سعودی ایران تنازعہ اور پاکستان کا کردار

 ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے کے لئے اپنے سفارتی ذرائع بروئے کار لائے جائیں‘ پارلیمانی رہنماؤں کو ان کیمرہ بریفنگ دی جائے‘ او آئی سی کا سربراہ اجلاس طلب کیا جائے‘ حکومت تسلی کرائے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرے گی۔ منگل کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ پاکستان اس صورتحال میں کیا کردار ادا کرے گا۔ ہم ان تفصیلات سے اتفاق نہیں کرتے۔ بدھ کو ہمیں ان کیمرہ اجلاس میں ملک کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ ہمیں بے بسی نہیں دکھانی چاہیے۔ ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے میں اپنے سفارتی ذرائع بروئے کار لانے ہونگے۔ وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ اگر ارکان ان کیمرہ بریفنگ چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس پر دیگر ارکان نے اظہار خیال کرنا چاہا تو ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ قواعد کے تحت بحث نہیں کرائی جاسکتی۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ دیگر جماعتوں کے چند ارکان کو بولنے کی اجازت دی جائے ہم کورم کی نشاندہی نہیں کرنا چاہتے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کے کہنے پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے پارلیمانی لیڈرز کو بات کرنے کی اجازت دی جس کے بعد ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ہم معاملے کی حساسیت سے آگاہ ہیں پاکستان کو پہلے اپنی پالیسی بنا کر آگے بڑھنا چاہیے۔ ہمیں فریق نہیں بننا چاہیے۔ وزیراعظم کو فوری طور پر سعودی عرب اور تہران کا دورہ کرنا چاہیے۔ ساری پارلیمنٹ کو بریفنگ دی جائے۔ صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ ہمیں تسلی کرائی جائے کہ حکومت پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں ثالث کا کردار ادا کرے گی۔ امت مسلمہ میں تشویش پائی جارہی ہے۔ پاکستان ایٹمی ملک ہے اس صورتحال میں ہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ او آئی سی کا سربراہی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ حکومت اب تک کی صورتحال کے حوالے سے اپنی حکمت عملی واضح کرے۔ سید آصف حسنین نے کہا کہ ہمیں امید تھی کہ اس اجلاس میں ایران سعودی عرب کشیدگی کو زیر بحث لایا جائے گا۔ سعودی عرب کے ساتھ ہماری وابستگی بڑی اہم ہے مگر ایران بھی ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ ہمیں اس صورتحال میں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ کس طرح ثالثی کا کردار ادا کرکے آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔پارلیمنٹ کی رائے اور سوچ کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ حاجی شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ عالم اسلام میں پاکستان کی بڑی اہمیت اور عزت ہے۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اپنی اہمیت اور وقعت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اگر یہ کشیدگی مزید بڑھ گئی تو پاکستان کا بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ ساری دنیا تقسیم ہو چکی ہے عقل کا تقاضا ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن کو اس معاملے پر ایک ہو کر آگے بڑھنا چاہیے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تناؤ کے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں اس حوالے سے پاکستان اپنا مثبت کردار ادا کرے گا جبکہ پارلیمنٹ کو بھی اس بارے میں اعتماد میں لیا جائے گا۔ منگل کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے اور اسی کشیدگی کی وجہ سے سعودی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ ملتوی کیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کے بعد ایرانی سفارتکاروں کو سعودی عرب چھوڑنے کے لئے کہا گیا ہے جس کے بعد مشہد‘ بحرین اور سوڈان نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کردیئے ہیں جس پر امریکا برطانیہ اور یورپی ممالک نے دونوں مسلمان ممالک کے درمیان کشیدگی اور فرقہ وارانہ تقسیم پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان او آئی سی کا رکن ہونے کی حیثیت سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی وزیر خارجہ جمعرات کو پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں ان کے دورے کے بعد وہ ایوان میں تفصیلی بیان دینے کی پوزیشن میں ہونگے۔وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ گلف کی جنگ کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے چھ دورے کئے تھے۔ اب بھی ہمارے چین‘ ایران‘ یورپ اور امریکا کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ ہم سوچ بچار کے بعد مثبت کردار ادا کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ہمیں قومی سیکیورٹی کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو آئندہ چند دنوں میں بریفنگ دیں گے۔

پاکستان میں آپریشن ضرب عضب اور دہشت گردی کے خلاف حکومتی اقدامات سے گزشتہ سال کے دوران دہشت گردی میں 48 فیصد کمی آئی۔ جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے اڈوں کے خلاف آپریشن کارگر ثابت ہوا ۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردی میں کمی آئی ہے، فرقہ وارانہ حملوں میں 59 فیصد کمی ہوئی ہے۔ 2015ء کے دوران پاکستان بھر میں 625 دہشت گرد حملے ہوئے جو 2014ء کے مقابلے میں 48 فیصد کم ہیں۔ جو حملے رپورٹ ہوئے ان میں سے 359 حملے جو کل حملوں کا 57 فیصد ہیں، طالبان کی جانب سے کئے گئے جبکہ 212 حملے مقامی طالبان گروہوں کی جانب سے کئے گئے ۔ اسی عرصے میں بلوچ باغیوں کی جانب سے 208 دہشت گرد حملے کئے گئے۔ 58 حملے ایسے تھے جن کی نوعیت فرقہ وارانہ تھی جن میں سے زیادہ تر کے محرکین کالعدم گروپ تھے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز جو گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں سیکورٹی کے بدلتے ہوئے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے، کی رپورٹ کے مطابق سال 2015ء کے اختتام پر مردان میں ہونے والا خودکش حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ رپورٹ کے مطابق کراچی آپریشن سے شہر کے اندر ہونے والے تشدد میں کمی آئی ہے ۔ پنجاب میں بھی 2015ء میں حملوں میں کمی دیکھی گئی تاہم کچھ ہائی پروفائل حملے ہوئے جن میں پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی شہادت بھی شامل ہے۔ بلوچستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں اگرچہ گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی ہوئی ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گرد حملوں میں سب سے زیادہ کمی جہاں دیکھی گئی وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ہے جہاں 79 فیصد کمی ہوئی، اس کے بعد خیبر پختونخوا ہے جہاں یہ کمی 61 فیصد ہے۔ کراچی میں بھی 61 فیصد، اندرون سندھ 45 فیصد، پنجاب 41 فیصد، فاٹا 36 فیصد اور بلوچستان میں 36 فیصد کمی ہوئی۔ اموات کے لحاظ سے پاکستان بھر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ فاٹا رہا جہاں 268 افراد مارے گئے ہیں، اس کے بعد بلوچستان میں 257، سندھ میں 251، خیبر پختونخوا میں 206، پنجاب میں 83 اور اسلام آباد میں 4 ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے باوجود کہ فرقہ وارانہ حملوں میں 59 فیصد کمی ہوئی مگر ان حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں میں 2015ء کے دوران 7 فیصد اضافہ ہوا جو 2014ء میں 255 تھیں مگر 2015ء میں بڑھ کر 272 ہو گئیں کیونکہ اندرون سندھ اور کراچی میں ہلاکت خیز فرقہ وارانہ بم دھماکے ہوئے۔ رپورٹ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ جیلوں کی سیکورٹی، اصلاحات، غیر قانونی ہتھیاروں کی پڑتال، انٹرنیٹ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے ساتھ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے اور انتہاء پسندی کے خاتمے کے لئے ایسے اقدامات کرے جو دوررس اثرات کے حامل ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہم کے دوران پانچ سال تک کی عمر کے 12لاکھ 96ہزار بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ پولیو ٹیموں کی تعداد 2846سے بڑھا کر 2958کردی گئی ہے اورتین روزہ معمول کی مہم کے علاوہ 14اور15جنوری دواضافی دن بھی کسی وجہ سے رہ جانے والے بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کے لئے ٹیمیں متحرک رہیں گی۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
وزیراعظم محمد نواز شریف کی حکومت نے اڑھائی سال کے دوران میکرو اکنامک استحکام کی منزل حاصل کر لی ہے اور موجودہ مالی سال کے دوران صنعتی گروتھ میں بہتری نظر آ رہی ہے۔ معروف اخبار ’’خلیج ٹائمز‘‘ نے اپنی منگل کی اشاعت میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی اپنی باقی ماندہ مدت کے دوران یہ ترجیح رہے گی کہ وہ روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرے اور اقتصادی ترقی پر توجہ دے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس کو 1.86 فیصد تک لایا گیا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران یہ شرح 6.45 فیصد تھی۔ خلیج ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ چند ماہ کے دوران بجلی کی پیداوار کے کئی چھوٹے منصوبے مکمل کئے گئے جبکہ اگلے چند ماہ میں مزید کئی منصوبے بجلی کی پیداوار شروع کر دیں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قطر سے ایل این جی کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، گیس کی رسد میں اضافہ اور گیس سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کی پیداوار بڑھی ہے، 2016ء کے دوران اس میں مزید اضافہ نظر آ رہا ہے۔ خلیج ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ حکومت پاکستان یہ توقع کر رہی ہے کہ اگر عالمی ڈیمانڈ اور قیمتوں میں کمی نہ آئی تو 2016ء کے دوران اس کی برآمدات 30 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی، حکومت کی موثر مالیاتی پالیسی، اشیاء کی بہتر سپلائی اور عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باعث افراط زر کو کنٹرول کرنے میں خاصی مدد ملی ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان اشرف وتھرا کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ گیارہ سال کے دوران اس وقت کم ترین شرح سود ہے۔ تاجر برادری اور نجی شعبہ کی ہمیشہ یہ کوشش اور خواہش رہی ہے کہ پیداواری لاگت اور بزنس اخراجات میں کمی کیلئے شرح سود کم ہونا چاہیے، یہ صورتحال اب انہیں صنعتی پیداوار اور برآمدات میں اضافے میں معاون ثابت ہوگی، مقامی سطح پر بھی موجودہ سال کے دوران قیمتیں کم سطح پر لانے میں مدد ملے گی۔ گورنر سٹیٹ بنک کے ہی حوالے سے مزید لکھا گیا ہے کہ 2016ء کے دوران کمرشل بنکوں کے پاس اضافی سرمایہ دستیاب ہوگا کیونکہ حکومت اپنا بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے اب کمرشل بنکوں سے قرضوں کے حصول میں کمی لائے گی۔ 2016ء کے دوران یہ امکان موجود ہے کہ کمرشل بنکوں کے پاس اضافی سرمایہ موجود ہوگا جو نجی شعبہ کیلئے دستیاب ہوگا۔ خلیج ٹائمز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ لارج سکیل مینوفیکچرنگ سیکٹر کی پیداوار میں حالیہ مہینوں کے مقابلے میں اضافے کی توقع ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں خصوصاً متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، امریکہ اور برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم میں موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران 9 فیصد اضافہ ہوا اور یہ رقوم 8.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری موجودہ مالی سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 7.7 فیصد زیادہ رہی۔ پبلک اور پرائیویٹ غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی 18.5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 70842 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.