اے آر وائی نیوز۔سر عام پروگرام۔مجاہدانہ صحافت!!

 جمعہ انیتیس اپریل کو ہونے والے سندھ اسمبلی کے سیشن میں اُس وقت اچانک ماحول تبدیل ہوگیا جب اے آر وائی نیوز کے سینئر اینکر پرسن اور سرے عام پروگرام کے اینکر سید اقرار الحسن نے اپنے پروگرام کیلئے اسٹنگ آپریشن کے تحت مشاہدات و تحقیقات مکمل کرنےکے بعد جاری سیشن میں اُس وقت سندھ اسمبلی کی سیکیورٹی کو بے نقاب کیا جب وزیراعلیٰ سندھ سمیت تمام وزرا اور اپوزیشن کے ممبران بھی شامل تھے۔۔۔!! یاد رکھنے کی بات تو یہ ہے کہ اےآر وائی نیوز نے ہمیشہ حق و سچ کی ترجمانی کرتے ہوئے بریکنگ اورخبر سے عوام کو حالات و اقعات سے آگاہ رکھا،پاکستان کے نجی چینل میں اے آر وائی نیوز صف اول ہےاس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پرملازمین کی تنخواہیں اور مراعات سب سے زیادہ ہیں یہی وجہ ہے کہ اے آر وائی نیوز کے ملازمین غلط راستوں اور زرد صحافت سے دور رہتے ہیں ۔ اے آر وائی گروپ کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ اپنے ملازمین کو بین الاقوامی سطح پر ملنے والے چینل کے مراعات کو اپنائے اسی لیئے یہاں پرامور بہت احتیاط اور سختی برتےجاتےہیں ،یہاں ہر خبر کی تحقیق و تصدیق کے بعد نشر کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی اشوز ہوں یا ملکی تمام تر خبروں میںسب سے پہلے اور مستند خبریں اے آر وائی نیوز نے ہی نشر کیں ہیں ۔ حالیہ دنوں میں بین الاقوامی اشو پاناما کو بھی کئی ہفتوں قبل معروف اینکر پرسن اے آر وائی نیوز ارشد شریف نے اپنے پروگرام میں نواز شریف سمیت دیگر اہم پاکستانی شخصیات کے متعلق ملکی دولت لوٹنے کی خبر دی تھی جوچند دنوں پہلے جب پاناما لیکس نے اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کیئے تب تمام پاکستانی چینلز اوراخبارات نے اپنی خبروں کی شہ
۲
سرخیاں بنائیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود، ارشد شریف، کاشف عباسی، عارف حمید بھٹی، وسیم بادامی،سید اقرار الحسن،صابر شاکر جیسے پروگرام اینکرز اپنی صحافتانہ فرائض جس قدر ایمانداری، سچائی، مخلوص اور نیک نیتی سے سر انجام دیتے ہیں اس کی ضمانت کی ضرورت نہیں۔جمہوری حکومتیں ہوں یا فوجی حکومتیں تمام حکومتوں میں اے آروائی نیوز نے اپنی تمام تر ذمہ داریاں ہمیشہ احسن انداز میں انجام دی ہیں۔سن دو ہزار کو آن ایئر ہونے والا نجی سیٹلائٹ چینل اے آر وائی نے اپنے ناظرین کیلئے ہمیشہ معیاری پروگرام نشر کیئے،میں نے اٹھارہ مارچ سن دو ہزار ایک کو اے آر وائی جوائن کیا تھا اُس وقت یہ صرف اے آر وائی ڈیجیٹل تھا اور برطانیہ سے نشر کیا جاتا تھا پھر دبئی منتقل ہوا اس کے بعد کراچی۔۔۔!!مجھے اس ادارے سے وابسطہ ہوئے تقریبا سولہ سال بیت گئے نوجوان آیا تھا اب بوڑھاپے کی جانب ہوں، اپنے ان سولہ سالوں میں بہت لوگ دیکھتے ہیں لیکن اے آر وائی کی ملک دوستی، حب الوطنی کو مالکان میں ہمیشہ سے دیکھی اس سے بڑھ کر خوف خدا اور رسول مقبول ﷺ سے والہانہ محبت اور بزرگان دین سے عقیدت پائی، الحمد للہ مجھے اےآر وائی اور مالکان پر فخر ہے۔۔۔!! میں اپنے کالم میں اپنے ناظرین کیلئے اے آر وائی نیوز کے مشہور و معروف پروگرام سر عام کی جانب بات کرتا ہوں کہ سید اقرار الحسن جو کئی خطرناک اشوز پر کام کرچکے ہیں اور اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر پوری تحقیق و مشاہدے کے بعد ععوام الناس کے سامنے پیش کرتے چلے آرہے ہیں وہ لوگ، وہ ادارے، وہ سیاستدان، وہ حکمران جو مکمل کرپشن، لوٹ مار، دھوکہ دہی میں ملوث ہیں انہیں اقرار الحسن کے کام سے خوف ہے وہ سب ملکر چاہتے ہیں کہ اس کاکرپشن اور برائی کے خلاف مشن ختم ہوجائے اور ملک میں امن اور انصاف کا بول بالا نہ ہو اسی بنا پر جہاں سرے عام کئی بار مشکلات سے دوچار رہی ہے وہیں آج صبح جمعہ انتیس اپریل کو بھی سندھ اسمبلی کی سیکیورٹی کی ناقص کارکردگی قبال جان بن گئی۔۔ اے آروائی کے پروگرام’’سرعام‘‘کے اینکراقرارالحسن نے سندھ اسمبلی کی سیکیورٹی کاپول کھول دیا،اقرارالحسن کااسٹنگ آپریشن، سندھ اسمبلی کی سیکیورٹی کاپول کھول دیا،اسٹنگ آپریشن کے دوران اسلحہ سندھ اسمبلی لے جایا گیا، سندھ اسمبلی کی سیکیورٹی کے کسی اہلکار نے مسلح شخص کونہ چیک کیانہ روکا،سیکیورٹی کاپول کھولنے والے اقرارالحسن اور انکی ٹیم کو ہی حراست میں لے لیاگیا،سندھ اسمبلی اورپولیس نے شکریہ ادا کرنے کے بجائے اقرارالحسن کوحراست میں لے لیا،سرعام کے اسٹنگ آپریشن نے سندھ اسمبلی کی سیکیورٹی پرسوالیہ نشان لگادیئے
اسٹنگ آپریشن کے دوران سندھ اسمبلی لے جایاگیا پستول لائسنس یافتہ ہے،سندھ اسمبلی کی سیکورٹی کے نام پرکروڑوں
۳
روپے خرچ کئے جاتے ہیں،اقرارالحسن اس سے پہلے بھی اسٹنگ آپریشن کرکے سیکورٹی کابھانڈاپھوڑچکے ہیں، اقرار الحسن کو ایک کمرے میں رکھا گیا ہے، ڈی آئی جی ساؤتھ اور ایس ایس پی ساؤتھ کا روٹ کا معائنہ،ڈی آئی جی ساؤتھ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی لیکن حیرت و تعجب کی بات یہ سامنے آئی کہ جس نے ناقص سیکیورٹی کا ثبوت پیش کیا اسے ہی تھانے میں بند کردیا اور ایک مقدمہ چید سیکیورٹی آفیسر کی مدعت میں درج کیا جبکہ دوسرا ایس ایچ او کی مدعت میں لکھا گیا۔ اس عمل سے ظاہر ہوگیا ہے کہ یہاں جمہوریت کے نام پر دھوکہ ہے اور کوئی سیاسی جماعت نہیں چاہتی کہ ملک پاکستان کرپشن ، بدعنوانی اور لوٹ مار سے پاک ہو یہی وجہ ہے کہ سرے عام ٹیم کو پھنسانے کے باوجود ایوان بالا کی جانب سے خاموشی سوالیہ نشان ہیں ۔۔۔۔۔!! سید اقرارالحسن اور ان کی ٹیم کیلئے جس قدر حکومتی ادارے، حکمران اور دیگر با اثر شخصیات راہ میں رکاوٹ بنیں گے ان کے عزائم اور مضبوط ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ ان کا مقصد نیک ہے اور پاکستان کے نظام کی درستگی کیلئے جس طرح کام کررہے ہیں پوری قوم کااعتماد اور دلاسہ ان کے ساتھ ہے، پاکستانی قوم ان کے کام کو سراہتی ہے اور سلام کرتی ہے ، میں نے کئی بار سید اقرارالحسن سے ملاقات کے دوران اسے کہا ہے کہ تم صحافت کی دنیا کے غازی ہو اور جس طرح اپنے پروگرام کے ذریعے برائی کا خاتمہ کررہے ہوں اور نشادہی کررہے ہو یہ کام حکمرانوں، اداروں کا ہے لیکن افسوس ہمارے حکمران اور ادارے جس قدر پستی میں ہیں اور ان کی سوچ جس قدر منفی ہیں مجھے خوف آتا ہے کہ اللہ کی پکڑ بہت جلد اور سخت ترین ہوگی، ہمارے ملک میں آئے روز زلزلے، طوفان اور دیگر آفات و بلیات بھی انہیں کے کرتوت کی بنا پر ہیں ۔۔!! ہمارے سیاستدانوں کو فوج اور عوام کے خلاف سازشیں کرنا سب سے بڑا اور اچھا عمل لگتا ہے ، سیاسی جماعتوں نے کبھی بھی ملک کی شفافیت اور انصاف کے حصول کو آسان نہیں بنایا ۔۔۔ ۔مجھے حیرت و تعجب ہر گز نہیں اُن چینلز پر جہاں زر خرید صحافی ہوں جو صحافت کے سائے میں زرد صحافت کرکے اپنی دنیا کو دوزخ بنابیٹھے ہیں اور اپنے فرائض منصبی سے غداری کے مرتب ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔!! مجھے خوشی اس بات کی بھی ہے کہ ہمارے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں ایسے صحافی ، اینکرز موجود ہیں جو اپنے فرائض منصبی کو احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں انہیں لوگوں کی بنا پر صحافت عزت و احترام سے دیکھی اور جانی پہچانی جاتی ہے ، صحافت سے حکومتوں کے قبلہ درست ہوتے ہیں اور معاشرہ گندگی سے پاک ہوتا ہے میری دعا ہے کہ اللہ صحافت کے پیشے کو بد نیتی، اقربہ پروری، ناانصافی، بے ضمیری کے مرض سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ رکھے آمین ثماآمین۔۔۔۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناظر رہے آمین۔ پاکستان زندہ باد ،پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔
 
جاوید صدیقی‎
About the Author: جاوید صدیقی‎ Read More Articles by جاوید صدیقی‎: 310 Articles with 244624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.