’گھوڑے کی ٹانگ توڑی اپنی اوقات دکھائی‘
(Shamim Iqbal Khan, India)
آنجہانی اوم پرکاش مصرا ہمارے ہم منصب اور
بزرگ دوست تھے جوکئی سال پہلے پولس انسپکٹر کے عہدے سے رٹائر ہو گئے تھے۔،
اکثر ہم لوگ ایک دوسرے کے یہاں جا کر ملا کرتے تھے۔وہ جب بھی میرے گھر
تشریف لاتے میری بیگم کے لیے اردو کی کوئی کتاب ضرور لاتے تھے۔اردو کے طالب
علم رہے، مادری زبان کی طرح اردو بولتے تھے۔حافظہ کا یہ حال تھا کہ بڑی بڑی
نظمیں روانی کے ساتھ سناتے تھے۔بڑا نفیس مزاق کیا کرتے تھے۔ ایک دن کہنے
لگے ’یار شمیم! میری چھوٹی بیٹی پڑھتی نہیں ہے ۔ جب اس سے پڑھنے کو کہتا
ہوں تو سنسکرت کی کتاب لے کر آجاتی ہے،اور میں تلملا کر رہ جاتا ہوں،اس کے
علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا سبجکٹ ہی نہیں رہتا۔ایک دِن اور لوگوں کی
موجودگی میں بڑے وثوق سے مصرا جی نے یہ بات کہی کہ ’ہندی ادب سے اگر کبیرؔ،
رسکھانؔ اور جائسیؔ کو نکال دیا جائے تو ’ہندی ساہتیہ میں کیا بچتا ہے؟‘۔اس
بات کو سن کر کچھ لوگوں نے منہ ضرور بنایا اور اُٹھ کر چلے بھی گئے لیکن
بولا کوئی نہیں۔ یہ خاکی چڈی والے جو بہت جلد بالغ ہو کر پینٹ پہننے والے
ہیں، آج بھی خاموش رہتے ہیں جب ان سے پوچھا جا تا ہے کہ اُس وقت تم لوگ کیا
کر رہے تھے جب ملک کی آزادی کے لیے یہی کبیرؔ، رسکھانؔ اور جائسی والے جب
پھانسیوں کے پھندوں پر جھلائے جا رہے تھے تو کہتے ہیں کہ ہم لوگ انگریزوں
کی مخبری کرکے انعام و اکرام حاصل کرتے تھے یا داخل کرنے کے لیے معافی نامہ
لکھا کرتے تھے۔
کبیرؔجی کا ایک دوحہ ہے ’’کَنَک کَنَک تے سو گُنی مادَکتا ادھِکائے: : اُت
کھائے بورائے جَگ، اِت پائے بورائے‘‘۔’کَنَک‘ لفظ کے معنی ’دھتورے کے بھی
ہوتے ہیں اور’سونے(Gold)‘ کو بھی کہتے ہیں۔دوحے کا مطلب ہے کہ ’دھتورہ‘
کھانے سے انسان پاگل ہو جاتا ہے جبکہ سونا صرف حاصل ہو جانے پر پاگل ہو تا
ہے۔ اب بیچارے شری گنیش جوشی جی کو ہی لے لیجئے(جس سے ہمدردی ہوتی ہے، اسے
بیچارہ کہا جاتا ہے)۔بی․جے․پی․کی ہوا میں یہ بھی اُڑے اور دہرادون سے اترا
کھنڈ اسمبلی کے رکن ہو گئے۔کیسریا ہوا ایسی چلی کہ جدھر دیکھو کیسریا ہی
کیسریا۔ اور یہی چیز ان کے بورانے)پگلانے) کی وجہ بنی اور ایک معصوم بے
زبان گھوڑے کی ٹانگ، بڑی مردانگی کے ساتھ، توڑ دی۔اس سے ان کو کس طرح کا
سکون حاصل ہوا ہوگا، یہ خود ہی جان سکتے ہیں۔ بہر حال ان کے خلاف مقدمہ درج
ہوا اور گرفتار ہوے۔ ضلع سشن جج نے پچیس پچیس ہزار کی دو ضمانت پر رہائی دے
دی۔ضمانت پر رہا ہو نے کے بعد جوشی جی نے کہا ’’آخر سچائی کی جیت ہوئی اور
مجھے انصاف ملا‘‘(اور گھوڑے کو منھ کی کھانی پڑی)۔حالانکہ جوشی جی کی قسمت
سے گھوڑااب اس دنیا میں نہیں ہے اس لیے نہ کوئی مقدمہ، نہ عدالت،نہ تاریخ
نہ ضمانت اور اگر زندہ بھی ہوتا تو یہ قانونی کاروائی غریبوں اور مسلمانوں
کے لیے بنی ہیں، بھکتوں کے لیے نہیں۔
کیا تعجب گھوڑا کانگریسی رہا ہو اور سازش رچی ہو، اور جوشی جی کو پھنسانے
کے لیے اپنی ٹانگ توڑ لی ہو۔چونکہ گھوڑا پولس کا تھا اس لیے ’پولسیا
ہتھکنڈے‘ تو نس نس میں بھرے ہونگے۔جیسے انکاؤنٹر یا مزاحمت کی سچائی دکھانے
کے لیے پولس کو بھی چوٹیں لگتی ہیں اوربندوق کے چھرّے بھی لگتے ہیں۔گھوڑا
اب مر چکا ہے ورنہ گھنونی سازش رچنے کے الزام میں پاکستان بھیجے جانے کے
لائق تھا۔اس کی موت نے اُسے خانہ خراب ہونے سے بچا تو لیا لیکن اُس پر
سیاست شروع ہو گئی ہے۔اکھلیش جی کی حکومت نے گھوڑے کا ٹھیک سے علاج نہیں
کرایا اس لیے اس کی موت ہو ئی۔یہ بھی آواز اُٹھی کی گنیش جوشی پر گھوڑے کی
ٹانگ توڑنے کا الزام لگایا گیا، وہ بے بنیاد ہے۔وہ بیچارے سادھو ذہنیت کے
انسان ہیں ۔ان کو نیک کام کرنے سے ہی فرست نہیں ملتی ،گھوڑے کی ٹانگ توڑنے
والا گھٹیہ کام وہ کب کریں گے۔ویسے بورائے ہوئے لوگ کیا کر بیٹھیں کچھ کہا
نہیں جا سکتا۔
اسی طرح سے بھارت سرکار کے وزیر مال جناب ارون جیٹلی صاحب پیشے سے وکیل
ہیں۔ایک دن کوئی محترمہ ان سے ملنے آئیں تو ان کے جانے کے بعد بیگم جیٹلی
نے ان سے پوچھا ’’اس عورت کو تم کیسے جانتے ہو؟ وکیل صاحب نے جواب دیا
’’پیشے کی وجہ سے‘‘۔ بیوی نے تیکھے لہجہ میں پوچھا ’’کس کا پیشہ؟تمہارا
اپنا! یا اُس کا؟‘‘۔بہر حال وکیلوں کی تو عادت ہوتی ہے تل کا تاڑ اور تاڑ
کا تِل بناڈالنے کی، ان کے پاس کیسا ہی موکل جائے چاہے جھوٹا ہو یا سچا،اس
کو کامیاب کرانے کا یقین دہانی کرا کر، وکالت نامہ پر دستخط کروا لیں
گے۔اپنی اسی پیشے وارانہ عادت کے مطابق بحیثیت وزیر انھوں نے کہہ دیا کہ
’’زنا چھوٹی بات ہے‘۔ اسے چھوٹی بات انہوں نے اس لیے کہی ہوگی کہ اسلام میں
یہ ایک سنگین جرم ہے اور اسلام کی مخالفت میں’یہ بورائے ہوئے لوگ‘کچھ بھی
کہہ سکتے ہیں حالہ نکہ ’اکبرؔ الہ آبادی ، ان کے لیے بہت پہلے کہہ گئے ہیں
’پیدا ہوئے وکیل تو ابلیس نے کہا:: لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے‘۔
جیٹلی صاحب کی چمچہ گیری کرتے ہوئے،حکومت کے نشے میں چوندھیائے ہوئے ہر
یانہ کے وزیر اعلی کھٹّر صاحب نے فرمایا کہ ’زنا کے لیے لڑکی ذمہ دار ہوتی
ہے‘۔اتنے بڑے صوبہ کے وزیر اعلی ہیں جنہیں عوام نے چنا ہے، وہ غلط کیسے کہہ
سکتے ہیں۔ٹھیک اسی طرح مودی جی جو ایک عظیم ملک کے عظیم وزیر اعظم
ہیں،فرماتے ہیں کہ ’’جوان(فوجی) سے زیادہ جوکھم تاجر اُٹھاتا ہے‘۔اس لیے اس
ناچیز کی رائے میں آنجہانی لال بہادر شاستری جی کا دیا گیا نعرہ ’جے جوان
،جئے کسان‘ اب بدل کر ’ جۓ دوکان،جے ٔ جوان ‘ ہونا چاہئے۔ کیونکہ ’وجے
مالیا‘ کتنے جوکھم اُٹھا کر بھارت سے بھاگا ہے اور بقیہ زندگی وہ جوکھم ہی
اُٹھاتاہی رہے گا۔
’کنک‘ کے نشے میں چور وزیر زراعت کے مطابق کسان عشق میں ناکامی اور اور
نامردی کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں ؟کسی نے کہا کہ معاوضہ کی لالچ میں کسان
خود کشی کرتا ہے۔اسی طرح سے ایک اور بورائے ہوئے ’سنجۓ دھوترے‘ جو ممبئی
میں اکولاسے ایم․پی․ہیں نے اُس وقت بیان دیا جب’ ودربھا ‘میں محض ۷۲ گھنٹہ
میں ۱۲؍کسانوں نے خودکشی کی اس پر آپ نے فرمایا کہ ’کسان مرتے ہیں تو مرنے
دو، ہم کیا کریں؟‘۔جب کہ مودی جی نے کسی کے مرنے پر یہ بات کہی تھی کہ
’گاڑی کے نیچے اگر کتّے کا پلّا آجاتا ہے تو افسوس تو ہوتا ہی ہے‘۔دھوترے
جی! فرما رہے ہیں ہے ’’میں کیا کروں؟‘‘۔
بابو لال گوڑ مدھیہ پردیش حکومت میں وزیر داخلہ ہیں۔ انھوں نے فرمایا ’عصمت
دری سماجی جرم ہے جو کبھی کبھی صحیح ہوتا ہے اور کبھی کبھی غلط‘‘۔ایک
بھارتی سیاست داں کا عصمت دری کے سلسلہ میں دیا گیا بیان چونکا دینے والا
ہے۔ منتری جی اگر یہ بھی واضح کر دیتے کہ یہ کب اور کن حالات میں صحیح ہوتا
اور کب و کن حالات میں غلط ہوتا ہے تو اس جرم کو ارتکاب کرنے والوں کو بڑی
سہولت مل جاتی،حالات اپنے حق میں کر کے عصمت دری کا کام انجام دیتے۔ اسی
طرح کا ایک بیان اور بھی ہے کہ ’’شراب نوشی بنیادی حقوق میں آتا ہی ہے ساتھ
ہی ساتھ حیثیت کی علامت بھی ہے‘‘۔بہار میں نتیش جی نے شراب پر پابندی لگا
کرسب کو بے حیثیت کر دیا وہیں پاسوان جی نے تھوڑی بہت حیثیت کوواپس دلانے
کے کیے ’تاڑی‘ پر سے پابندی ہٹانے کے لیے دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔
حیدر آباد یونیورسٹی میں روہت ویمولا،پی․ایچ․ڈی․ کا طالب علم تھا جس نے
۱۷؍جنوری ۲۰۱۶ء کو خود کشی کر لی تھی۔اس کے مرنے کے بعد مودی جی نے اُسے
بھارت ماں کا لعل کہا وہیں ’کیلاش وجے ورگی جو بی․جے․پی․ کے نیشنل جنرل
سکریٹری کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اندور کے میئر ہیں نے روہت ویمولا
کو دہشت گردوں کا مدد گار کہا۔ کیا ان دونوں کے بیانوں سے یہ کہاوت سچ ثابت
نہے ہو رہی ہے ’تم ڈال ڈال تو ہم پات پات‘۔گرو اورچیلوں کے بیچ میں کوئی تا
ل میل نظر آ رہا ہے؟ بغیر تال میل کے ہی حکومت کے گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔
|
|