آج ثابت ہو گا اکثریت

اترا کھنڈ میں صدر راج نافذ کرنے کو چیلنج کرنے والی کانگریس درخواست اور باغی ممبران اسمبلی کی برطرفی کے معاملے پر نینی تال ہائی کورٹ نے منگل کو اہم حکم جاری کیا ہے ۔کورٹ نے کانگریس کو 31مارچ کو اکثریت ثابت کرنے کیلئے کہا ہے ۔اور اس ووٹنگ میں باغی ممبراسمبلی بھی حصہ لے سکیں گے ۔حالانکہ باغی ممبر اسمبلی کے حصہ لینے سے اتر اکھنڈ اسمبلی اسپیکر کے ذریعے معطل کئے گئے ممبران کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہو گا جس سے اسپیکر اور قانون دونوں کی توہین ہے ۔ہائی کورٹ نے جہاں ایک طرف اکثریت ثابت کرنے کی مہلت دی ہے وہیں اس نے اسپیکر اور اسمبلی کے قانون کو بالائے طاق رکھ دیا ہے ۔جس سے جمہوریت کے تقاضے کو ٹھیس پہنچی ہے ۔ایک طرف تو انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کیلئے کانگریس کے مطالبے کو تسلیم کیا ہے لیکن دوسری طرف اسمبلی اور اسپیکر کی توہین بھی کی ہے ۔اس معاملے میں جسٹس یوسی دھیانی کی سنگل بنچ میں چل رہی سماعت کے دوران باغی ممبران اسمبلی کی جانب سے سپریم کورٹ کے سنیئر ایڈوکیٹ وکاس سنگھ اور دنیش دویدی نے پیروی کی ۔پیر کو تین گھنٹے تک جاری رہی سماعت کے دوران کانگریس لیڈر اور ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی کی دلیلیں سننے کے بعد عدالت نے مرکز کو منگل تک جواب دینے کو کہا تھا ۔مرکزی حکومت کی جانب سے صدر راج لگائے جانے کے پیچھے دلیل پیش کی گئی لیکن کورٹ نے کانگریس کے حق میں حکم دیا اور 31مارچ کو اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کو کہا ۔سپریم کورٹ کے وکیل ایم ایل شرما نے اس معاملے کو لے کر سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کر کے سی بی آئی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے پٹیشن میں کہا کہ اترا کھنڈ میں ممبران اسمبلی کی خرید و فروخت کا معاملہ سنگین ہے اور اس کی جانچ ہونی چاہئے ۔ایم ایل شرما پہلے بھی ایسی رٹ دائر کرتے رہے ہیں ۔سپریم کورٹ میں اس پٹیشن پر اگلے ہفتے سماعت ہوگی ۔کانگریس لیڈر ہریش راوت 34ممبران اسمبلی کے ساتھ پیر کو گورنر سے ملے اور انہوں نے گورنر کے سامنے اپنا موقف رکھا۔دوسری طرف بی جے پی لیڈر اور مرکزی رہنما ارون جیٹلی نے یہ کہتے ہوئے صدرراج کو مناسب قرار دیا ہے کہ ریاست کی کاگریس حکومت جمہوریت کا قتل کر رہی تھی۔مرکزی کابینہ کے اجلاس میں صدر راج نافذ کرنے کا فیصلہ لیا گیاتھا۔

غور طلب ہے کہ کانگریس کی جانب سے کیس کی پیروی سنگھوی اور کانگریس لیڈر کپل سبل کر رہے ہیں ،دونوں وکیل بھی ہیں ۔صدر نے آئین کے آرٹیکل 356کے تحت اس فیصلہ پر دستخط کئے تھے ۔اس کے بعد اتر ا کھنڈ اسمبلی معطل کر دی گئی ۔یہ مکمل واقعہ محض ایک دن پہلے کا ہے ،جب کانگریس کی قیادت والی ریاستی حکومت کو ایوان میں اکثریت ثابت کرنا تھا ۔کانگریس کے رہنماؤں اور راوت نے صدر راج نافذ کرنے کے مرکز کے اس فیصلے کو جمہوریت کا قتل قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جب گورنر نے وزیر اعلی ہریش راوت کو 28مارچ کو اکثریت ثابت کرنے کا موقع دیا تھا،تب مرکزی حکومت نے 24گھنٹے پہلے منتخب حکومت کو برخاست کرنے کی جلدی کیوں کی۔ادھر بی جے پی کی اترا کھنڈ یونٹ نے دعوی کیا ہے کہ وہ اسمبلی میں اب بڑی پارٹی ہے۔اسے اکثریت ثابت کرنے کا موقع دیا جائے۔جب کہ سپریم کورٹ نے بھی صدر راج نافذ کرنے پر اگلے ہفتے سماعت کرنے کو راضی ہے ۔بی جے پی نے کہا کہ وہاں ممبر اسمبلی کی خرید و فروخت ہو رہی تھی اس لئے صدر راج کا نفاذ کیا گیا ہے چونکہ یہ جمہوریت کے لئے قتل کے مترادف ہے۔تو ایک بات یہ بھی ہے کہ اسٹنگ کے بعد ویڈیو کی جانچ ہونی چاہئے تھی اس کے بعد معاملہ کورٹ میں جاتا اور کورٹ ثابت کرتا کہ کون کس کو خرید و فروخت کر رہا تھا اس کے بعد صدر راج کا نفاذ ممکن تھا ۔لیکن یہاں تو ایک دن بھی برداشت نہیں کیا گیا اور محض ویڈیو کی بنیاد پر صدر راج کی سفارش کر دی گئی ۔یہی کمزوری ہے جس کا فائدہ کانگریس کو ہونے جا رہا ہے اور اترا کھنڈ میں کانگریس کو اکثریت ثابت کرنے کا موقع دیا گیا ہے ۔لیکن اسپیکر اور اسمبلی کے قانون معطل کو بھی ایک طرح سے چیلنج کیا گیا ہے جو جمہوریت کے مندر کے لئے ٹھیک نہیں ہے ۔یہ بات دو دو چار کی طرح سیاست میں عیاں ہے کہ وہاں صرف پیسے کا کھیل ہوتا ہے اور یہ بھی عوام جانتی ہے کہ ممبران اسمبلی یا ممبران پارلیمنٹ پیسے کے لئے اپنی غیرت و حمیت اور خاندانی شرافت کے ساتھ ساتھ پارٹی سے غداری کرنے کو بھی جائز مانتے ہیں اور وہ سب کرتے ہیں جو ایک انسانی دل رکھنے والے کے سایانِ شان نہیں ہے ۔پیسے کے کھیل میں عوام کی امنگوں اور آرزوں کا خون ہو رہا ہے ۔عوام نے جس عرق ریزی سے کسی پارٹی پر اعتماد کر کے ووٹ دے کر ایوان میں پہنچایا ہے وہ نا صرف پارٹی سے بے وفائی کرتے ہیں بلکہ عوام کو بھی دھوکہ دیتے ہیں ۔اس لئے باغی ممبران کے لئے پہلے سے بھی زیادہ سخت قانون بنایا جائے تاکہ عوام کے فیصلے کی پاسداری کو یقینی بنایا جا سکے ۔یہ جمہوریت کے لئے ٹھیک نہیں ہے کہ عوام نے جس پر بھروسہ کیا وہی اس کے بھروسے کو توڑ کر دوسری پارٹی میں محض پیسے کی لالچ کے لئے چلا جائے ۔یہاں ہائی کورٹ کو اور سپریم کورٹ اسپیکر اور اسمبلی کے معطلی کے قانون سے بھی زیادہ سخت قانون بنانا چاہئے تاکہ عوام کی امنگو ں پر آنچ نہ آئے اور لیڈران کو ایسا کرنے سے پہلے جنتا کے دربارمیں جانے پر مجبور کیا جائے اور باضابطہ جہاں سے وہ ممبر منتخب ہوا ہے وہاں پھر سے ووٹ کرایا جائے اس کے بعد ہی لیڈران کو آزادی ہو کہ وہ کس پارٹی میں رہے ۔اس طرح باغی ہونے سے تو عوام کے ساتھ دھوکہ ہے اور اس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سخت قانون بنائے جائیں اور اس مسئلہ پر چرچہ عام ہونا چاہئے تاکہ عوام کی آرزوں کا خون نہ ہو۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101932 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.