1- جب آپ کسی کو اس کا غم یا صدمہ بھلانے
کے لیئے تسلی یا دلاسہ دے رہے ہوں تو اس وقت ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ
دنیا بھر کے الفاظ جیسے ختم ہوگئے ہیں یا بے اثر ہو کر رہ گئے ہیں ؟؟؟
یا پھر ........
دلاسہ دینا ایک ایسا فن ہے جس کی تربیت کوئ ادارہ نہیں دیتا بلکہ اسے خود
قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے کہ جسے چاہے نواز دے اور جسے چاہے محروم
کردے !
بے بسی کے اس عالم میں رہ رہ کر بس یہی خیال آتا رہتا ہے .
خلق الانسان ضعیفا
2- انتظارکہنے کو تو یہ ہے ہی کیا ، محض چھ حرفی لفظ ہی فقط !
مگر جہاں آفریں کی تجلی سے مالا مال ہے. انتظار کی کیفیت ہمہ جہت صفات کی
حامل ہے.
محبوب کی آمد کا انتظار ہو تو مینہ کی رم جھم ہو یا بوندوں کی ٹپ ٹپ ،
کلیجے کی دھک دھک ہو یا کوئل کی کو کو ، چڑیا کی چوں چوں ہو یا رہٹ کی روں
روں سب ایک ہی افسوں محبت پھونکتے نظر آتےہیں ، وقت کا سیل رواں گویا تھم
سا جاتا ہے ، سوز و ساز جگر ، خفقان کی چوٹی کو سر کرتے دکھائ دیتے ہیں ،
انتظار کی گھڑیاں بت کی طرح خاموش مگر تلوار کی طرح دھاری دار ہوتی ہیں !
محبوب کی ملاقات کا مژدہ سننے کےلئیے دل کی حالت ماہئ بے آب کی سی ہورہی
ہوتی ہے یا بپھری موجوں کے رحم و کرم پر ڈولتے اس سفینے جیسی جو اب ڈوبا کہ
تب ڈوبا !
انتظار ، زمانے کی ایسی رو ہے جس میں دن ہےنا رات !
خواہ تم مانو یا نہ مانو !
3- دل کی ایک کیفیت ایسی بھی ہے جو زندگی کی تمام تر رعنائیوں پر خاموشیوں
کی دبیز چادر تان کر اسے ویرانیوں کے وحشت بھرے جنگل میں دھکیل کر بھٹکنے
کےلئیے تنہا چھوڑ دیتی ہے !
جس کے سناٹے دنیا کا بے ہنگم شور بھی نہ توختم کر سکتا ہے اور نہ ہی کم .
اور وہ ہے " اداسی "
4- صلہ رحمی ایسی بہار کی نوید ہے.جس میں ہر طرف پھول ہی پھول کھلے ہیں ،سفید،
سرخ، نیلے، پیلے، اودے، جامنی .....
ایک ایسا مینہ جو سینے میں لگی بےکلی کی آگ پر پھوار بن کر برسے اور بلکتے
دل کو تھپک تھپک کر اطمینان کی نیند سلادے.
خوشی ، مسرت، شادمانی بظاہر اتنے چھوٹے چھوٹے لفظ کہ چند انچ جگہ میں سما
جائیں مگر اتنے وسیع المعنی کہ زمین و آسمان کی وسعتیں ان کو سمونےسے عاجز
آ جائیں.
اس باد نسیم کی طرح کہ جب چلنا شروع ہو جاتی ہے تو اپنے ساتھ زندگی کی
کلفتیں یوں اڑا لے جاتی ہے جیسے پانی کا تیز رفتار ریلا خس و خاشاک کو بہا
لے جاتا ہے.اور بے نام و نشان کر دیتا ہے.
رات کی وحشت بھری تاریکی کو دن کی طرح روشن کردینے کا طلسم لئے ہوئے ...
جہاں آفریں کی ایسی نعمت ، جس کا وجود اس خارستان دنیا کو افسون محبت پھونک
کر چمنستان بنائے رکھتا ہے.
اور ستم کی جارحیت کے مقابلے میں جاروب کی تاجوری کا اعزار ازل سے اپنے نام
کیے ہوئے ہے ،
مگر ذرا سنبھل کر کہ ہر کیفیت کی طرح یہ جذبہ بھی دو شاہراہوں کی طرف
رہنمائ کرتا ہے.....
یا تو راکش بن جاو یا پھر راکع !
بسا اوقات زندگی ہمیں ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے کہ سامنے گہری کھائ نظر
آرہی ہوتی ہے اور اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو پتھر کے ہو کر رہ جائیں !
راتوں کی نینیدیں اڑ جانا ، شاعرانہ گفتگو کا پیراہن اوڑھ لینا ، من کے
مندر میں اداس گھنٹیوں کا بجنا، نظروں کے دیپ بجھ جانا ، بھری دنیا میں خود
کو تنہا محسوس کرنا ، خالی الذہنی کا عارضہ لاحق ہوجانا .....
آخر یہ اتنی ڈھیر علامات کس مرض کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں ؟؟؟؟؟؟
5- جس طرح ہر صنف نازک ، صنف نازک نہیں ہوتی بالکل اسی طرح سب صنف مضبوط
بھی صنف مضبوط نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات نزاکت میں صنف نازک کو بھی مات دے
دیتے ہیں ! |