- بالکل جیسے مادے کو مالیکیول اور ایٹم
وغیرہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ویسے ہی اردو زبان میں مستعمل ہر لفظ کو
ہم "طویل" دورانیے کی آوازوں اور "مختصر" دورانیے کی آوازوں میں "بریک"
کرسکتے ہیں۔
- شاعری میں "وزن" کی ساری کہانی اِنہی طویل اور مختصر آوازوں یا "ہجوں" سے
شروع ہوتی ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ دو مصرعوں کا آپس میں وزن جانچنے کے
لئے الفاظ کی گنتی کافی نہیں (کہ کچھ الفاظ بہت بڑے ہوتے ہیں اور کچھ بہت
چھوٹے)۔ درحقیقت وزن کی دو شرائط ہیں اور دونوں کا تعلق الفاظ کی بجائے
"ہجوں" سے ہے۔
1۔ تعداد: ایک مصرعے میں طویل ہجوں اور مختصر ہجوں کی اپنی اپنی تعداد
بالکل اتنی ہی ہو جتنی دوسرے مصرعے میں ہیں۔
2۔ ترتیب: ایک مصرعے میں طویل اور مختصر ہجوں کی "ترتیب" ویسی ہی ہو جیسی
دوسرے مصرعے میں ہے۔
- وزن جانچنے کا معاملہ آسان ہو جاتا ہے اگر طویل ہجوں کو ہم طویل اور
مختصر ہجوں کو مختصر ہی پڑھیں۔ سو اِسی پر پہلے توجہ دیتے ہیں چند مثالوں
کے ساتھ۔
لفظ : آزمائش
اِس کو یوں بریک کریں گے: آ-ز-ما-ئِش
اِن میں آ ما اور ئِش طویل دورانیے کے ہجے ہیں اور "ز" مختصر دورانیے کا۔
طویل کو ہم "دو" لکھیں گے اور مختصر کو "ایک"۔ اِس لحاظ سے آزمائش کا
فارمولا ہوا: دو-ایک-دو-دو۔ اب اگر آپ نے "آزمائش" سے "ہم وزن" لفظ یا
الفاظ ڈھونڈنے ہیں تو اُنہیں بالکل اسی ترتیب اور تعداد کو فالو کرنا ہو
گا۔ جیسے
لفظ: بے قراری
بے-ق-را-ری : دو-ایک-دو-دو
اِس میں طویل ہجے تین ہیں، مختصر ہجا ایک ہے (بالکل "آزمائش" کی تعداد کی
طرح) اور ساتھ ترتیب بھی بالکل وہی ہے (دو-ایک-دو-دو، نا کہ "دو-دو-ایک-دو"
یا "دو-دو-دو-ایک" وغیرہ)۔
- اب اسی بات کو مکمل مصرعوں پر لگاتے جائیں تو اُن کا آپس میں وزن جانچ
سکتے ہیں (میں اِس بات کا قائل ہوں کہ صرف پڑھنے سے ہی اندازہ ہو جانا
چاہیے اور اِس پورے حساب کتاب کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے، بہرحال سمجھنے کی
غرض سے دیکھا جا سکتا ہے)۔
- مصرعوں کی مثال سے پہلے کچھ اور الفاظ دیکھتے ہیں
لفظ: محبّت
مُ-حَب-بَت : ایک-دو-دو
لفظ: تمنّا
ت-مَن-نا : ایک-دو-دو
لفظ: خلیلی
خ-لی-لی : ایک-دو-دو
لفظ: کلیمی
ک-لی-می: ایک-دو-دو
لفظ: امتحاں
اِم-ت-حاں : دو-ایک-دو
- اب اِن الفاظ کی مدد سے بنے چار مختصر مصرعے دیکھتے ہیں
محبت بے قراری
تمنا بے قراری
خلیلی امتحاں ہے
کلیمی آزمائش
اوپر جو ہم نے الفاظ کے بریک ڈاؤن ("تقطیع") دیکھے اُس کی روشنی میں اِن
مصرعوں کو یوں بریک کیا جا سکتا ہے
ایک-دو-دو-دو-ایک-دو-دو
ایک-دو-دو-دو-ایک-دو-دو
ایک-دو-دو-دو-ایک-دو-دو
ایک-دو-دو-دو-ایک-دو-دو
نوٹ کریں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی بہت خاص ترتیب سے ڈھولک پر تالی مار
رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ آواز ڈھولک کی بجائے انسان کے منہ (اور ناک) سے ادا
ہونی ہے (خاص ترتیب سے اور خاص دورانیوں کے لئے)۔
یہی "وزن" ہے۔
تحریر: ابنِ مُنیب
نوٹ 1: بحر بھی اسی ہجوں کی ترتیب کو کہتے ہیں۔ کسی مصرعے کی بحر اُس سے
بننے والی ہجوں کی ترتیب ہو گی۔ پھر بحور کو "ایک-دو-دو" وغیرہ کے طور پر
بتانے کی بجائے اساتذہ نے دیگر اصطلاحات اختیار کی ہیں، جیسے"مفَاعِیلَن
فعُولَن" وغیرہ۔ مثلاََ غور کریں تو یہ بنتا ہے "م-فا-عی-لن۔ف-عو-لن" یعنی
"ایک-دو-دو-دو-ایک-دو-دو"، یعنی وہی "بحر" جو مثال میں دئے مصرعوں کی ہے۔
نوٹ 2: الفاظ کا درست تلفظ شرط ہے درست اوزان تک پہنچنے کے لئے۔ اور یہ
محنت اور شوق کا کام ہے۔
نوٹ 3: درست تلفظ جاننے سے کافی حد تک کام ہو جاتا ہے۔ مگر یہ مکمل طور پر
مسئلہ حل نہیں کرتا۔ ایک زائد علم جس کی ضرورت پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ "شعری
ضرورت" کے تحت کن کن الفاظ کے ایک سے زائد "درست" تلفظ رائج ہیں۔ مثلاََ
لفظ "کی" کو طویل بھی پڑھا جا سکتا ہے اور شعر کی ضرورت کے لحاظ سے بہت
مختصر بھی۔ |