بلاول بھٹو زرداری کی سیاست

انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بھارت سے سارا کشمیر واپس لیں گے۔ ایک اینچ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ یہ وعدہ بلاول بھٹو زرداری نے سرگرم سیاست میں آنے سے ایک ماہ قبل کیا۔انہوں نے اکتوبر 2014میں سرکاری طور پر سیاست کا آغازکراچی سے کیا۔ ستمبر میں ملتان میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کے دوران کشمیر کو بھارت سے واپس لینے کا وعدہ کیاتھا۔ بلاول بھٹو 2018کے عام انتخابات میں پی پی پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ اس الیکشن میں ان کے مد مقابل عمران خان اور مریم نواز شریف متوقع طور پر وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔

عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ نوجوانوں کی پہلی پسند ہیں۔ یہی دعویٰ بلاول بھٹو کر سکتے ہیں۔ مریم نواز شریف بھی اسی تاثر کی حامی ہیں۔

بلاول بھٹو کی سیاست کا کراچی سے کشمیر تک کا سفر دلچسپ ہے۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی شخصیت اور تقریر میں ان کے نانا جی کی جھلک صاف نظر آئے۔ انہیں اسی انداز میں تیار کیا جا رہا ہے۔ آج نوجوانوں کا دور ہے۔ لیکن پاکستان میں نوجوانوں کو مشرقی روایات سے دبنے کی صلاح دی جاتی ہے۔ مشرقی روایات میں ہم اپنے بڑوں، بزرگوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ان کے سامنے ٹانگ پہ ٹانگ رکھنا ، اونچی آواز، فضول بے تکلفی، اپنی آراء کو زیادہ اہمیت دینا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ بلاول یا مریم نوازاز خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ان کے نام پر فیصلے آصف زرداری صاحب اور میاں نواز شریف ہی کریں گے۔ جب یہاں انتخاب لڑنے کے لئے تعلیمی سندیں پیش کرنے کا فیسلہ ہوا تو کئی سیاستدان نا اہل ہو گئے۔ ان کی جگہ کوئی دوسرا نہ آ سکا۔ بلکہ ان کے ہی بیٹے، بیٹیاں، پوتے پوتیاں میدان میں اتارے گئے۔ مگر حکمرانی کے مزے ان کے بزرگوں نے ہی لوٹے۔ کیوں کہ وہ عبادت کو خدمت کے بجائے تسلط قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ اپنی اولادوں کو بھی منتقل کر رہے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بلاول یا کسی دوسرے سیاستدان کی اولاد روایت سے ہٹنے کی ہمت کر سکے۔ یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی ہی واحد پارٹی ہے جو خاندانی راج کی نفی یا پارٹی ملکیت کو خاندان سے باہر رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مگر عوام اسے اقتدار سے باہر رکھنے سے باز نہیں آ سکے۔ کیوں کہ یہ جمات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ اور اس کی سیاست اپنی جماعت تک ہی سکڑ کر رہ گئی ہے۔ جماعت باہر دیگر لوگوں کو بھی اگر وہ اپنی سیاست میں شامل نہ کریں توان سے عوام کا تعلق بھی روایت سے باہر نہ جا سکے گا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی جماعت کی عملی پالیسی میں اصلاحات پر غور کرے۔

آزاد کشمیر میں انتخابی مہم جاری ہے۔ پی پی پی نے کوٹلی سے اس کا آغاز بلاول بھٹو کے جلسہ سے کیا۔ آزاد کشمیر میں یہ نواز شریف کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے پی پی پی کے منڈیٹ کو تسلیم کیا۔ اسے پانچ سال آرام سے حکومت کرنے دی۔ اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ مگر حکومت کے خاتمہ کے قریب پہنچتے ہی پی پی پی نے ن لیگ کے خلاف محاذ گرم کر دیا۔ یہ تاثر دیا گیا کہ ن لیگ والے آزاد کشمیر کے خیر خواہ نہیں۔ یہ پروپگنڈہ کیا گیا کہ ن لیگ نے آزاد کشمیر کے فنڈ روک لئے ہیں۔ اس کے وزراء مداخلت کر رپے ہیں۔ یہ براہ راست کشمیر کونسل ک فنڈ خرچ کررہے ہیں۔ یہ سب سیاست ہے۔

اسلام آباد میں جو حکومت ہو ، مظفر آباد میں بھی اسی حکومت کا تسلسل ہوتا ہے۔ مگر ن لیگ نے پی پی پی کی حکومت کو برداشت کیا۔ پارٹی پرستی کی عینک اتار کر دیکھیں تو یہ حقیقت نظر آ سکتی ہے۔ مگر پی پی پی اور ن لیگ کے وزراء کے درمیان گالم گلوچ ، غیر مہذب اور نا شائستگی کا تبادلہ ہوا۔انہوں نے بازاری اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کر کے کشمیریوں کے سر شرم سے جھکا دیئے۔ الزامات کی بھرمار ہوئی۔ دلیل اور تعمیری تنقید سے پر ہیز کیا گیا۔ جسے عوام نے نا پسند کیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ ان کی سر گرم سیاست کا دوسرا سال ہے۔ مگر ان کی سیاسی تربیت والدہ کے آغوش میں ہوئی ہے۔ اس لئے ان سے قطعاً توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ حالات کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی روایات پر چلیں گے۔ ہر ایک پارٹی میں ایک مافیا ہوتا ہے۔ یہ اپنے مفاد میں اپنے قائد کی غلط بریفنگ کرتا ہے۔ وہ ٹکراؤ اور تصادم کے لئے اکسانے کا کام کرتا ہے۔ مگرلیڈر صرف جذبات کو نہیں بھڑکاتا۔ وہ مفروضوں کی سیاست نہیں کرتا۔ وہ کان کا کچا نہیں ہوتا کہ ہر جھوٹ کو سچ سمجھ لے۔ اس کا مطالعہ اور تجربہ ، مشاہدہ اور کردار اتنا وسیع اور گہرا ہو کہ وہ پارٹی مافیا کی کٹھ پتلی نہ بن سکے۔ وہ تو حالات کا رخ موڑدیتا ہے۔

کوٹلی سے بلاول بھٹو کو سیاست میں اس لئے اتارا گیا کہ یہاں ایک شہری کی موت کا الزام ن لیگ پر لگایا گیا تھا۔ مفاہمت کے بجائے منافرت کی سیاست ہو تو یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی ہے۔ بلاول بھٹو کا خطاب سننے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں بھی روایتی سیاستدان بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن آج کا نوجوان مدلل اور علمی گفتگو میں دلچسپی لیتا ہے۔ اسے نعرہ بازی، اشتعال، ناچ نغمہ، کشیدگی کا ماحول متاثر نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ یہ سب اس کے مسائل کا حل نہیں۔ اسے روزگار، تعمیر و ترقی، سائنس و ٹیکنالوجی ، غربت میں کمی، قیمتوں میں گراوٹ، بجلی، سڑکیں، تعلیم ، صحت کے قابل عمل منصوبوں سے دلچسپی ہے۔ وہ ہوائی اعلانات کے بجائے میرٹ اور معیار پر توجہ دے رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ دنیا کہا پہنچ گئی اور اسے کہاں الجھایاجا رہا ہے۔ اس لئے اس کا لیڈر ایسا ہو گا جس کے پاس اس کے ان سوالات کے مدلل جواب ہوں۔ میاں نواز شریف کو دو بار مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ پھر بھی ن لیگ کو ہی ووٹ کیوں ملے۔ اس بار بھی مدت پوری نہ کرنے دی گئی تو اب کی بار شاید ن لیگ ہی چوتھی بار اقتدار میں آجائے۔ بلاول بھٹو کے سامنے روشن مستقبل ہے۔ وہ کشمیر کو بھارت سے واپس لینے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اس کا کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔ کیسے وہ بھارت سے کشمیر لیں گے جبکہ انہیں دیگر پارٹیوں ، اپوزیشن سے لڑانے کی راہ پر چلانے کی کوشش ہو ری ہے۔ وہ چاہیں تو پاکستان کی سیاست کو نئی سمت، خدمت کی سوچ دے سکتے ہیں۔ ہمدردی کا ووٹ لینے یا سیاسی شہید بننے کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔03009568439پرایس ایم ایس/واٹس ایپ۔
کشمیری مہاجرین 1989کا وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ۔

آزاد کشمیر حکومت بورڈ آف ریونیو کے نوٹیفکیشن1905-18/2002مورخہ22اکتوبر2002کے مطابق کشمیری مہاجرین1989کا مہاجر کارڈ ہی ان کا ڈومیسائل قراردیا گیا ہے۔ ماسٹرز، ایم ایس، ایم فل، پی ایچ ڈی طلباء کے لئیوزیراعظم پاکستان کی فیس واپسی سکیم کا اطلاق مہاجرین 1989طلباء و طالبات پر نہیں کیا جا رہا ہے۔ چیف سیکریٹری آزاد کشمیر سکندر سلطان راجہ نے ایچ ای سی چیئر مین پروفیسر مختار احمدسے بھی رابطہ کیا ۔ مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ مہاجرین وزیراعظم پاکستان سے اس سکیم میں مہاجرین89 کو شامل کرنے اور مہاجرین کی مفت تعلیم اور علاج کا نوٹیفکیشن جاری کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 488166 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More