ممتاز شاعرہ صفیہ انور صفی کا پہلا شعری مجموعہِ کلام "مجھے
تتلیوں سے پیار ہے"میرے ہاتھوں میں ہے۔ الفاظ کے خوش رنگ لباس میں ہر سو
ہجرو فراق کا رقص کرتی ہوئی تتلیاں اپنے تمام تر توانا ادبی رنگوں کے ساتھ
ادب شناس قاری کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔ صفیہ انور
صفی کی شاعری میں یہ کمال ہے کہ وہ بہت سادہ پیرائیوں میں اپنے دلی احساسات
و محسوسات کی بھرپور عکاسی کے فن سے بخوبی آگاہ ہیں۔ عام فہم سادہ الفاظ
میں وہ اپنے اشعار کو تتلیوں کے خوشنما رنگوں کی طرح ہر سو بکھیرتی نظر آتی
ہیں ۔ اپنوں کی بے وفائی اورہجرو فراق کی تپش کے آتشدان میں جھلسے ہوئے جسم
کی چیخ و پکار کو بڑی مہارت سے درد بھرے الفاظ کا روپ دے کرپڑھنے والوں کو
اک درد و کرب کی حقیقی کیفیت سے شناس کرکے دُکھی دلوں کی ترجمانی کرتے ہوئے
"لذتِ دَرد"کے احساس کو اپنے قاری پر یوں طاری کرتی ہیں جیسے پڑھنے والا
اپنا نوحہ پڑھ رہا ہو! جابجا قدرت کے فیصلوں کے آگے وہ سرتسلیم خم کرتے
ہوئے مقسوم کے لکھے پر صبرو شاکر ہو کر حقیقت پسندی سے کام لیتی ہیں ۔ جیسے
ان کا یہ شعر
ہجرو فراق کے ظلمت کدے میں لوگو!
تاریکیاں نصیب سے پوچھا نہیں کرتیں
اس درد میں بہتے ہوئے کہیں کہیں وہ اپنی آنکھوں سے بہنے والے اشکوں پر برہم
نظر آتی ہیں۔
چلے جانا جُد ا ہو کر یہی دستور ہے لیکن
کبھی آنکھیں جو روتی ہیں تو یہ اچھا نہیں کرتی
صفیہ انور صفی کہیں بھی دلبراشتہ ہو کر وفا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی ۔
ان کا یہ شعر اس کی غمازی کرتا ہے
بکھیر کر خواب ساری زندگی کے چل دئیے یونہی
رسم وفا نبھانا پھر بھی ہم نے سیکھا ہے
محبت میں اپنی ناکامیوں سے وہ زندگی کی اک نئی اُمنگ لے کر اُٹھتی ہیں اور
حوصلہ مندی کا لازوال سبق رقم کرتی ہیں۔
چُرا کر میرے شب و روز ستا گیا کوئی
راہِ زندگی پھر مجھے دکھا گیا کوئی
کبھی کبھی وہ خود کلامی کی کیفیت سے دوچار ہو کر اپنے دل کو کچھ یوں تسلی
دیتے ہوئے یہ شعر کہتی ہیں
تتلیوں کو دیکھ کر موسم بہار میں
یاد اس کو بھی میری آتی ہو گی
صفیہ انور صفی نے چھوٹی بحر میں جس خوبصورتی سے الفاظ کو بامعنی رنگ دے کر
ادبی فن پارے تخلیق کیے ہیں ان میں ان کی یہ غزل قابل توجہ ہے۔
چاہتی ہوں میں ہیر بنوں
وارث کی تحر یر بنوں
پیار امر کی مالا جپ
میں جوگی فقیر بنوں
تجھ کو ایسے پاؤں میں
میں تیری جاگیر بنوں
مجھ کو جب بھی چاہے تو
میں ہمدم، دلگیر بنوں
تجھ کو ایسا پیار کروں
میں تیری توقیر بنوں
اپنے تخلیقی سفر کو صفیہ انور صفی نے اِک خیالی یا حقیقی محبوب کے گرد
مرکوز کر رکھا ہے جس کا برملا اظہار ان کی شاعری میں جابجا ملتا ہے۔
شعر لکھوں غزل تمام لکھوں
جو بھی لکھوں وہ تیرے نام لکھوں
اُردو ادب سے دِلی لگاؤ صفیہ انور صفی کا حقیقی اثاثہ ہے وہ اپنے اندر کی
شاعرہ کو سامنے لے آئی ہیں اگر ان کی لگن اور کوشش اس طرح جاری و ساری رہی
تو اک نہ اک دن ان کی محنت ضرور رنگ لائے گی۔ میری دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان
کے کلام میں مزید نکھار پیدا کرے۔ مصروفیت کے اس دور میں اہل ادب اور شعبہ
صحافت سے وابستہ افراد کے ساتھ ان کے بے لوث روابط قابل تحسین ہیں ۔ سوشل
میڈیا پر ان کی شاعری کے چرچے تو تھے ہی لیکن ان کی کتاب پڑھنے کے بعد
احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک فطری شاعرہ ہیں۔ جو خود رو کائی کی طرح آپ ہی آپ
من کا احاطہ کر لیتی ہے۔ اور ایک وقت آئے گا کہ صفیہ انور صفی اپنے گرد
قارئین کا ایک وسیع حلقہ بنانے میں ضرور کامیاب ہونگی۔
میری اُداس شاموں کی حالت وہی ہے اب تو
کوئی اُداس لمحوں میں مجھے صدا تو دے
بے شک شعر و ادب کا ذوق رکھنے والوں کے لیے "مجھے تتلیوں سے پیار ہے"ایک
انمول تحفہ ہے۔ |