مفتیِ اعظمِ ہند کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ

ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی کے تحقیقی مقالے مفتیِ اعظمِ ہند کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ پر محترمہ ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ (پی ایچ ڈی گائیڈ وصدر رفیق زکریا وومن کالج ، اورنگ آباد، مہاراشٹر) کے گراں قدر تاثرات

سرورق

از: محترمہ ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ
(پی ایچ ڈی گائیڈ وصدر رفیق زکریا وومن کالج ، اورنگ آباد، مہاراشٹر)
اسلامی تاریخ کا مطالعہ باور کراتا ہے کہ نبیوں کے ورود کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ختم ہوا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نبیوں میں آخرالانبیاء کے لقب سے نوازاگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبوبیت کا یہ عالم ہوا کہ جب آدمِ خاکی اپنی کسی بھی مبارک محفل کا آغاز کرتا ہے تو حمد و نعت ہی حرفِ اوّل ہوتا ہے ۔ بس یوں جانیے کہ جب بات ایمانیت ، احترامیت، جذباتیت ، عقیدت اور عظمت و عبادت کی ہوتو بے اختیار سرشاریِ محویت میں بندہ یوں لب کشا ہوتا ہے کہ ؎
ہے کیسی شان کہ خلقِ خدا عبادت میں
خدا کے بعد محمد کا نام لیتی ہے

دراصل شاعری کا راست تعلق انسانی جذبات و احساسات سے ہے اور جب بات نعتِ مقدسہ کی ہوتو انسان طہارتِ ایمان اور زانوے ادب کے ساتھ اس موضوع کی پاکیزہ اور مطہرہ کیفیت میں اپنے آپ کو ضم کرنا اپنی سعادت تصور کرتا ہے ۔ کیوں کہ اصنافِ شاعری میں نعت گوئی کا منصب بہت بلند و بالا ہے۔ یہ شعری فکر کسی معمولی شخصیت کی مدح و ثنا نہیں بلکہ اس اعلیٰ و ارفع ذاتِ اقدس ، سرورِ کائنات ، صاحبِ قاب قوسین ، شفیع المذنبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی انگنت صفاتِ عالیہ کی تحسین ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ثنا شعر کے ذریعے کرنا ایسی سعادت ہے جس کا صلہ اللہ جل شانہٗ کے پاس ہے اور جس نبی کی قرآنِ پاک میں تعریف و توصیف بیان ہوئی ہو تو اس کے مدارج و مراتب کا کیا کہنا ۔ لہٰذاایسے موضوع پر قلم فرسائی کرنا ، اس راہ کے سنگِ گراں کو چومنا ، نیز اپنی تحقیق کے ساتھ انصاف کرنا ، کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ چناں چہ نہایت مقامِ مسرت ہے کہ عزیز محمد حسین مُشاہدؔ رضوی نے ایسے ہی محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام پر جان و دل قربان کرنے ، اُن صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اوصافِ حمیدہ کا وظیفہ پڑھنے والے ، عالمِ اسلام کے مشہور مذہبی رہنما حضرت علامہ مصطفی رضا نوری ؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری پر اپنا تحقیقی و تحسینی مقالہ سپردِ قلم کرکے اپنے شوقِ بے پایاں کے امتحان میں کامیابی و کامرانی حاصل کی ہے۔

آٹھ ابواب پر مشتمل یہ مقالہ تقسیم و تنظیم، تہذیب و تسدید، تحقیق و تعلیم اور ندرتِ فکر و اساس سے مزین اپنے محقق کے پختہ شعور ، عمیق مطالعہ اور بالیدہ ذہن کا بیّن ثبوت پیش کرتاہے۔ دراصل جس کے شب و روز محبوبِ الٰہی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یاد اور فکر و نظر صحیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ورق گردانی میں مصروف ہوں، اور جس نے اپنے بزرگوں کی بزمِ طریقت اور روحانی ماحول سے علمی شمع روشن کی ہوں تو وہاں جذبۂ شوق ،جنون ، جنون عشق اور عشق کادیوانگی کی کیفیت میں تبدیل ہوجانا کوئی تعجب خیز بات نہیں۔ عزیزی محمد حسین مُشاہدؔ رضوی کی کوششِ پیہم ، جد وجہد ، کام کی رفتار اور جو ش و جذبوں کی تمازت و حرارت کو دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوتی تھی اور ہمیشہ اقبالؔ کا یہ شعر یاد آتا تھا ؎
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی

عزیزی محمد حسین مُشاہدؔرضوی مہاراشٹر کے اُس شہر سے تعلق رکتے ہیں جو پاورلوم کا شہر کہلاتا ہے لیکن محبانِ اُردو کے اس شہر کی ایک پاور وہ بھی ہے جسے میں علم و ادب کی پاور سے موسوم کرتی ہوں۔ یہاں کی خاکِ اکسیر نے بے شمار ناقد و محقق، مدرس و مدبر، نثّار و شاعر پیدا کیے ہیں۔ جو شہرت و ناموری سے بے نیاز صرف خدمتِ علم و ادب ہی کو سامانِ تسکین تصور کرتے ہیں۔ انھیں قابلِ افتخار حضرات میں آج اپنے شاگرد محمد حسین مُشاہدؔ رضوی کے نام کا اضافہ کرتے ہوئے مجھے از حد خوشی حاصل ہورہی ہے کہ جس نے ستایش و صلے کی تمنا سے بالا تر ہوکر بجز جذبۂ عقیدت و محبت سے سرشار حضرت مفتیِ اعظمِ ہند کی نعتیہ شاعری کے فنّی محاسن کو بروے کار لانے میں اوّلیت حاصل کی نیز اپنی علمیت ، ادبیت اور محبوبیت کا ثبوت بڑی دیانت داری کے ساتھ پیش کیاہے ، اس کی اصل وجہ یوں بھی ہے کہ موصوف ایک بہترین معلم ہونے کے علاوہ بسیار نگار کی حیثیت سے اردو شعرو ادب کے خدمت گار بھی ہیں۔ ان کا نعتیہ ، نظمیہ اور غزلیہ کلام ہندو پاک کے موقر اردو اخبارات و رسائل میں شائع ہوتا رہتا ہے ۔ نیز فکر و احساس کے تاروں کومرتعش کرنے والے مضامین کے ساتھ وہ وادیِ ادبِ اطفال میںبھی موثر کہانیاں سپردِ قلم کررہے ہیں ۔ اپنی علمی و ادبی کارکردگی کے عوض کئی مثالی اعزازات بھی حاصل کرچکے ہیں ۔ یہ ان کی محنت ہی کا ثمرہ ہے کہ آج ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے ان کے تحقیقی مقالہ کو صرف سراہا ہی نہیں گیا بلکہ پاکستان لاہور کا اسلامی پبلی کیشن ، والضحیٰ اُسے کتابی صورت میں شائع کرنے میں اولیت حاصل کرچکا ہے۔ اور اب ہندوستان میں پہلی بار اسے رضا اکیڈمی ، ممبئی بھی زیورِ طبع سے آراستہ کرنے کی سعادت حاصل کررہی ہے۔میں مقالہ نگار اور پبلشر دونوں کی خدمت میں ہدیۂ سپاس پیش کرتی ہوں۔

بہرحال! یہ مقالہ صالح اندازِ تحقیق ، حقیقی اساس اور فکری بصیرت کا وہ عطیہ ہے جس میں مصنف نے محض مطبوعہ کتابوں کے حوالوں کے مآخذ تک اپنی بات کو محدود نہیں رکھا بلکہ انگنت معتبر حوالوںسے استفادہ کرنے کے بعد اُن نکات کو تلاش کیا ہے جن کی بدولت حضرت نوریؔ بریلوی کی نعتیہ اعری اپنے معاصرین سے منفرد لب و لہجے اور اسلوب کی ندرت کے ساتھ فضاے بسیط میں خوشبو بکھیرتے ہوئے عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اذہان کو معطر کرہی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ ادبی و مذہبی حلقوں میں یہ کارنامہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔اور مستقبل میں اس سے استفادہ کی راہیں روشن ہوں گی ، ان شآء اللہ تعالیٰ
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646667 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More