کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کسی لڑکے کا دل توڑنے
کے لئے کچھ بھی نہیں چاہئے ۔۔۔۔۔ صرف ایک لفظ "بھائی" کہہ دیا جائے۔تو دل
کے ایک بھی نہیں بے شمار ٹکڑے ہو جانا لازمی ہے۔ یا دنیا کی مختصر ترین
ڈراؤنی کہانی یہی کہی جاتی ہے کہ کسی کے بھائی نے کسی اور کی بہن سے اظہار
کرنا تھا اوراس نے آغاز ہی یوں کیا "جی بھائی"
عام طور پر بھائی کون ہوتے ہیں اور کہاں پائے جاتے ہیں۔ تو جناب ماشاءااللہ
سے پاکستان تو اس معاملے میں خاصا خوش نصیب واقع ہوا ہے کہ ہر گھر میں ہی
آپکو " بھائی " ضرور ملیں گے بلکہ میرے اپنے بھائی کے بقول تو صرف پاکستان
میں ہی اتنے بھائیانہ خصوصیات والے بھائی ملتے ہیں۔ بھائی گھر میں موجود
ہوں یا نہ ہوں ۔۔۔۔۔ مگر وہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کی تفسیر بنے گھر میں مل ضرور جاتے ہیں۔
وہ اس طرح کہ امی جی کو انکے لئے کوئی کھانے کی چیز بنا کر رکھنی اور بہنوں
سے چھپا کر رکھنی ہوتی ہے جبکہ آپاؤں کو ان سے جو کام کروانے ہوتے ہیں وہ
گن کر رکھنے ہوتے ہیں اور چھوٹی آپاؤں کو جو فرمائشیں منوانی ہوتی ہیں وہ
سب کو ازبر کروا کر رکھنی ہوتی ہیں۔
جس طرح کچھ حکمرانوں کے جانثار بے شمار ہوتے ہیں اسی طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائیوں
سے کروائے جانے والے کام بھی بے شمار بے شمار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ دادی کی سہیلی کی پک اینڈ ڈراپ سے لے کر دادا کی عینک کی ٹانگ ٹھیک
کروانا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امی کے لئے کریلے، ٹینڈے، گوبھی کی خریداری سے لے
کر دوپٹے کی پیکو،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپا کی نوٹس فوٹو کاپی سے لے کر انکی
سہیلیوں کے لئے آلو چنے ، چنا چاٹ ، پکوڑے، سموسے تک کی خریداری کے بعد اگر
ہمت بچ جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوراگر ہمت نہ بھی بچے تب بھی چھوٹی
بہن کے لئے آئسکریم چاکلیٹ ٹافی پینسل کلرز جیسی بے شمار چھوٹی چھوٹی چیزوں
کی شاپنگ یہ بھائی نامی صاحب روز کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا کر دئے جاتے
ہیں۔
یہ تو وہ کام ہیں جو پھر بھی نظر آتے ہیں مگر کچھ کام اور کارنامے بھائیوں
کے ایسے ہوتے ہیں جو کہ نظر ہی نہیں آتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوں بھی کہا
جاسکتا ہے کہ کسی گنتی میں ہی نہیں آتے۔ جیسا کہ ٹونٹی ٹھیک کرنا، یوپی ایس
کی مرمت، اے سی کی صفائی، واشنگ مشین کی ٹھکائی، ٹوٹے دروازے اور کھڑکیوں
کی مرمت سے لے کر کار واش موٹر سائکل واش جیسے لاتعداد کام بھائیوں کے
ہاتھوں ہی سر انجام پاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے علاوہ ایک سب
سے ضروری کام جو کہ رہ گیا۔۔۔ اپنی آپاؤں کی باڈی گارڈی کرنا۔
اس حوالے سے میرا چچیرا بھائی جو کہ میرے سے بارہ سال چھوٹا ہے اسکا خاصے
رعب سے کہنا ہے کہ بھائی ہمیشہ بڑے ہی ہوتے ہیں چاہے چھوٹے ہی کیوں نہ
ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہنوں کی
سر کی وہ چھت ہوتے ہیں جو زمانے کی مصائب کی بارش اپنے اوپر جھیل کر بہنوں
تک نہیں آنے دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر افسوس صرف تب ہوتا ہے جب انکو اپنی بہن ہی بہن لگتی ہے دوسروں کی بہن
صرف ایک عورت یا لڑکی لگنے لگتی ہے جسکو چھیڑ کو آوازیں کس کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمبر دے کر اشارے بازی کر کے یا بعض اوقات حد سے گری حرکتیں کر کے بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معاشرے کو یہ بتا تے ہیں کہ صرف ہماری بہن ہی بہن ہے۔
دوسروں کی بہن آپکی بہن نہ ہونے کے ناطے،،، گرے ہوئے سلوک کی مستحق
نہیں۔۔۔۔۔۔۔آخر کو ایک عورت کی عزت کرنے کا بھی تو طریقہ سلیقہ سکھایا گیا
ہے۔
اچھی ماں کا بیٹا اور اچھی بہن کا بھائی وہی ہوتا ہے جو اپنی حرکتوں سے یہ
بتاتا ہے کہ وہ دسوروں کی عورت کو کتنی عزت دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھی
بہنیں وہی ہوتی ہیں جو کہ بھائیوں کا احساس کرتی ہیں ناکہ ہمیشہ ہی بھائیوں
کے ظالم اور جابر اور انکے بھلے کے لئے کی جانے والی روک ٹوک پر واویلا کر
کر کے بھائیوں کو ظالم کہتی رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی چند ظالم
بھائیوں کو میڈیا پر دکھا کرباقی بے شمار اچھے بھائیوں کی ظالم کا لیبل
نہیں لگایا جا سکتا۔ |