نثری نعت

نثری نعت کے حوالے سے ایک مفید اور معلومات افزا تحریر

 ہر وہ ادب پارہ جس میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف بیان کی جائے یا جس کے سننے اورپڑھنے سے قاری یا سامع بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو وہ نعت ہے ،خواہ وہ نظم ہو یا نثر۔
اگر دیکھا جائے تونعت گوئی کا آغاز میثاق النبین ہی سے ہوگیا تھا اور اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاے کرام کی امتوں کے نیک طینت اور پاک باز افراد کو اس بات کا علم تھا کہ لوحِ محفوظ پر جن کا نام لکھا گیا ہے وہ ہی سب سے محترم و بزرگ ہستی ہیں ۔ اس لحاظ سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اطہر و اقدس میں مدحت و تہنیت کا نذرانہ پیش کرنے کو وہ باعثِ سعادت سمجھتے تھے۔آسمانی کتب و صحائف میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و بعثتِ طیبہ کے اذکار بڑی شان کے ساتھ موجود ہیں ۔یہی نہیں بل کہ انبیاے سابقہ نے اپنی امتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد آمد کی بشارتیں بھی سنائی ہیں ۔
حضرت آدم و حضرت شیث و حضرت یعقوب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے علاوہ حضرت عیسیٰ ، حضرت اشعیاہ، حضرت دانیال ، حضرت ابراہیم و اسماعیل ، حضرت ارمیاہ،اور حضرت ہبقوق علیہم السلام نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد آمد کی عظیم خوش خبریاں سنائیں ۔ یہ بشارتیں ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل ، ایک سے ڈھائی ہزار برس کے درمیان سنائی گئیں۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظارتمام انبیاے کرام کی امتوں اور نیک بندوں کو تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے بعد شاہِ حبش نجاشی،عبداللہ بن سلام، کعب احبار، سلمان فارسی (رضی اللہ عنہم)کہ علماے یہود و نصاریٰ میں تھے ۔ان حضرات نے توریت ، انجیل اور انبیاے کرام کی بشارتوں اور پیش گوئیوں کی تصدیق کی اور مشرف بہ اسلام ہوئے او ر ان میں شاہِ حبش نجاشی کے علاوہ جملہ حضرات کوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبتِ بابرکت نصیب ہوئی جس پر جملہ موجوداتِ عالم کو رشک ہے ۔
آسمانی کتب توریت ، زبور ، انجیل اور دیگر آسمانی صحائف میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا تذکرۂ خیر موجود ہے ان تذکروں کو ہم نثری تہنیت نامے قرار دے سکتے ہیں۔ ولادتِ باسعادت سے قبل اور بعد حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف اسی طرح جاری رہی اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلانِ نبوت کا حکم دیا اور وحی کے ذ ریعہ آپ پر قرآنِ کریم نازل کیا تو ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ہی اللہ ر ب العزت کی عظمت اور وحدانیت کا آئینہ دار ہے اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ستایش کا مظہر بھی ۔خالق کائنا ت نے اس مقدس کتاب میں جگہ جگہ اپنی حمد وثنا بھی فرمائی ہے اور اپنے حبیب ِ پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت و صفات بھی بیان کی ہیں ۔جو کہ نثری نعت کے بہترین نمونے ہیں ؛ چند آیاتِ طیبات خاطر نشین ہوں :
وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّاکاَ فَّۃً لِّلنَاس(اے محبوب ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے۔سورہ سبا آیت 28)اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیم(بے شک تمہاری خوٗ بوٗ بڑی شان کی ہے۔سورہ قلم آیت4) مَا کَانَ مُحَمَّدُ‘ اَبَا اَحَدٍمِّنْ رِّجَالِکُم وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّین(محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں! اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔سورہ احزاب آیت 40)اِنَّا اعطینٰک الکوثر (اے محبوب بیشک ہم نے تمھیں بیشمار خوبیاں عطا فرمائیں۔سورہ کوثر آیت 1)لاتَر فَعُوا اَصواتَکُم فَوقَ صوتِ النَّبی(اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ سورہ حجرات آیت 2)قد جآء کُم مِنَ اللّٰہِ نورُ‘ وَّکِتابُ‘ مُّبین(بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔سورہ مائدہ آیت 15) یَا اَیُّھَا النَّبِیُ اِنَّا اَرْسَلنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیرًا(بیشک ہم نے تمھیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا۔سورہ فتح آیت8) وَرَفَعَنَا لَکَ ذِکْرَک(اور ہم نے تمھارے لیے تمھار ا ذکر بلند کردیا۔سورہ انشراح آیت4 )وَلَو اَنَّہُم اِذ ظَلَمُوا اَنفُسَہُم جَآئُ وْکَ فَاسْتَغفِرُاللّٰہَ وَاسْتَغفَرَ لَھُمُ الرَّسُولُ لَوَ جَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا (اور وہ جب اپنی جانوں پر ظلم کریں،تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوںاور پھر اللہ سے معافی چاہیںاور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والامہربان پائیں۔سورہ نسآء آیت 64) وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَی اِن ہُوَ اِلَّا وَحْیُ‘ یُّوحیٰ(اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انھیں کی جاتی ہے۔ سورہ نجم آیت3/4)وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃَ لَّلعالَمِین(اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا،مگر رحمت سارے جہان کے لیے ۔سورہ انبیاء آیت107)(تراجم از: کنزالایمان)
یہاں نثری نعت کے نمونے کے طور پر چند آیا ت ہی نقل کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے مگر حق تو یہ ہے کہ اللہ تبار ک و تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بے شمار مقامات پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِخیر کیا ہے اور ان پر خود درود و سلام بھی بھیجا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایک بالکل ہی منفرد انداز میں اپنے محبوب کی تعریف یوں بھی کی ہے کہ لَا تَجْعَلُوا دُعَآ ئَ الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعَا ٓئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا (رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔سورہ نورآیت63)… ……ایسی اعلیٰ شان اور بلند وارفع مرتبہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے محبو ب کو بخشا۔ یہ بات قرآن شریف سے اس طرح ثابت ہے کہ خالقِ کائنات نے ’’یاآدم،یا موسیٰ اور یا عیسیٰ ‘‘کے انداز میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب نہیں کیا بل کہ انھیں بڑے احترا م سے ’’یا ایھا الرسول ،یا ایھا النبی ، یا ایھا المزمل ،یاایھا المدثر‘‘وغیرہ کہہ کر پکارا ہے۔ اور بلا شبہہ انھیں ایسی شان اور وجاہت عطا کی ہے جو کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آئی ۔یہاں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ قرآنِ کریم سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بھی ہے اور کامل و اکمل ترین اوّلین درس گاہِ نعت بھی ۔
واضح ہو کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے بعد اور بچپن سے عالمِ شباب تک آپ کو جتنے لوگوں نے بھی دیکھا آپ کی تعریف و توصیف بیان کی ۔ان کلمات کوبھی نثری نعت کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔اس ضمن میں حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی پیکر سے متعلق عرب کی بدّو خاتون اُمِّ معبد کے اس بیان کو بہ طورِ مثال پیش کرنا غیر مناسب نہ ہوگا جو اس نے اپنے خاوندکو دیا :
’’ام معبدکہنے لگی۔ میں نے ایک ایسا مرد دیکھا جس کا حُسن نمایاں تھا، جس کی ساخت بڑی خوب صورت اور چہرہ ملیح تھا۔ نہ رنگت کی زیادہ سفیدی اس کو معیوب بنا رہی تھی اور نہ گردن اور سرکا پتلا ہونا اس میں نقص پیدا کررہا تھا۔ بڑا حسین، بہت خوب روٗ۔ آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں، پلکیں لانبی تھیں۔ اس کی آواز گونج دار تھی۔ سیاہ چشم ۔ سرمگین۔ دونوں ابروٗ باریک اور ملے ہوئے۔ گردن چمک دار تھی۔ ریشِ مبارک گھنی تھی۔ جب وہ خاموش ہوتے تو پُر وقار ہوتے۔ جب گفتگو فرماتے تو چہرہ پُر نور اور بارونق ہوتا۔ شیریں گفتار۔ گفتگو واضح ہوتی نہ بے فائدہ ہوتی نہ بے ہودہ۔ گفتگو گویا موتیوں کی لڑی ہے جس سے موتی جھڑ رہے ہوتے۔ دور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ با رعب اور جمیل نظر آتے ۔ اور قریب سے سب سے زیادہ شیریں اور حسین دکھائی دیتے۔ قد درمیانہ تھا ۔ نہ اتنا طویل کہ آنکھوںکو بُرا لگے۔ نہ اتنا پست کہ آنکھیں حقیر سمجھنے لگیں ۔ آپ دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ کی مانند تھے جو سب سے سر سبز و شاداب اور قد آور ہو۔ ان کے ایسے ساتھی تھے جو ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ اگر آپ انہیں کچھ کہتے تو فوراً تعمیل کرتے۔ اگر آپ انہیں حکم دیتے فوراً بجا لاتے۔ سب کے مخدوم۔ سب کے محترم ۔‘‘ (1)
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خداد ادحسن و جما ل کے بارے میں دو چار یا دس بیس کی یہ راے نہ تھی بل کہ ہر وہ شخص جس کو قدرت نے ذوقِ سلیم کی نعمت سے نوازا ہوتا، وہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کراسی طرح مسحور ہوجایا کرتا اور ہر ایک کی زبان سے بے ساختہ آپ کے حسن و جمال کی تعریف نکلنے لگتی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجو دیکھتا سو جان سے قربان ہونے لگتا دوست، دشمن ، اپنے اور بے گانے میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا ۔
اسی طرح حضرت جعفر طیّار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ بے مثل وبے نظیر خطبہ جو آپ نے نجاشی بادشاہ کے دربا ر میں پیش فرمایا تھا وہ بھی نثری نعت کا اعلا نمونہ اور عمدہ شاہ کارتصور کیا جاتا ہے ؛ ذیل میں اردو ترجمہ نشانِ خاطر فرمائیں :
’’اے بادشاہ! ہم جاہل قوم تھے، بتوں کی پوجا کیا کرتے۔ مردار کھایا کرتے اور بدکاریاں کیا کرتے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اپنے پڑوسیو ں کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کرتے ہم میں سے طاقت ور ، غریب کو کھا جایا کرتا ۔ ہمارا یہ نا گفتہ بہ حال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ہم میں سے ایسا رسول بھیجا جس کے نسب کو بھی ہم جانتے ہیں جس کی صداقت ، امانت اور عفت سے بھی ہم اچھی طرح آگاہ ہیں اس نے ہمیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ کہ ہم اس کووحدہٗ لاشریک مانیں ۔ اور اسی کی عبادت کریں اور وہ پتھر اور بت جن کی پوجا ہم اور ہمارے آبا و اجداد کیا کرتے تھے ان کی بندگی کا پٹہ اپنی گردن سے اتار پھینکیں ۔ اس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سچ بولیں ۔ امانت میں خیانت نہ کریں ۔ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ہم سائیوں کے ساتھ عمدگی سے پیش آئیں ۔ برے کاموں سے اور خوں ریزیوں سے باز رہیں ۔ اس نے ہمیں فسق و فجور ، جھوٹ بولنے ، یتیموں کا مال کھا نے ، پاک دامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگانے سے منع کیا اور ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں ۔ نیز اس نے ہمیں یہ حکم دیا کہ ہم نماز پڑھیں زکوٰۃدیں اور روزے رکھیں ۔ ‘‘(2)
نثری نعت کے ذیل میں بخاری شریف ، مسلم شریف، ابن ماجہ ،نسائی شریف ،مشکوٰۃ شریف اور ترمذی شریف کے ابوابِ فضائل نیز مختلف اقسام کے درود شریف وغیرہ شمار کیے جاتے ہیں ۔ اردو زبان میںامام العلما ء مولانا نقی علی خا ں بریلوی ( والدِ ماجد امام احمد رضا بریلوی) کی ’’تفسیر سورۂ الم نشرح‘‘ اور ’’سرور القلوب‘‘ کی بعض عبارتیں تو نثر میں نعت نگاری کی ایسی اَعلیٰ ترین مثالیں ہیں کہ پڑھتے ہوئے کیف آگیں جذبات سے روح وجد کر اُٹھتی ہے۔ ’’تفسیرِ سورۂ الم نشرح‘‘ کی ایک خاصی طویل ، عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صفاتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پُر لطف بیان سے معمور عبارت خاطر نشین فرمائیں، جو نثری نعت کے ایک عمدہ شاہ کار سے کم نہیں ، اس کا ایک ایک فقرہ اپنی جگہ خود ایک مکمل اور بہترین نعت ہے :
’’سرورِ بنی آدم… روحِ روانِ عالم… انسان عین وجود… دلیلِ کعبۂ مقصود… کاشفِ سرِّ مکنون… خازنِ علمِ مخزون… اقامتِ حدود و احکام … تعدیلِ ارکانِ اسلام … امامِ جماعتِ انبیا… مقتداے زمرۂ اتقیا… قاضیِ مسندِ حکومت… مفتیِ دین و ملت… قبلۂ اصحابِ صدق و صفا… کعبۂ اربابِ حلم و حیا… وارثِ علومِ اولین… مورثِ کمالاتِ آخرین… مدلولِ حروفِ مقطعات… منشاے فضائل وکمالات… منزلِ نصوصِ قطعیہ … صاحبِ آیتِ بینہ… حجت حق الیقین… تفسیرِ قرآنِ مبین… تصحیح علومِ متقدمین … سندِ انبیا و مرسلین… عزیزِ مصر احسان… فخرِ یوسفِ کنعان… مظہرِ حالاتِ مضمرہ… مخبرِ اخبارِ ماضیہ… واقفِ امورِ مستقبلہ… عالمِ احوالِ کائنہ … حافظِ حدودِ شریعت… ماحیِ کفر وبدعت … قائدِ فوجِ اسلام … دافعِ جیوشِ اصنام … نگینِ خاتمِ سروری … خاتمِ نگینِ پیغمبری… فاتح مغلقاتِ حقیقت… سرِّ اسرارِ طریقت… یوسفِ کنعان جمال… سلیمانِ ایوانِ جلال… منادیِ طریقِ رشاد… سراجِ اقطار وبلاد… اکرمِ اسلاف … اشرفِ اشراف… لسانِ حجت… طرازِ مملکت… نورسِ گلشنِ خوبی … چمن آراے باغِ محبوبی… گلِ گلستانِ خوش خوئی… لالۂ چمنستانِ خوب روئی… رونقِ ریاضِ گلشن… آرایشِ نگارستانِ چمن… طرۂ ناصیۂ سنبلستان… قرۂ دیدۂ نرگستان… گل دستۂ بہارستانِ جنان… رنگ افزاے چہرۂ ارغواں… ترطیبِ دماغِ گل روئی … طراوتِ جوے بارِ دل جوئی … تراوشِ شبنمِ رحمت… توتیاے چشمِ بصیرت… نسرینِ حدیقۂ فردوسِ بریں… رَوحِ رائحہ روحِ ریاحین… چمن خیابان زیبائی… بہار افزاے گلستانِ رعنائی… نخل بند بہارِ نو آئین … رنگ آمیز لالہ زارِ رنگین … رنگ روے مجلس آرائی… رونقِ بزمِ رنگیں ادائی… گل گونہ بخش چہرۂ گل نار … نسیمِ اقبالِ بہارِ ازہار … نگہت عنبر بیزانِ گل زار … نفحۂ مشک ریزانِ موسمِ بہار … اصلِ اصول… سرا بستانِ ملکوت… بیخِ فروغِ نخلستانِ ناسوت … فارسِ میدانِ جبروت … شہ سوارِ مضمارِ لاہوت … قمری سرو یکتائی … تدرو باغِ دانائی … شاہ بازِ آشیانِ قدرت … طاوسِ مرغ زارِ جنت … شگوفۂ شجرۂ محبوبیت … ثمرۂ سدرۂ مقبولیت … نوبادۂ گل زارِ ابراہیم … نورسِ بہارِ جنتِ نعیم … اعجوبۂ صنعت کدۂ بو قلموں … زینتِ کارگاہِ گوناگوں … لعلِ آب دارِ بدخشانِ رنگینی … دُرِّ یتیم گوش مہ جبینی … جگر گوشۂ کانِ کرم … دست گیرِ درماندگانِ اُمم … یاقوتِ نسخۂ امکان … روحِ روانِ عقیق و مرجان … خزانۂ زواہرِ ازلیہ…گنجینۂ جواہرِ قدسیہ …گوہرِ محیطِ احسان … ابرِ گہر بارِ نیساں … لوٗ لوٗے بحرِ سخاوت وعطا … گہرِ دریاے مروت و حیا … مشک بار صحراے ختن … گل ریز دامن گلشن … غالیہ ساے مشامِ جان … عطر آمیز دماغِ قدسیاں … جوہرِ اعراض و جواہر … منشاے اصنافِ زواہر … مخزنِ اجناسِ عالیہ … معدنِ خصائصِ کاملہ … مقوم نوعِ انساں… ربیعِ فصلِ دوراں … مکمل انواعِ سافلہ… مربی نفوسِ فاضلہ … اخترِ برجِ دل بری … خورشیدِ سماے سروری … آبروے چشمۂ خورشید … چہر ہ افروز ہلالِ عید … ہلالِ عیدِ شادمانی… بہارِ باغِ کام رانی … صفاے سینۂ نیّرِ اعظم … نورِ دیدۂ ابراہیم و آدم …زیبِ نجمِ گلستاں … گلِ ماہ تابِ باغِ آسماں … مُشرقِ دائرۂ تنویر … مَشرقِ آفتابِ منیر … شمسِ چرخِ استوا … چراغِ دودمانِ انجلا… مجلیِ نگار خانۂ کونین … سیارۂ فضاے قاب قوسین … زہرۂ جبینِ انوار … غرۂ جبہۂ اسرار …عقدہ کشاے عقدِ ثریا … ضیاے دیدۂ یدِ بیضا … نورِ نگاہِ شہود … مقبولِ ربِّ ودود … بیاضِ روے سحر … طرازِ فلکِ قمر … جلوۂ انوارِ ہدایت … لمعانِ شموسِ سعادت … نورِ مردمکِ انسانیت … بہاے چشمِ نورانیت … شمعِ شبستانِ ماہِ منور … قندیلِ فلکِ مہر انور … مطلعِ انوارِ ناہید … تجلیِ برق و خورشید … آئینۂ جمالِ خوب روئی … برقِ سحابِ دل جوئی … مشعلِ خور تابِ لامکاں … تربیع ماہ تابِ درخشاں … سہیلِ فلکِ ثوابت … اعتدالِ امزجۂ بسائط… مرکزِ دائرۂ زمین و آسماں … محیطِ کرۂ فعلیت و امکاں … مربع نشینِ مسندِ اکتائی … زاویہ گزینِ گوشۂ تنہائی … مسند آراے ربعِ مسکوں … رونقِ مثلثات گردوں … معدنِ نہارِ سخاوت…منطقۂ بروجِ سعادت … اوجِ محدبِ افلاک … رونقِ حضیضِ خاک … اسدِ میدانِ شجاعت … اعتدالِ میزانِ عدالت … سطحِ خطوطِ استقامت … حاویِ سطوحِ کرامت… طبیبِ بیمارانِ ضلالت … نباضِ محمومانِ شقاوت … علاجِ طبائعِ مختلفہ … دافعِ امراضِ متضادہ … جوارشِ مریضانِ محبت … معجونِ ضعیفانِ امت … قوتِ دل ہاے ناتواں … آرامِ جاں ہاے مشتاقاں … تفریحِ قلوبِ پژمردہ … دواے دل ہاے افسردہ … مقدمۂ قیاسِ معرفت … ممہدِ قواعدِ محبت … عقلِ اول سلسلۂ عقول … مبدئِ ضوابطِ فروع و اصو ل … نتیجۂ استقراے مبادیِ عالیہ … خلاصۂ مدارکِ ظاہرہ و باطنہ … رابطۂ علت و معلول … واسطۂ جاعل و مجعول … مدرکِ نتائجِ محسوسات … مہبطِ اسرارِ مجردات … جامعِ لطائفِ ذہنیہ… مجمعِ انوارِ خارجیہ … حقیقتِ حقائقِ کلیہ … واقفِ اسرارِ جزئیہ … مبطلِ مزخرفاتِ فلاسفہ … مثبتِ براہینِ قاطعہ … اوسطِ طرفینِ امکان و وجوب … واسطۂ ربطِ طالب و مطلوب… معلمِ دبستانِ تفرید … مدرسِ مدرسۂ تجرید … سالکِ مسالکِ طریقت … داناے رموزِ حقیقت … اثباتِ وحدتِ مطلقہ … برہانِ احدیتِ مجردہ … خزینۂ اسرارِ الٰہیہ … گنجینۂ انوارِ قدسیہ … تصفیۂ قلوبِ کاملہ … تزکیۂ نفوسِ فاضلہ … سرِ دفترِ دیوانِ ازل … خاتمِ صحفِ ملل … تخمِ مزرعِ حسنات … ترغیب ِ اہلِ سعادات … جمعِ محاسنِ فتوت …کفایتِ حوائجِ خلقت … ہادیِ سبیلِ رشاد … استیعابِ قواعدِ سداد … شیرازۂ مجموعۂ فصاحت … بہجتِ حدائقِ بلاغت … سراجِ وہاجِ ہدایت … نسخۂ کیمیاے سعادت … تکمیلِ دلائلِ نبوت … صحیفۂ احوالِ آخرت … منسح منتہی الا رب … لُبِ اصولِ ادب … بیاضِ زواہرِ جواہر … تمہیدِ نوادرِ بصائر … مقتداے صغیر و کبیر … مفتاحِ فتحِ قدیر … میزبانِ نزل ابرار … مفیدِ مستفیدانِ اسرار … قلزمِ دررِ قلائد … درجِ جواہرِ عقائد … تیسیرِ اصولِ تاسیس … روضۂ گلستانِ تقدیس … احیاے علوم و کمالات … مطلعِ اشعۂ لمعات … مقدمۂ طبقاتِ بنی آدم … رہِ نماے دینِ مسلم و محکم … تشریحِ حجتِ بالغہ … تصریحِ واقعاتِ ماضیہ… تقریرِ قصصِ انبیا … تحریرِ معارفِ اصفیا … دلیلِ مناسکِ ملت … منتقیِ اربابِ بصیرت … وسیلۂ امدادِ فتاح … سببِ نزہتِ ارواح … خازنِ کنزِ دقائق … درِ مختار بحرِ رائق … ذخیرۂ جواہرِ تفسیر … مشکوٰۃِ مفاتیحِ تیسیر … جامعِ اصول … غرائب معالم … مصدرِ صحاح بخاری و مسلم … منظورِ مدارکِ عالیہ… مختارِ عقولِ کاملہ … ملتقطِ کتابِ تکوین … نہایتِ مطالبِ مومنین … انسانِ عیونِ ایمان … قرۃ عینینِ انسان … منبعِ شریعت و حکم … مجمعِ بحرین حدوث و قدم … خلاصۂ مآرب سالکین … انتہاے منہاج عارفین … شرفِ ائمۂ دین … تنزیہہ شریعتِ متین … زبورِ غرائبِ تدقیق … تلخیص عجائبِ تحقیق… ناقدِ نقدِ تنزیل … ناسخِ توریت و انجیل … حافظِ مفتاحِ سعادت … کشفِ غطاے جہالت … واقفِ خزائنِ اسرار … کاشفِ بدائعِ افکار … عالمِ علومِ حقائق … جذبِ قلوبِ خلائق … زیبِ مجالسِ ابرار … نورِ عیونِ اخیار … تہذیبِ لطائفِ علمیہ … تجریدِ مقاصدِ حسنہ … بیاضِ انوارِ مصابیح … توضیحِ ضیاے تلویح … حاویِ علومِ سابقین … قانونِ شفاے لاحقین … معدنِ عجائب و غرائب … مدارِ مکارمِ و مناقب … نقش فصوصِ حکمیہ … منتخب جواہرِ مضیہ … عین علم و ایقان … حصن حصین امتان … تبیین متشابہاتِ قرآنیہ … غایت بیان اشارات فرقانیہ… تنقیح دلائلِ کافیہ … تصحیح براہینِ شافیہ … زُبدۂ اہلِ تطہیر … ملجاے صغیر و کبیر … غواصِ بحارِ عرفان … زُبدۂ اربابِ احسان … مرقاتِ معارجِ حقیقت … سلمِ مدارجِ معرفت … موضحِ صراطِ مستقیمِ نجات … اقصیِٰ معراجِ اصحابِ کمالات … قوتِ قلوبِ ممکنات … صفاے ینابیعِ طہارات … وقایہ احکامِ الٰہیہ … افقِ مبینِ انوارِ شمسیہ … دستورِ قضاۃ و حکام … ایضاحِ تیسیرِ احکام … نورِ انوارِ مطالع … تنویرِ منارِ طوالع … کمالِ بدورِ سافرہ … طلعتِ بوارقِ متجلیہ … موردِ فتحِ باری … تابشِ نورِ سراجی … بحرِ جواہرِ درایت … طغرائیِ منشورِ رسالت … عدیمِ اشباہ و نظائر … امینِ کنوزِ ذخائر … ملخّصِ مضمراتِ عوارف … شرحِ مبسوطِ معارف … سراجِ شعبِ ایمان …برزخِ وجوب و امکان … دُرِ تاجِ افاضل … ملتقیٰ بحرِفضائل … ناطقِ فصلِ خطاب … میزانِ نصابِ احتساب … منشاے فیضِ وافی … مبدئِ علمِ کافی … تبییضِ دُر ِمکنون … موجبِ سرورِ محزون … صرحِ برہانِ قاطع… نقایہ دلیلِ ساطع … رافعِ لواے ہدیٰ … حکمتِ بالغۂ خدا … ضوئِ مصباحِ عنایت … معطیِ زادِ آخرت … عمدۂ فتوحاتِ رحمانیہ … مخزنِ مواہبِ لدنیہ … نتیجۂ دلائلِ خیرات … لمعانِ مطالعِ مسرات … قاموسِ محیطِ اتقان … بلاغِ مبینِ فرقان … نہرِ خیابانِ توحید … نورِ عینِ خورشید … شمسِ بازغۂ مشارقِ انوار … رونقِ ربیعِ بستانِ ابرار … شناورِ قلزمِ ملاحت … آب یارِ جوے لطافت … تراوشِ ابرِ سیرابی … ابرِ بہارِ شادابی … سحابِ دُر افشانِ سخاوت … نیسانِ گہر بارِ عنایت … کوثرِ عرصۂ قیامت … سلسبیلِ باغِ جنت … آبِ حیاتِ رحمت … ساحلِ نجاتِ امت … روحِ چشمۂ حیواں … آشناے دریاے عرفاں … محمد شاہدِ دیں جانِ ایماں … محمد رحمتِ حق لطفِ یزداں … (ﷺ)‘‘(3)
علاوہ ازیں امام احمدرضا محدث بریلوی کی مختلف تصنیفات کے اقتباسات، مولوی شبلی نعمانی کی نثر ’’ظہورِ قدسی‘‘، سید سلیمان علی ندوی کے ’’خطباتِ مدراس‘‘ ، مفتی محمد شریف الحق امجدی کی ــ’’نزہۃ القاری شرح بخاری ‘‘کی مختلف جلدیں ، پیر کرم شاہ ازہری کی سیرت پر سات مجلدات کو محیط ’’ ضیاء النبی ‘‘ کی جلد 2؍ 3؍ 4؍ 5، اور پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی مجددی کراچی کی ’’جانِ ایمان‘‘اور ’’ جانِ جاناں ‘‘ ماہر القادری کی ’’دُرِّ یتیم‘‘ اور دیگر کتبِ سیرت وغیرہ نثری نعت کے نہایت خوبصور ت اور دل کش نمونوں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔متذکرۂ بالا کتب سے بعض کی عبارتیں ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے :
’’ہم سر اس کا دیکھا نہ سنا ، فر رسالت اس سے پیدا ، اور افسرِ شفاعت اس پر زیبا، سرفرازانِ عالم اس کی سرکار میں فِرقِ ارادت زمینِ انکسار پر رکھتے ہیں اور سرشارانِ بادۂ نخوت اپنی سرکشی اور خود سری سے توبہ کرتے ہیں … … … … روے روشن زلفِ سیاہ میں نمایاں ہے ، یا نورِ بصر مُردَمکِ چشم سے درخشاں ، ماہِ دوہفتہ پُرنور عارض سے تاباں، شمسِ بازغہ اس کے مدرسۂ تنویر میں شمسیہ خواں ، لعلِ بدخشاں کا اس کی رنگینی سے دم فنا اور گلستانِ ارم کا صرصرِ خجالت سے رنگ ہَوا۔ اس عارضۂ پُرنور کے عشق میں رنگِ رخسارِ سحر فق ہے۔ اور سینۂ ماہ شق، مراء تِ خیال کو سکتہ، چراغِ صبح سسکتا، مطبخِ گل زار سرد، رنگِ شفق زرد، دلِ شبنم افسردہ، روے گل پژ مردہ ، دُربا گریاں، مرجانِ بے جان آئینۂ حیران ، خورشید سرگرداں ، شمعِ چراغِ سحر، عقیق خون در جگر، لالۂ خونین کفن، قمری طوقِ غم بہ گردن، یاقوت بے دم، لعل زیر بارِ غم، یدِ بیضا دست بردل، تدرو بے تیغِ بسمل، بلبل کو اس گلستانِ خوبی کی یاد میں سبقِ بوستان فراموش، اور مرغِ چمن اس گلِ رنگین کے شوق میں روز و شب نالاں و مدہوش ، آئینۂ حلب پر اگر وہ سرِّ عرب عکس افگن ہو سوزِ محبت سے گل جائے ، اور ورقِ گل پر اگر وصفِ عارضِ رنگین زیب ِ رقم ہو پیرہن میں پھولا نہ سمائے ۔ یا ایہا المشتاقون بنورِ جمالہٖ صلوا علیہ وآلہٖ۔‘‘(4)
٭
’’ہاں ! جشن کی وہ رات ، راتوں کی سرتاج… رشکِ شبِ قدر، … نازشِ لیلۃ القدر … ہاں ! اس رات ستارے چمک رہے تھے… چاندنی کھل رہی تھی… نور کی چادر پھیلی ہوئی تھی… فضائیں مہک رہی تھیں، ہوائیں چل رہی تھیں، خاموشیاں مسکرارہی تھیں… وہ آنے والا پیکرِ بشری میں آرہا تھا… ہاں! رات گذر گئی ، وہ آگیا… صبح ہوگئی، ہر طرف چہل پہل ہے… ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں… ماں خوش ہورہی ہیں… دادا عبدالمطلب مسکرا رہے ہیں… چچاوں کے دل کی کلیاں کھل رہی ہیں … خوشی میں باندیوں کے بندھن کھل رہے ہیں… سدا کے اسیروں کو آزادیاں مل رہی ہیں… اللہ اللہ ! وہ پیارا، ماں کا دُلارا، سیہ کاروں کا سہارا کیا آیا عالم میں بہار آگئی… اُس کی آمد آمد کی ساتویں دن خوشی منائی گئی … دادا نے نام رکھا… محمد… مگر یہ نام تو قرنوں پہلے رکھا جا چکا تھا…‘‘(5)
٭
’’حسن و جمال کا یہ داتا… جس نے سارے عالم کو حسن و جمال کی بھیک بانٹی… جس کے صدقے کائنات کے ذرّے ذرّے پر نکھا ر آیا … جو کائنات کا سنگھار ہے… دیکھیے دیکھیے ، آگے قدم بڑھا رہا ہے… رُخ سے پردہ اٹھانے والا ہے… جلوہ دکھانے والا ہے… مگر وہ تو آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے پہلے بھی نبی تھا… دیکھنے والوں نے ا سے دیکھا بھی تھا…مگر ہم نے نہ دیکھاتھا… ہم کو دکھا یا جانا تھا… اسی لیے نا معلوم کب سے اُس کی رسالت و ختمیّت کی بات ہورہی تھی … اس کے آنے سے صدیوں پہلے اس کے آنے کی خبریں دی جارہی تھیں … ذرا ماضی کی طرف چلیے، دور … بہت دور… سنیے سنیے… نو عمری کا زمانہ ہے ، چچا کے ساتھ شام کے سفر پر جارہے ہیں ، اچانک بحیرہ راہب کی نظر پڑتی ہے، بے ساختہ پکار اٹھتا ہے یہ بچہ وہی نبی ہے جس کی عیسیٰ (علیہ السلام) نے بشارت دی تھی… پھر جب جوانی میں تجارت کے لیے تشریف لے گئے تو نسطورا راہب کی نگاہ پڑ گئی وہ بھی پکار اٹھا آپ اس امت کے نبی ہیں …‘‘(6)
٭
’’جب وہ جانِ راحت کانِ رافت پیدا ہوا… بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کیااور ربِّ ھب لی اُمّتی فرمایا… جب قبر شریف میںاُتاراگیا؛ لبِ جاں بخش کو جنبش تھی، بعض صحابہ نے کان لگا کر سُنا؛ آہستہ آہستہ اُمتی فرماتے تھے … قیامت کے روز کہ عجب سختی کا دن ہے… تانبے کی زمین… ننگے پاؤں … زبانیں پیاس سے باہر… آفتاب سروں پر… سایے کا پتا نہیں… حساب کا دغدغہ… مَلِکِ قہار کا سامنا… عالَم اپنی فکر میں گرفتار ہوگا… مجرمانِ بے یاردامِ آفت کے گرفتار… جدھر جائیں گے سوا نفسی نفسی اِذہبوا الیٰ غیری کچھ جواب نہ پائیں گے … اُس وقت یہی محبوبِ غم گسار کام آئے گا … قفلِ شفاعت اس کے زورِ بازو سے کھل جائے گا… عمامہ سرِ اقدس سے اُتاریں گے اور سر بہ سجود ہوکر’’ اُمتی ‘‘ فرمائیں گے… واے بے انصافی! ایسے غم خوار پیارے کے نام پر جاں نثار کرنا اور مدح و ستایش و نشرِ فضائل سے اپنی آنکھوں کو روشنی اور دل کو ٹھنڈک دینا واجب…یا یہ کہ حتی الوسع چاند پر خاک ڈالے اور اِن روشن خوبیوں میںانکار کی شاخیں نکالے…‘‘(7)
٭
’’عبداللہ کے یتیم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) بھی قانونِ فطرت کے مطابق جوان ہوگئے… وہ جسمانی اعتبار سے بھی انتہائی صحت مند متناسب الاعضاء اور حسین و جمیل تھے… سپیدی میں سرخی ملی ہوئی رنگت … دل میں گھر کرنے والی حسین و سیاہ آنکھیں … کشادہ پیشانی … موزوں قد … اور وہ سب کچھ جسے حسن و جمال کی معراج اور دل کشی و رعنائی کا منتہاے کمال کہہ سکتے ہیں … کسی آدمی کے قد و قامت کی بہت سے بہت تعریف ان لفظوں میں کی جاسکتی ہے کہ وہ سرو قد اور شمشاد قامت ہے … مگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے قدِ موزوں کو یہ تشبیہیںاور استعارے چھو بھی نہیں سکتے ؎
ترا چو سر نخوانم کہ سرو سرتاپا
ہمہ تن است تو از پاے بسر جانی
لالہ و گل … یاسمین و نسترن … سنبل و نرگس … آفتاب … ماہ تاب … لعلِ یمن… دُرِ عدن… مشکِ ختن … عنبرِ سارا… تبسمِ سحر اور شگفتِ غنچہ … انسان کے حسن و جمال اور اس کی خوبی و رعنائی کے یہ تمام استعارے ہیں… مگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے جمال کی شرح و تفسیر کے لیے یہ سب کے سب استعارے ناتمام… ادھورے اور تشبیہ و مماثلت کی سطح سے بہت فروتر ہیں ؎
رخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں
جہاں شعر و ادب کے ان استعاروں اور تشبیہوں کی انتہا ہوتی ہے… وہاں سے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے حسن و خوبی کا آغاز ہوتا ہے … محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اپنا جواب ہیں ؎
دونوں جہان آئینہ دکھلا کے رہ گئے
لانا پڑا تمہیں کو تمہاری مثال میں(8)
٭
’’آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) عالم میں خدا کی تعلیم و ہدایت کے شاہد ہیں … نیکوکاروں کو فلاح و سعادت کی بشارت سنانے والے مبشر ہیں … اُن کو جو ابھی تک بے خبر ہیں ، ہشیار اور بیدار کرنے والے نذیر ہیں …بھٹکنے والے مسافروں کو خدا کی طرف پکارنے والے داعی ہیں … اور کود ہمہ تن نور ہیں اور چراغ ہیں … یعنی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی راستہ کی روشنی ہے … جو راہ کی تاریکیوں کو کافور کررہی ہے… یوں تو ہر پیغمبر خدا کا شاہد، داعی، مبشر اور نذیر بن کر اس دنیا میں آیا ہے … مگر یہ کل صفتیں سب کی زندگیوں میں عملاً یکساں نمایاں ہوکر ظاہر نہیں ہوئیں … بہت سے انبیا تھے جو خصوصیت کے ساتھ شاہد ہوئے … جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام وغیرہ بہت سے تھے جو نمایاں طور پر مبشر بنے… جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بہت سے تھے جن کا خاص وصف نذیر تھا… جیسے حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت ہود علیہ السلام،حضرت شعیب علیہ السلام بہت سے تھے جو امتیازی حیثیت سے داعی تھے … جیسے حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت یونس علیہ السلام لیکن وہ جو شاہد … مبشر … نذیر… داعی … سراجِ منیرسب کچھ بیک وقت تھا… اور جس کے مرقعِ حیات میں یہ سارے نقش و نگار عملاً نمایاں تھے… وہ صرف محمدرسول اللہ علیہ الصلوٰت والتحیات تھے اور یہ اس لیے ہوا کہ آپ دنیا کے آخری نبی بناکر بھیجے گئے تھے … جس کے بعد کوئی دوسرا آنے والا نہ تھا آپ ایسی شریعت لے کر بھیجے گئے جو کامل تھی … جس کی تکمیل کے لیے پھر کسی دوسرے کو آنا نہ تھا …
آپ کی تعلیم دائمی وجود رکھنے والی تھی … یعنی قیامت تک اس کو زندہ رہنا تھا… اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک کو مجموعۂ کمال اور دولتِ بے زوال بنا کر بھیجا …

{……}


حواشی
(1)پیر کرم شاہ ازہری،علامہ: ضیاء النبی ،مطبوعہ دہلی ،ج 2، ص174/175
(2)پیر کرم شاہ ازہری،علامہ: ضیاء النبی ،مطبوعہ دہلی ،ج 2، ص365
(3)نقی علی خاں بریلوی ، علامہ : تفسیرِ سورۂ الم نشرح ، رضوی کتاب گھر دہلی ، ص 4/7
(4)نقی علی خاں بریلوی، علامہ: سرورالقلوب بذکرِ المحبوب ، فاروقیہ بک ڈپو ، دہلی ، ص 119/120
(5)محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر: جانِ جاناں ، رضوی کتاب گھر ، دہلی ، 1990، ص49/50
(6)محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر: جانِ جاناں ، رضوی کتاب گھر ، دہلی ، 1990، ص57
(7) احمدرضا بریلوی، امام:مجموعۂ رسائل نور اورسایا،رضا اکیڈمی ،ممبئی،1998ء،ص 73
(8)ماہر القادری: دُرِ یتیم ، فرید بک ڈپو، دہلی ، 2003ء ، ص 61
(9)سید سلیمان ندوی: خطباتِ مدراس، ادارۂ مطبوعاتِ طلبہ ،اچھرہ، لاہور، 1995ء، ص 23/24

{……}

Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646616 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More