موت ۔۔۔ختم ہوجانے والا سفر (حصہ چہارم)
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے بچاو کے
لیے لاکھوں کوششیں اور تدبیریں بھی کی جائے تو انسان موت سے نہیں بچ سکتا
کیونکہ موت سے بچاؤ محال ہوتا ہے اور موت برحق اور نہ ٹلنے والی خوفناک
حقیقت کا نام اورانسان کی حسرتوں اور امیدوں کو ارمان بنا کر رکھ دیتی ہے ،
ایک لمحہ کا نہ موقع دیتی ہے اور نہ کسی کا انتظار کرتی ہے پھر نہ جانے
انسان کے اندر ہر قسم کی پائی جانے والی معاشی و اخلاقی برائیوں کی سمجھ
نہیں آتی کہ یہ کیوں کر ہیں۔۔۔؟؟؟ حالانکہ حقیقت کا رنگ تو یہ ہے کہ انسان
جن وارثوں کے لیے حرام حلال اکٹھا کر کے ، اپنی قبر وحشر کی منازل کو سخت
کر کے مال جمع کر تے ہیں کیا وہ اس کے قابل بھی ہیں ۔۔۔؟؟؟ جبکہ جس وقت تک
انسان جوان ہوتا ہے، ہاتھ پاؤں سلامت ہوتے ہیں، نوکری و عہدہ بحال رہتا ہے،
پیسوں کی ریل پھیل لگی رہتی ہے تو سبھی رشتے مہر و وفا او ر عشق و پیما کے
جذبات کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر جیسی ہی آپ کی نوکری،صحت ، رتبہ،
عمر، عہدہ غرضیکہ وہ چیز جس سے کوئی شخص آپ سے مستفید ہوتا تھا وہ محروم
ہونے لگا تو اس نے آپ کی قدر کرنی بھی چھوڑ دی پھر جب انسان کی موت واقع ہو
جائے تو وہ ہی مہر و جفا کے عہد و پیما کرنے والے عزیز و رشتہ دار آپ کو
میت کا نام دے دیں گئے، بعض توآپ سے دور بھاگئیں گئے، آپ کو غسل دینے کے
لیے کوئی آگے نہیں آئے گا، پٹھے کے اوپر لٹائیں گئے اور پھر کپڑے جسم سے
پھاڑ کر اتاریں گئے، ہاتھوں ، بازوں اور جیب میں پڑی قیمتی اشیاء پر اُسی
وقت نظریں جم جائیں گئی یہ ہی نہیں آ پ ہی کی اولا د اور عزیزو رشتہ دار آپ
کے ترکے کے حساب کتاب میں لگ جائیں گئے۔ وہ جسم جس کے اوپر بغیر سلوٹ کے
کپڑے پہن کر گھوما کرتا تھا اب وقت آنے والا ہے کفن کی دو چادروں میں لپٹنے
کا، وہ پاؤں جن کے سہارے انسانی پتلا فخر سے چلتا تھا انہی پاؤں سے سانس
نکلنی شروع ہوتی ہے،، وہ آنکھیں جو دنیا کی لالچ میں ہمیشہ کھلی کہ کھلی
رہتی تھی وہ ویسے ہی کھلی رہ جائیں گئی، حلق سے ہر کڑوا و میٹھا گھونٹ بڑے
چسکے لے لے کر پیتا تھا مگر موت کے گھونٹ کا تر ش و تلخ ذائقے کے بعد کوئی
گھونٹ حلق سے نہیں اتر ے گا، وہ ناک جس پر کبھی مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتا
تھا اس ناک سے جسم فنا ہونا شروع ہو جائے گا۔۔۔ وہ پیٹ جس میں ہر قسم کا
حرام و حلال اکٹھا کر کے ڈالتے رہے کیڑے مکوڑے اس کو چیرتے ہوئے باہر نکلیں
گئے۔۔۔ روشنیوں کے محلات بنانے والا منوں مٹی کے نیچے اکیلا پڑا اپنے حساب
و کتاب میں سرگرداں ہو جائے گا۔۔۔ وہ دامن جس کو بھرنے کے لیے یتیم و
بیواؤں کے مال کا بھی فرق نہ چھوڑا تو وہ آج خالی لے کر جائے گا، وہ بدن جس
کو ڈھانپ کر چلتا تھا آج سی بدن کو کوئی اور غسل دے رہا ہوگا۔۔۔غرور تکبر
والا جسم آج اپنے قدموں پر نہیں بلکہ کسی کہ کندھوں پر سوار ہو گا اور پھر
سب اس عالم میں ہوں گے کہ اب اس کا ٹائم پورا ہونے والا ہے۔۔۔میت حاضر
کرو۔۔۔جنازے کا ٹائم ہو گیاہے۔۔۔پھر جنازے میں شریک لوگ اپنی سیاست کو چمکا
رہے ہو گئے ، کسی کا وضو ہو نہ ہو۔۔۔ کسی کو جنازہ آتا ہو نہ آتا ہو۔۔۔
غرضیکہ ہر کوئی جنازہ میں موت کے نام سے بے خبر ہو کر کھڑا ہو گا شادر نادر
کسی کو جنازے میں اپنی موت کا تصور آتا ہو اور کوئی ثواب کی نیت سے آتا ہو
مگر یہاں تو زیادہ تر مفادات کی جنگ ہے۔۔۔ادھرمیں ایک واقع بیان کرتا جاتا
ہوں کہ جو بالکل حقیقت پر مبنی ہے اور ہمار ی توجہ بھی اس معاملہ پر مرکوز
کر تا ہے کہ جو اشخاص آ پ کے جنازے میں شرکت کریں گئے وہ سب کے سب دکھلاؤے
کی خاطر آتے ہیں: ہمارے پڑوس کے ایک گاؤں میں تھانیدار صاحب رہتے تھے، بڑے
رعب اور جا و جلال کے مالک تھے ، ان وقتوں میں تھانیدار کو انتہاء درجے کی
عزت دی جاتی تھی اور ان سے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ہر آدمی کوشش میں
مگن رہتا تھا کیونکہ آئے روز اس گاؤں کے کسی نہ کسی بندے کا واستہ لڑائی
جھگڑے سے پڑتا رہتا تھا جس کے لیے تھانیدار سے اچھی واقفیت ہی کام آسکتی
تھی۔۔۔کرنا کچھ ایساہوا کہ تھانیدار صاحب کی والدہ مرحومہ کا انتقال ہو گیا
۔۔۔والدہ کے فوت ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی ، جوق در
جوق اور پر جوش و پرنم کیفیات میں ہر شخص تھانیدار سے ہمدردی جتانے اس کے
گھر آیا ، فاتح خوانی کی، چائے روٹی غرضیکہ اپنے آپ کو تھانیدار صاحب کا
حمایتی بیان کرنے لگا۔۔۔ تھانیدار بڑا خوش اور مسرور تھا کہ لو گ اس کی بڑی
عزت کرتے ہیں اس کا خصوصی خیال رکھتے ہیں، یہ سبھی لوگ میرے حامی و ناصر
ہیں ۔۔۔مگر۔۔۔موت کسی کی بھی نہیں رک سکتی اچانک ایک سال بعد انہی تھانیدار
صاحب کی موت واقع ہو جاتی ہے آپ یقین مانیں گئے کہ وہی لو گ جو ایک سال قبل
تھانیدار صاحب کے ساتھ ہمدردی و جفا کو انتہائی پرجوش و خروش سے اظہار کر
رہے تھے ان میں سے جنازہ وفاتح تو دو ر کوئی قبر کھودنے بھی نہیں آیا مگر
کیوں۔۔۔؟؟؟ وہ اس لیے کہ پہلے تھانیدار صاحب خود زندہ تھے اور ہر آنے جانے
والے اور حامی و ناصر کو پہچان لیتے تھے اور وقت آنے پر وہ اس کی مدد کر
سکتے تھے۔ ۔۔ مگر اب تھانیدار صاحب کے گزر جانے کے بعد کون۔۔۔ کون ہے جو ان
کے کام آئے گا۔۔۔؟؟؟ کوئی ہوتا جس سے لوگوں کو کسی قسم کی دنیاؤی فائدے کی
امید نظر آتی ہو۔۔۔بالکل یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہیکہ لو گ اسی کے
جنازے پر جاتے ہیں جس کے خاندان سے کچھ فوائد کی توقع ہو، یا پھر اس لیے کہ
کل کو یہ ہماری دعا کرے گا یا کرتا تھا۔۔۔ ورنہ ثواب کی غرض والوں کی تعداد
آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔۔۔آخر میں ایک بات جو ہمیشہ یاد رکھیں کہ
دنیا کی کوئی بھی چیز بغیر کاغذ ی نوٹوں کے نہیں مل سکتی تو کیا آخرت کی
نعمتیں آسانی سے ہماری جھولی میں ڈال دی جائیں گی۔ (جاری ۔۔۔حصہ پنجم) |
|