روح کرتی سوال ہے۔۔۔۔۔!
(Muhammad Asad Waqas, Karachi)
میری نیند میں آپ کا دیدار ہے
میری جاگ میں آپ کا سوال ہے
کون کرے گا انہیں پورا اسدؔ
جو ان کی روح کرتی سوال ہے!
میں رات گہری نیند میں تھا کہ خواب دیکھتا ہوں کہ رات گئے کسی نے میرے گھر
میں دستک دی۔ میرے پوچھنے پر جواب ملا کہ بیٹا کھولو میں تمہارا ٹیچر یاسر!
یا سرنام سن کر میرے سامنے سے جیسے زمین نکل گئی ہو سر یاسر! پہلے پہل تو
مجھے یقین نہیں آیا کہ مجھ گنہگار کے گھر آج ایک شہید کی آمد! واقعی یہ
میرے خدا کا مجھ پر کرم ہوا ہے کہ وہ میرے گھر تشریف لائے ہیں۔ میں جھٹ سے
کمرے سے باہر نکلا اور جلدی سے دروازے کو کھولا۔ ان کو اپنے سامنے پا کر
احتراماََ جھک کر ملا۔ سر آئیے نا باہر کیوں کھڑے ہیں؟ میری دعوت پر سر
اندر تشریف لے آئے۔ میں نے سر کو پہلے کھانا صرف کیا اور پھر انہیں چائے
پیش کی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سر بڑے خوشباش، چہرے پر رونقی مسکراہٹ اور ایک
نہ رکنے والی ہسی اُن کے رخسار پر مسلسل جاری ہے لیکن پھروہ لمحہ جلد آنسو
ؤں میں بدل گیا۔ مجھے بڑا تعجب ہوا۔ میں نے سر سے کہاابھی تو آپ ہنس رہے
تھے اور اچانک رونے لگ گئے۔ کیوں سر! سر نے کہا بیٹا میں خوش اس لئے ہوا کہ
اپریل۲۰۱۵ء کے آخری عشرے کے دنوں میں بھی میں اسی قدر خوش ہوا تھا جس قدر
آج ہو رہا ہوں کہ میں نے شکیل اوج شہید کے قاتلوں کے مکمل طور پر ثبوت
اکھٹے کر لئے تھے اور ابھی دینے ہی تھے کہ مجھے بدمعاشوں کی دھمکی آمیز
کالز آنے لگ گئیں کہ کیس سے پیچھے ہٹ جاؤ ورنہ تمہارا انجام بھی وہی ہوگا
جو جناب شکیل صاحب کا ہوا تھا۔ میں نے انہیں کہہ دیا کہ میں ایک ایماندار
ٹیچر اور صحافی ہوں اور میں ایک ایماندار اور بہادر ٹیچر کے قاتلوں کو
پکڑوا کر ہی دم لوں گا اور پھر میں نے کال کاٹ دی۔ کچھ دن کا گزرنا تھا کہ
۲۹ اپریل ۲۰۱۵ء کی صبح گھر سے چند فاصلے دور واٹرپمپ چورنگی پر میرے ساتھ
وہی ہواجو انہوں نے کال پر کہا تھا اور میری جان پرواز کرتے وقت میری زبان
سے کلمۂ حق ادا ہوتے ہی آنکھوں سے زار و قطار آنسوں بھی جاری تھے کہ سر
شکیل اوج میں آپ کے قاتلوں کوجہنم واصل نہ کرا سکا اور میرا انجام بھی وہی
ہوا جو کہ ایک شیر کا گیدڑوں کے ہاتھوں ہوتا ہے ۔ میری روح کسی شاعر کا
مشہور شعر کہہ کر اﷲ کی جنتوں میں ہمیشہ کے لئے مہمان جا ٹہری
آخر ہے عمر، زیست سے دل اپنا سیر ہے
پیمانہ بھر چکا ہے، چھلکنے کی دیر ہے
اسی یاد نے میری ہسی کو آنسوؤں میں بدل دیا اور میری شہادت کو آج ایک سال
گزر چکا بیٹا لیکن میرے اور ڈاکٹر شکیل کے قاتلوں کو ان کے انجام تک نہیں
پہنچایا جا سکا۔میری شان میں یادگاری اور تعزیتی تقاریب بھی جاری ہے۔ مجھ
سے محبت کرنے والے لوگ اپنے اپنے عقائد کے تحت مجھے نظرانۂ محبت پیش کر رہے
ہیں۔ لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ میرے قریب دوست اور قریبی ساتھی جو
مجھ پر جان نچھاور کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہتے تھے۔ وہ محبت میں بے
وفائی پیش کر رہے ہیں۔ ان کی یہ محبت مجھے منافقانہ محسوس ہوتی ہے کہ وہ
ایک سال تک صرف سیمینار اور تعزیتی اجلاسوں میں رسمی خطاب کرکے میری یاد
تازہ کرتے ہیں اور پھر ان پروگراموں کے اختتام کے ساتھ ہی میری یاد کو اپنے
دلوں سے نکال کر اپنی زندگی میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ آخر کیوں میرے ادھورے
مشن کو کوئی تھام نہیں رہا؟ کیا میری شہادت پر سب کے دل فخر سے بلندہوئے
ہیں یا وہ ڈر گئے ہیں کہ کہیں ان کا انجام بھی میری طرح نہ ہو؟ مجھے اپنے
ان دوستوں، اساتذہ اور طلباء و طالبات کی محبت کا کچھ نہیں کرنا جو کہ مجھ
سے ایسی محبت کا تقاضا کرتے ہیں جو صرف تعزیتی اجلاسوں اور سیمینار تک
محدود ہیں اور میرے قاتلوں کو پکڑوانے میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔
سر کی یہ جذباتی رنجش سن کر میرا دل غم سے پھٹ پڑا اور میں ابھی سر کو یقین
دلاتے ہوئے پوچھ رہا تھا کہ میں ان کے قاتلوں کو ضرور ان کے اصلی انجام تک
پہنچاؤں گا بس یہ بتائیں کہ سر پولیس نے قاتل کا جو خاکہ تیار کروایا تھا
وہ ٹھیک تھا یا نہیں تو اتنے میں ان کی زبان سے صحیح یا غلط ہونے کا جملہ
نکلناتھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں دیکھتا ہوں کہ پنکھے کے نیچے لیٹنے کے
باوجود میری شرٹ پسینے سے بھیگی ہوئی ہے اور ماتھا اور سر بھی پسینے سے
شرابور ہے۔ میں نے آنکھ بند کر کے سر سے ٹوٹا ہوا لمحہ دوبارہ بحال کرنے کی
کوشش کی لیکن میری کئی دیر کی تگ و دو کے باوجود مجھے میرے سوال کا جواب نہ
مل سکا اور سر کے کئے ہوئے سوالوں نے مجھے پھر سونے نہ دیا۔ صبح نماز کے
بعد بھی میں تجسس میں پڑھا رہا کہ سر کے ادھورے سوالوں کے جواب کون دے گا؟
کون انہیں صحیح سمت میں حل کرے گا؟ اسی بے چینی کی کیفیت نے مجھے اپنی سر
سے خوابی ملاقات اور ان کے سوالات قارئین تک پہنچانے کی ہمت بخشی ہے امید
ہے کہ سر کے مدتوں سے قریب رہنے والے دوست اور اساتذۂ کرام سر یاسر رضوی
شہید (وحیدر الرحمان) کے سوالات اور ان کے گلے پر ضرور تدبر فرمائیں گے۔
تعارف: میرا نام محمد اسد وقاص ہے۔ میرا تعلق جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ
عامہ سے ہے۔ مجھے وہ معتبر علم پسند ہے جس میں عمل کی جستجو ملتی ہو، وہ
دوستی محبوب ہے جس سے وفا اور دیانت کی خوشبو آتی ہو اور دوسروں پر انگلی
اٹھانے کے بجائے اپنا احتساب کرنا اچھا لگتا ہے۔ |
|