یمن میں امن :خزاں رسیدہ چمن میں بہار مشکل ہے

شمالی اور جنوبی کوریا آج بھی ایک دوسرے کے کٹر ّ دشمن ہیں لیکن شمالی اور جنوبی یمن نے ۱۹۷۹؁ کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ انضمام کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اتفاق سے وہ تاریخی اتحاد جس کویت میں قرار پایا تھا وہیں پھر ا یک بار محابرب یمنی گروہ مفاہمت کیلئے ۳۷ سال بعد پھر جمع ہوئے۔ اولین معاہدےکی تکمیل میں کویت کے جس وزیر خارجہ شیخ صباح الاحمد الصباح نے اہم ترین کردار ادا کیا تھاوہ آج کل سربراہ مملکت ہیں۔ اس معاہدےکے بعد علی عبداللہ صالح یمن کےصدر بنے تھے جن کو حوثیوں نے۲۰۰۴؁میں زخمی کرکےسعودی عرب بھگا دیا۔ صالح نے موجودہ حوثی رہنما عبدالمالک کے بھائی حسین کو ہلاک کردیا تھا لیکن فی الحال علی صالح حوثیوں کے ساتھ ہیں۔ موجودہ صدرعبدو الربوہ منصور ہادی کو بھی صنعاء سے بے دخل کرکے سعودی عرب فرار ہونے پر مجبور کردیا گیا تھا لیکن وہ آج کل عدن سے حکومت کررہے ہیں ۔ اس طرح گویا عملاً یمن پھر ایک بار دوحصوں میں تقسیم ہوگیا ہے جہاں دو حکومتیں ہیں جن میں سے ایک کوسعودی عرب کی سرپرستی اور دوسرے کوایران کی حمایت حاصل ہے۔
سعودی اور ایران مخالف فریقین کی ہمنوائی کے باوجود کویت میں یمن مذاکرات کے حامی تھے۔امن مذاکرات کا مقصد۱۳ ماہ سے جاری کشیدگی اور خانہ جنگی کا خاتمہتھا۔اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ان مذاکرات میں سیکریٹری جنرل کے نمائندے اسماعیل ولد الشیخ احمد نے یمن میں جاری حملوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، دونوں فریقوں سے درخواست کی تھی کہ تشدد کے خاتمے کے لئے پائیدار اورجامع سمجھوتے کے حصول میں تعاون کریں۔ویسے امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان، جان کِربی اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہیمن میں حالیہ جنگ بہت حد تک رک چکی ہے۔اس کے باوجود امریکہ سمجھتا ہے کہ یہ مذاکرات یمن کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے فوجی تنازعہ ختم کرکے پُرامن سیاسی عمل کی امید ظاہر کی تھی۔

یمن کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی، اسماعیل شیخ احمد کے مطابق یہ مذاکرات مندرجہ ذیل ۵ نکات پر مشتمل تھے :
• سلامتی کےعبوری اقدامات
• مسلح گروہوں کے انخلا،
• بھاری ہتھیاروں کو حکومت کے حوالے کرنا،
• سرکاری اداروں کی بحالی کیلئے سیاسی گفت و شنید
• قیدیوں اور زیر حراست افراد کے بارے میں ایک خصوصی کمیٹی کی تشکیل

ماضی کے تجرباتکی روشنی میں توقع کی گئی تھی کہ دونوں فریق رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موجودہ بحران کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔لیکن یہ گفتگوبھیتعطل کا شکار ہوگئی۔حوثیوں کا کہنا تھا کہ وہ مصالحت کیلئے تیار ہیں مگر چونکہ فی الحال ان کا پلہّ بھاری ہے اس لئے حکومت سازی میں ان کی بالادستی ہو۔ اس کے برعکس حکومت کا موقف ہے چونکہ حوثیوں نے بزور قوت قبضہ جمایا ہے اس لئے ان کو (نقص امن) کا خطاکار قرار دیا جائےنیز حوثیوں کو ہتھیار ڈال کر اہم شہروں کے اقتدار سے بے دخل ہوجانا چاہئے۔ مذاکرات سے قبل حوثی کہہ چکے تھے کہ وہ اپنا اسلحہ اور مقدر دشمنوں یعنی حکومت کے حوالے نہیں کریں گے ۔ حوثی چاہتے تھےعرب اتحادی فوج کےہوائی حملےفوراً بند ہوں۔ سرکار کی شرط ہے کہ جنگ بندی کے دوران مقبوضہ علاقوں کیلئے محفوظ راستوں کا تعین، قیدیوں ومحصورین کی رہائی اور اعتماد بحالی کی کوششوں کو مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہونا چاہئے۔اس طرح شکوک شبہات کے ماحول بات چیت کو ناکام ہونا تھا سو ہو گئی۔

یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب کہ مشرق وسطیٰ سے امریکہ کے تعلقات ایک نئے موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ کا سب سے قدیم اور قابلِ اعتماد حلیف سعودی عرب اس سے شاکی اور ناراض ہے نیزماضی قریب کا سب سے بڑا دشمن ایران اس سے خوش اور مطمئن ہے۔ عام طور ایران کے جن اقدامات پر امریکہ آسمان سر پر اٹھا لیا کرتا تھاان پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے مثلاً بیلسٹک میزائلوں کے تجرباتکو امریکہ نے نظر انداز کردیا ۔ سعودی عرب کے سفارت خانے کو جلائے جانے کااس نے نوٹس نہیں لیا۔ ایران کوروس سے ملنے والے ایس-۳۰۰ میزائلوں کوقابل توجہ نہیں سمجھا گیا۔ بشار اورحوثیوں کی مدد سے بھی صرف ِ نظر کیا گیا ۔ امریکی رویہ میں یہ تبدیلی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کیلئے باعث تشویش ہے۔

صدر اوبامہ نے جی سی سی ممالک کی کانفرنس میں شرکت کیلئے اس بار جب سعودی عرب کا دورہ کیاتوہوائی اڈے پر ان کا استقبال کرنے کیلئے شاہ سلمان تو کجا ان کا ولیعہد بلکہ نائب ولیعہد بھی نہیں آئے تعلقات کی سرد مہری کا شاخسانہ ہے۔ریاض شہر کے گورنر جنہوں نے مودی جی کا خیرمقدم کیا تھا وہی آئے۔ گزشتہ تین سالوں میں یہ اوبامہ کا تیسرا دورہ ہے۔ مارچ ۲۰۱۳؁ میں جب وہ سعودی عرب آئے تھے تو اس وقت شاہ عبداللہ حیات تھے اور خام تیل کا بھاوتقریباً ۱۰۰ ڈالر فی بیرل تھا ۔ اوبامہ نے سعودی عرب سےڈاکٹرمحمدمورسی حکومت کی حمایت کا مطالبہ کیا تھا ۔اس بات نے دونوں ملکوں کےتعلقات میںتلخی پیدا کردی تھی۔امریکہ نے شام میں بشارالاسد کی حکومت کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر سزا دینے سے متعلق اپنے سابقہ اعلان پر یوٹرن لےکر سعودی حکمرانوں کو مایوس کیا تھا۔ اسی زمانے میںامریکی انتظامیہ ایران کے ساتھ گفت و شنید کا آغاز کرچکی تھی۔ جنوری ۲۰۱۵ ؁ میں شاہ عبداللہ کی موت کے موقع پر جب اوبامہ نے تعزیتی دورہ کیا توسعودی عرب کے سامنے اقتدار کی نئی نسل میں منتقلی کا مسئلہ درپیش تھا ۔

اوبامہ کے حالیہ دورے تک شاہ سلمان کے تخت پر فائز ہو چکے ہیں ۔انہوں نے اپنے فرزند محمد بن سلمان کو نائب ولیعہد وزیر دفاع اور اقتصادی اور ترقیاتی امور کی کونسل کے سربراہ بنا کر قوم کی باگ ڈور اگلی نسل کو سونپ دی ہے ۔سعودی عرب میں دیگر اصلاحات کا عمل بھی جاری ہے پہلی مرتبہ خواتین کونہ صرف بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے بلکہ بطور امیدوار حصہ لینے کا حق دیا گیا ہے۔ شوریٰ کونسل خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کو ختم کرنے پر غور کررہی ہے۔حصص بازارغیرملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دی گئی نیز آرامکو تک میں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے جارہے ہیں ۔مگر سب سے زیادہ پریشانی کی بات خام تیل کی قیمت ہے جو پچھلے ۳ سالوں نصف سے کم ہوچکی ہے۔مندرجہ بالا اصلاحات کا مطالبہ امریکی انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ کرتا رہا ہے لیکن اب ان کی اہمیت ختم ہوگئی ہے ۔ دنیا کا یہی اصول ہے کہ جو نہیں مانتا اسے منایا جاتا ہے اور جو راضی ہوجائے اس سے بے نیازی برتی جاتی ہے۔
صدر اوبامہ نے حال میں برطانیہ کے اندر اعتراف کیا کہ شام میں اگر بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر فوج کشی کی جاتی تو وہ بہت بڑی غلطی ہوتی ۔اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ بشار الاسد کو ہٹانے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔داعش کا خطرہ دو سال قبل کی بہ نسبت بڑھ گیا ہےمگر اوبامہ نے اپنے دور اقتدار کے خاتمہ تک اس پر قابو پانے میں معذوری کا اظہار کردیا ہے ۔ امریکہ کو افغانستان اور عراق میں جو سبق مجاہدین نےسکھا یا ہے اس کے نتیجے میں اس نے لیبیا اور شام میں براہ راست فوج کشی سے گریز کیا۔ سعودی عرب کو احساس ہو گیا تھا کہ یمن میں حوثیوں کےخلاف امریکہ کوئی مدد نہیں کرے گا اس لئے اپنی روایت کے خلاف اس کو بتائے بغیر سعودی عرب نے اپنے حواریوں کی مدد سے جنگ چھیڑ دی اس لئے کہ صدر عبدوالربو منصور ہادی کو عدن بھیج کرعلی عبداللہ صالح اور حوثیوں نے صنعا میں اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ یمن میں یکطرفہ کارروائی کے بعد سعودی عرب نے امریکہ پر انحصار کم کرنے کی خاطر ۳۰ سے زیادہ ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد قائم کرکےاس کی فوجی مشقوں کا انعقاد کیا اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے باہمی تعاون کا عزم کیا۔ اس دوران ترکی کے ساتھ مل کر شام پر فوجی کارروائی کا منصوبہ بھی بنا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔

یمن کے معاملے عرب اتحادیوں کوچاہئے کہ اپنے دوست نما دشمن امریکہ سے سبق سیکھیں اور بلاوجہ کی فوج کشی سے گریز کریں۔ قیام امن کے معاملے میں مغرب کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ اپنے مخالف کو ڈرانے دھمکانے کی خاطر پہلے چڑھائی کرتا ہے۔ اگروہ زیر ہو جائے تو اس کا خوب استحصال کرتا ہے ۔ اس حکمراں سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن جب اپنے مقاصد میں ناکامی ہو جاتی ہے تو مصالحت کاراستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ امریکہ نے ایران کے ساتھ یہی کیا برسوں تک لڑائی کے بعد بالآخر مفاہمت کرلی لیکن یہ تباہ کن حکمت عملی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن جاتے ہیں لاکھوں بے خانماں ہوجاتے ہیں اور دشمن کے علاوہ خود اپنا خزانہ بھی خالی ہوجاتا ہے۔

اس کے برخلاف اختلاف کی صورت میںاسلام طاقت کا استعمال کرنے سے قبلصلح صفائی پر زور دیتا ہےاور ناکامی کے بعد ہی اگر ضروری ہو تو جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو اُن کے درمیان صلح کرا دیا کرو،‘‘۔ آیت کے اس حصے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان آپسی جنگ کا امکان موجود ہے ورنہ اس ہدایت کی ضرور ت ہی نہیں پڑتی لیکن یہکوئی پسندیدہ بات نہیں ہے ورنہ یہ نہ فرمایا گیا ہوتا کہ ’’اور اللہ اور اس کے رسُول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘۔ اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت سے انحراف ہی باہمی تصادم کا سبب بنتا ہے۔اس کالازمی نتیجہ’ ہوا کا اکھڑ جانا‘اظہر من الشمس ہے۔

مذکورہ آیت میں جنگ کے باوجود اللہ تعالیٰ نےدونوں متحارب گروہوں کومسلمان کہہ کر پکارا ہے ۔ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے مخالفین کو بے دریغ اسلام کے دائرے سے خارج کردیتے ہیں ۔ کافر یا کم ازکم گمراہ توقرار دے ہی دیتے ہیں ۔ مصالحتکے بعد اگر من مٹاو ہوجائے تو مسئلہ ختم ہوجاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ایک فریق سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردے۔ یہ آزمائش ایسے طاقتور گروہ کیلئے ہے جس کے خلاف فیصلہ ہوجائے ایسی صورتحال کیلئے رہنمائی آیت کے اگلے حصے میں موجود ہے فرمایا’’ پھر اگر ان میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ اﷲ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، ‘‘۔ جنگ کا یہ حکم صلح کے بعد سرکشی سے مشروط ہے۔

اس جنگ کے بعد اگر وہ گروہ جس نے اپنی طاقت کے زعم میں ظلم کا ارتکاب کردیا تھا رجوع کرلینے پر آمادہ ہوجائے تو اصلاح کرنے والے احتیاط کے نازک مرحلےمیں داخل ہوجاتےہں ۔اس لئے انہیں درگذر کرتے ہوئے زیادتی کرنے سے گریز کرنے کی تلقین کی گئی اور پھرسے موقع دینے کا حکم دیا گیا فرمانِ الٰہی ہے’’پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بیشک اﷲ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے،‘‘۔ یہاں پر یہ وعید موجود ہے کہ اس مرحلے میں انصاف کے دامن کا چھوٹ جانا اللہ کی ناراضگی کو دعوت دیتاہے۔ اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس نسخۂ کیمیا سے نوازہ کہ جس کے استعمال سےمذکورہ ہدایت پر عملدرآمد آسان ہوجائے۔آگے کی آیت ہے ’’بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو،‘‘۔ یہ آیت پیغام دے رہی ہے کہ اخوت و محبت کے بغیر صلح جوئی ناممکن ہے ۔

مصلحین کرام اگر دونوں فریقوں کو اپنا بھائی سمجھیں تو جذبۂ خیر خواہی ان سےعدل کے ساتھ صلح کرواتا رہے گا۔ ملت کا حال یہ ہے کہ وہ صلح کرانے سے قبل کسی ایک فریق کو اپنارفیق اور دوسرے کورقیب بنا بیٹھتی ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کیلئے تقویٰ ضروری ہے اس لئے آگے ارشاد ہواہے ’’ اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے، ‘‘۔اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہجو اللہ سے ڈرتا ہے وہی انصاف کرسکتا ہے جو بندوں سے ڈرتا ہو اس سے عدل کی توقع فضول ہے۔ دوسرے معنیٰ یہ ہیں کہ جو انصاف نہیں کرتا وہ لامحالہ ظلم و جبرکا ارتکاب کرتا ہے اور ایسے لوگ اللہ کے رحم و کرم سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے اگر ہم اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کا مستحق بنانا چاہتے ہیں تو عدل و انصاف کا پاس و لحاظ لازمی ہے۔

پاکستان کو جب سعودی عرب نے یمن کے تنازع میں شمولیت کی دعوت دی تھی تو اس کیلئے اپنے آپ کو اس سے الگ رکھنا بہت مشکل تھا لیکن اس کے باوجود کمال حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف نے اپنا دامن بچا لیا۔ ترکی پر دباو آیا تو اس نے عملاً جنگ میں حصہ لینےکے بجائے غیر فوجی تعاون پر اکتفاء کیا۔ اس مرحلے میں یہ احتیاط ضروری تھا اس لئے کہ امت کے سارے ممالک اگر ابتداء ہی میں کسی نہ کسی ایک فریق کے طرفدار بن جائیں تو مجبوراً ہمیں اپنےآپس کے تنازعات چکانے کیلئے غیروں کی چوکھٹ پر جاناپڑتا ہے چونکہ وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں اس لئے وہ موقع غنیمت جان کرصلح صفائی کی آڑ میں آگ میں تیل ڈال کر اس پر اپنے مفاد کی روٹیاں سینکنے لگتے ہیں۔وہ ایک ہاتھ سے اپنا اسلحہ بیچتے ہیں اور دوسرے سےہمارےآپسی اختلاف کو ہوا دے کرہم میں سے ایک ذریعہ دوسرے کو دفع کرتے ہیں۔

حالیہ مذاکرات کے دوران عرب اتحادی فوجوں نےمکلاّ کے مقام ایک زبردست ہوائی حملہ بول دیا لیکن وہ حوثیوں کے بجائے پر القائدہ کے خلافتھا۔ اس حملے میں ۸۰۰ سے زائد جنگجو ہلاک ہوئے اسی کے ساتھ بری فوج نے پیش قدمی کرکے مکلاّ کی آزادی کا اعلان کردیا۔ یہ نہایت سوچا سمجھا اقدام تھا جو حوثیوں کے خلاف نہیں تھا ورنہ مذاکرات کا سلسلہ فوراً ٹوٹ جاتا۔یہ حملہ حوثیوں کو خبردار کرنے کیلئے تھا کہ اگر وہ اپنے موقف پر اڑے رہے توانہیں بھی اس طرح کی بمباری کا شکار ہونا پڑے گا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے دباو میں صالح اور حوثی آئیں گے؟ اور اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا؟ اتفاق ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ یہ بمباری ایک سال سے چل رہی ہے ۔ اس میں ۷۰۰۰ لوگ مارے جاچکے ہیں اس کے باوجود صنعاء میں عرب اتحادی فوج داخل نہ ہوسکی۔ صدر عبدو الربوہ منصور ہادی دارالخلافہ کے بجائے عدن میں محصور ہیں اس لئے گفت و شنید و مصالحت کے بجائے دھونس دھمکی سے سوائے تباہی و بربادی کے کچھ اورہاتھ نہیں آئے گا۔ حالیہ مذاکرات کا واحد فائدہ جنگ بندی کی خاطر قائم کی جانے والی مشترکہ کمیٹی کی تشکیل ہے اگر اس نے اخلاص کے ساتھ کام کیا تب بھی امن و سلامتی کیلئے کسی نہ کسی حد تک کارگر ہوگی۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450186 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.