انسان فانی ہے۔ مشن اور مقاصد لافانی ہیں۔
انسان کو موت آجاتی ہے۔ مشن کبھی نہیں مرتے۔ امان اﷲ خان اس جہاں فانی سے
کوچ کر گئے لیکن ان کا خواب پورا نہیں ہوا۔آج استور سے ہائیہامہ کپواڑہ
تک،پشاور سے سیالکوٹ، کراچی سی لندن اور راولپنڈی تک میں ان کے آبائی
علاقوں کی طرح لوگ سوگوار ہیں۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والا ہر کوئی دکھ اور
افسوس کر رہا ہے۔ دنیا میں گونجنے والی خود مختار کشمیر کی آواز خاموش ہو
گئی ہے۔
جب بھی ان سے ملاقات ہوتی، وہ کپواڑہ میں پوسٹرز چپکانے، ایس پی کالج میں
شیخ محمد عبداﷲ سے سامنا ہونے سے لے کر آج تک کے چیدہ چیدہ واقعات بیان
کرتے۔ کراچی میں اپنے تعلیمی اداروں کا تذکرہ ہوتا۔ اپنا سب کچھ تحریک پر
نچھاور کرنے میں انھوں نے خود کو ایک عملی نمونے کے طور پر پیش کیا۔ آخری
دم تک راولپنڈی کا چاندنی چوک ان کی سرگرمیاں کا ہیڈ کوارٹر بنا رہا ۔ ایک
چھوٹا سا کمرہ ہی ان کا دفتر اور رہائش گاہ تھی۔ سادہ دل ہی نہیں تھے بلکہ
زندگی بھی انتہائی سادگی، کسمپرسی میں گزار دمگرکوئی شکوہ نہ کیا۔ اپنے
اصولوں اور کاز سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ اپنے کام میں ہر وقت مشغول اور
مصروف رہے۔ ان کا کام سفارتکاروں، سیاستدانوں ، صحافیوں کے ساتھ خط و کتابت،
تحریکی سرگرمیاں، تحریر وتقریرتک ہی محدود نہ تھا بلکہ وہ عمر کے آخری ایام
تک انتہائی پیچیدہ امور کو بھی نپٹاتے رہے۔ جب گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے
کی افواہیں گرم ہوئیں تو وہ ایک وفد کے ساتھ گلگت پہنچ گئے۔ اس خطے کے
رہنماؤں کو اس کے نقصانات اور کشمیر کاز پر پڑنے والے منفی اثرات سے آگاہ
کیا۔
مسلہ کشمیر کو اس وقت زندہ کیا جب دنیا اسے دفن کر رہی تھی۔ استور سے
کپواڑہ ہجرت، تعلیم و تربیت، تحریک آزادی کے لئے سرگرمیاں اور اس کے بعد
پاکستان ہجرت نے امان اﷲ خان کو اس سر زمین کو کو ہر صورت میں آزاد کرانے
کے مشن س پیچھے نہ ہٹنے پر آمادہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نشیب وفراز
دیکھے، مگر کوئی چیز انہیں جھکانے پر مجبور نہ کر سکی۔ صدر جنرل محمد ضیاء
الحق نے کشمیر کی آزادی کے لئے امان اﷲ خان سے مل کر کام کرنے کی خواہش
ظاہر کی تو ان کے ساتھ ہاتھ ملا لئے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ ایسی شخصیت ہے جسے
پاکستان سے والہانہ محبت ہے ۔ جو پاکستان پر بھارت کو کبھی بھی ترجیح دینے
کا خیال بھی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کو ایک پلڑے میں
رکھنے کے حامیوں کو نہ صرف ٹوکا بلکہ ان کو راہ راست پر لانے کی بھر پور
کوشش کی۔ ان کا اصرار تھا کہ جو بھارت آزادی کی آواز کو دبانے کے لئے
کشمیریوں کا قتل عام کر رہا ہے، ان کی نسل کشی میں مصروف ہے، اس سے کسی خیر
کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے اس کے خلاف مسلح جدوجہد جاری رہنی چاہیئے۔
مسلح تحریک کی حمایت سے پہلے انہوں نے سفارتی اور سیاسی طور پر تحریک کے
لئے کام کیا۔ مگر اس کے نتائج صفر نکلے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ پر امن
احتجاج، مظاہروں، نعروں، تحریر وتقریر کا بھارتی حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں
ہو رہا ہے۔ وہ طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ اس لئے بندوق اٹھائی جائے۔ جو اقوم
متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے۔ جب لبریشن فرنٹ میں دھڑے بندیاں ہونے لگیں
تو انھوں نے اتحاد و اتفاق کی سر توڑ کوششیں کیں۔ سب کے ساتھ مل کر چلنے کا
اعلان کیا۔ اختلافات بات چیت سے ختم کرنے کے پیغامات دیئے۔ یاسین ملک کے
ساتھ بات چیت جاری رکھی۔ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ اس اتحاد میں حافظ انور
سماوی، سردار صغیرخان، ڈاکٹر توقیر گیلانی، منظور احمد ، محمد رفیق ڈار،
سلیم ہارون ، ماسٹر محمد افضل اور دیگر نے اہم کردار ادا کیا۔ آخری عمر میں
مسلہ کشمیر کا حل حق خود ارادیت قرار دیتے رہے۔ جب سید علی شاہ گیلانی نے
اعلان کیا کہ اگر کشمیری تیسرے آپشن خود مختار کشمیر کا انتخاب کریں گے وہ
بھی انہیں قبول ہو گا۔ تو ادھر امان اﷲ خان نے بھی اعلان کیا کہ اگر کشمیری
الحاق کے حق میں رائے دیں گے تو اس کا احترام ہو گا۔ یعنی عوام کی رائے سب
پر مقدم ہے۔ یہ سبھی نے تسلیم کیا۔ اپنا موقف زبردستی ٹھونسے پر یہ یقین نہ
رکھتے تھے۔
یہ عظیم لوگوں کا شیوہ ہے کہ جب اپنے لئے کسی راستے کا سوچ سمجھ کر انتخاب
کر لیتے ہیں تو اس سے ہٹتے نہیں۔ کوئی خوف وڈر، لالچ، طمع ، مفاد انہیں
اپنے مشن سے ہٹا نہیں سکتا۔ اگر مقصد نیک ہو تو ناقدین بھی ساتھ دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نیک نیتی ، خلوص اور سنجیدگی سے اپنے نظریہ اور
فلسفہ کی تشہیر کرتے رہے۔ ان کا ہدف نوجوان رہے۔ جن کی ذہن سازی کے لئے
انھوں نے خاص طور پر دلچسپی لی۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ اپنے نظریہ کے
مخالفین کے بھی قدردان تھے۔ انتہا پسندی، جاہلانہ بحث و مباحثہ، سخت گیری ،
زور زبردستی کے قائل نہ تھے۔ اپنی آپ بیتی جہد مسلسل خود پیش کی۔ اس میں
کسی غلطی کی نشاندہی کرنے کا مطالبہ کیا۔ دل کو چھو لینے والی ان کی تحریر،
تجربات و مشاہدات سے ہر کوئی مستفید ہو سکتا ہے۔
اقتدار کی سیاست سے دوری ، دیانتداری ، استقامت ، لگن ان کا خاصہ تھا۔ اپنے
نظریہ پر چٹان کی طرح ڈٹے رہنا ان کا ایک بے مثال اصول تھا۔ اپنی اکلوتی
بیٹی کا رشتہ خواجہ عبدالغنی لون شہید کے بیٹے سے طے کرنے کا بھی ایک مقصد
تھا کہ دونوں خاندان مل کر تحریک آزادی کے لئے کام کریں۔ جنرل ضیال ء الحق
کا طیارہ حادثہ اور خواجہ لون پر فائرنگ نے ان کے مشن کو ابر آلود کر دیا۔
وہ مایوس نہ ہوئے۔ اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ اﷲ کرے وہ وقت آئے جب استور میں
ان کی قبر پر جاکر آزادی کی خوشخبری سنانے کا موقع نصیب ہو۔ اﷲ امان اﷲ
مرحوم کی بشری خطائیں معاف فرمائے اور ان کے درجات بلند ہوں۔
|