سردارسورن سنگھ کے ساتھ میری آخری ملاقات
اس وقت ہوئی جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ برف سے محظوظ ہونے کے لئے وادی
کلیل گیاہواتھا۔ یہ وہی وادی ہے، جوسوات اوربونیر کے درمیان سرحد کے طورپر
واقع ہے ۔جہاں اونچے اونچے پہاڑ ہیں اورچیڑ اوردیودار کے گھنے جنگلات ہیں ۔مشہورپہاڑی
سلسلہ ایلم بھی اس وادی کے ساتھ لگاہواہے۔اس وادی کے بارے میں عام طورپر یہ
خیال کیاجاتاہے کہ یہ انتہائی غیرمحفوظ ہے اورطالبان کی آماہ جگاہ کے طورپر
پہچاناجاتاہے۔ سردار سورن سنگھ اپنے بچوں سمیت اپنی گاڑی خودچلاتے ہوئے
وادی کلیل آئے اورگاڑی سے اترکراپنے بچوں کے ساتھ برف سے ڈھکے پہاڑوں میں
پیدل چلنے لگے۔نہ کوئی سکیورٹی اہلکارہمراہ تھا،نہ کوئی پروٹوکول ،نہ انکے
طرززندگی سے ایسامحسوس ہورہاتھاکہ وہ کسی سے خوفزدہ ہوسکتاہے۔حالانکہ
سردارسورن سنگھ معمولی انسان نہ تھے ۔وہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کے
مشیربرائے اقلیتی امور، عمران خان کے معاون خصوصی اورپاکستان تحریک انصاف
کے فعال اورسرگرم رکن تھے۔سردارسورن سنگھ عزم ،ہمت اورحوصلے کے ایک
پہاڑتھے۔وہ سچے اورمحبت وطن پاکستانی تھے۔انہوں نے اپنی محنت سے اپنی
صلاحیتوں کوپروان چڑھایااورخلوص دل سے عوام کی اتنی خدمت کی کہ آج
ہرپاکستانی کے دل میں وہ زندہ ہیں۔سردارسورن سنگھ بنیادی طورپر میڈیکل کے
شعبے سے وابستہ تھے لیکن بعدمیں انہوں نے بطورصحافی ایک نجی ٹی ولی چینل
میں کام شروع کیا۔کئی عرصہ تک خیبرنیوزمیں کا م کیا۔اسکے بعدانکی سیاسی
زندگی کادورشروع ہوتاہے،جس میں انہوں نے سب سے پہلے جماعت اسلامی پاکستان
میں شمولیت اختیارکی اورایک لمبے عرصے تک جماعت اسلامی سے منسلک رہیں۔جماعت
اسلامی کے بعدسردارسورن سنگھ عمران خان کی خصوصی دعوت پر پاکستان تحریک
انصاف میں شامل ہوگئے اوربہت کم عرصے میں پارٹی کے سرگرم اورفعال ترین
اراکین میں انکاشمارہونے لگا۔پاکستان تحریک انصاف کے موقف اورنظرئے کے لئے
ہرمحاذپر عمران خان کے شانہ بشانہ رہیں۔انکے چہرے پر ہمیشہ متانت
اورسنجیدگی رہتی تھی اوروہ ایک گہرے فکراورسوچ میں رہتے تھے ۔انہیں پاکستان
سے اورپاکستانی عوام سے بے پناہ محبت تھی ۔حب الوطنی اورانسان دوستی انکے
اندرکوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی ۔پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے کامیابی
کے بعدانہوں نے اپنے علاقے میں جوترقیاتی کام کئے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں
ہیں۔ جگہ جگہ انہوں نے مقدس اوراق اورقرآنی آیات والے صفحوں کے لئے بکس
لگوائے تھے، تاکہ ان مقدس اوراق کی بے حرمتی نہ ہو۔اسی طرح مسلمانوں کے لئے
انہوں نے جنازہ گاہ تک تعمیرکروائے تھے۔اس مختصردورحکومت میں انہوں نے
ترقیاتی کاموں کے بہت سے منصوبے شروع کئے تھے ۔بہت سے منصوبے پایہ تکمیل تک
پہنچے تھے اورکافی زیرتکمیل تھے۔انہوں نے قومی دولت صرف قومی مفادات کیلئے
استعمال کرنے کابیڑہ اٹھایاتھا۔بلاامتیازعوام کی خدمت پریقین رکھتے
تھے۔اگرچہ ان کاتعلق سکھ کمیونٹی سے تھا لیکن اپنے مذہب کے لوگوں کے ساتھ
ساتھ انہوں نے بلاامتیازدیگرمذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی رواداری قائم رکھی
تھی اورسب کی خدمت کی ہے۔سردارجی نے کرپشن اوربدعنوانی کے خلاف عملی
جدوجہدمیں حصہ لیااورپاکستان میں مثبت تبدیلی کے لئے پرمحاذ پر آوازبلندکی
تھی۔ بحیثیت مجموعی ملاکنڈڈویژن خصوصاً بونیر میں اقلیتوں کے ساتھ بہت
اچھارویہ رکھاجاتاہے۔یہاں اگرچہ اقلیت، جن میں سکھ اورہندوں شامل ہیں،
زیادہ تعدادمیں نہیں ہیں، لیکن جتنے یہاں موجودہیں، وہ پرامن زندگی گزارتے
ہیں۔بلکہ یہی لوگ ہماری کمیونٹی کابہت اہم حصہ ہیں۔یہ لوگ مسلمانوں کے غم
خوشی میں برابرشریک ہوتے ہیں اورانکے ساتھ بھی مسلمان ایساہی سلوک کرتے ہیں۔
ان لوگوں کے تمام مراسم اورطرززندگی یہاں کے مقامی مسلمانوں کی طرح ہے۔اس
علاقے کے مسلمانوں کی طرح انکی خواتین پردے کی سخت پابند ی کرتی ہیں۔یہی
وجہ ہے کہ آج تک اس پورے علاقے میں کسی غیرمذہب کے ساتھ کوئی ایساواقعہ پیش
نہیں آیاہے،جس کی وجہ سے انہوں نے خودکو غیرمحفوظ تصورکیاہو۔یہاں تک کہ
2007کے بعدملاکنڈڈویژن میں بالعموم اورسوات میں بالخصوص اورپھراسکے بعد
2009کے بعدوادی بونیرمیں طالبان آئے اوراس پورے علاقے کو اپنے زیرتسلط
رکھا۔تاہم اس پورے دورمیں کسی غیرمسلم کے ساتھ کوئی غیرمنصفانہ سلوک نہیں
کیاگیاہے بلکہ اس پرآشوب دورمیں بھی بونیر اورسوات میں تمام غیرمسلم خوب
امن اورخوشحالی کے ساتھ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں سردارسورن سنگھ جیسی شخصیت
کااس بے دردی سے قتل پورے پختون کمیونٹی خصوصاً بونیرکے مسلمانوں کے لئے
ایک سوالیہ نشان تھا۔ اس ضمن میں بونیرپولیس کی کارکردگی قابل ستائش ہے،
جنہوں نے مختصروقت میں اس واقعے میں ملوث تمام ملزمان کوگرفتارکرکے تفتیش
شروع کردی اورواقعے کے اصل حقائق کومنظرعام پرلانے میں اہم
کرداراداکیا۔سردارسورن سنگھ کے قتل پر ہرآنکھ اشکبارتھی ۔ہماراالمیہ یہ ہے
کہ پاکستان میں مخلص، نیک ، دیانت دار،سچے اورمحب وطن لوگوں کے لئے کوئی
جگہ نہیں ہے اورجولوگ اپنی محنت اورقابلیت کے بل بوتے پر اپنامقام پیداکرتے
ہیں ، وہ متعصب لوگوں کے تعصب کا شکاررہتے ہیں اورانکے خلاف طرح طرح کی
سازشیں کی جاتی ہیں۔سردارسورن سنگھ بھی اس قسم کے حالات کانشانہ بنے۔ہم سب
سردارجی کے اہل خانہ کے ساتھ اس غم میں برابر شریک ہیں اور اس واقعے کو
پورے پاکستان خصوصاً اہل بونیرکے لئے ایک بہت بڑاسانحہ تصورکرتے ہیں۔اس ضمن
میں حکومت کو سختی سے نوٹس لیناچاہئے کہ کیوں اپنے ہی ملک میں اپنے ملک سے
پیارکرنے والے اوراپنے ملک کانام روشن کرنے والے غیرمحفوظ ہیں۔مجرم کس
قدرآسانی کے ساتھ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوتے ہیں اورمعصوم اوربے
گناہ لوگ دوسروں کے تعصب کانشانہ بنتے ہیں۔سردارسون سنگھ اس دھرتی
کابیٹاتھا، عوام کاسچا، مخلص اوروفادارلیڈرتھا۔میں انکے جذبے، بہادری ،حب
الوطنی اورعظمت کو سلام پیش کرتاہوں۔ |