۱۴۶ ؍ملین سے زائد تھا۔ آن لائن کو ملنے والی تحقیقی سرکاری دستاویزات کے مطابق ۷۱۔۱۹۷۰ء میں شریف فیملی کی جانب سے سات ہزار چھ سو تیئس روپے انکم اور ٹیکس صفر بتایا گیا تھا۔ نواز شریف صاحب کے مطابق ۱۹۷۹ء میں اتفاق فائنڈری کھنڈرات کی شکل میں ملی تھی۔ جبکہ سرکاری دستاویزات کے مطابق جنرل ضیا الحق نے

۲
جون ۱۹۷۹ء میں جب اتفاق فائنڈری واپس کی تو اتفاق گروپ کے ذمے آٹھ کروڑ چونتیس لاکھ روپے قرض تھاجو ضیا الحق نے معاف کر دیا تھا۔ نواز شریف کے مطابق ۱۹۸۹ء میں جوناتھن جہاز روکنے کی وجہ سے انہیں پچاس کروڑ کا نقصان ہوا۔ جبکہ ٹیکس گوشوارے ۱۹۸۹ء میں شریف فیملی کی کل ظاہر کردہ آمدنی نو لاکھ اڑتیس ہزار تین سو گیارہ ۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق ۹۳۔۱۹۹۲ء میں شریف فیملی کی آمدن ترتالیس ہزار سات سو سات روپے اور صرف چھ ہزار ایک سو ستر روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیے گئے۔اس طرح ۹۴۔۱۹۹۳ء میں شریف فیملی نے کل آمدن دو لاکھ بیاسی ہزار پانچ سو چار روپے ظاہر کی اور صرف دس ہزار چار سو روپے ٹیکس ادا کیا۔صاحبو!کیا اتنی زیادہ آمدنی والے وزیر اعظم صاحب اتنا کم ٹیکس ادا کیاہے؟ کیا یہ ممکن ہے یا ہمارے ادارے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں؟کیا الیکشن کمیشن کو یہ کم ٹیکس دینے والا اور کم آمدنی ظاہر کرنے والے وزیر اعظم کو قانون کی گرفت میں نہیں لانا چاہیے تھا؟ کیا اپوزیشن کو اس پر قانونی چارہ جوئی نہیں کرنی چاہیے تھی؟صاحبو !کیا کہا جائے اصل میں اس حمام میں سب ننگے ہیں؟ ہم وزیر اعظم صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ حقائق کا سامنا نہ کر کے ملک کو نقصان پہنچانے والے سیاست دان نہ بنیں۔سیدھی طرح استفٰا دے دیں، اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیں۔ یوڈیشنل کمیشن کے ٹی آر او تبدیل کر کے اپوزیشن کے مشورے سے بنائیں۔ احتساب سے صاف و شفاف ہو کر نکلیں تو پھر اس کے بعد ایک ایک کرپٹ شخص کا احتساب شروع کریں یہی موجودہ مسئلے کا حل ہے دوسرے سارے حل تباہی کی طرف جاتے ہیں ۔اﷲ ہمارے ملک کو کرپٹ افراد سے محفوظ رکھے آمین۔

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1094485 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More