تخلیہ پر ڈاکہ زنی

آج ملک کے حالات اس قدر دگر گوں ہیں کہ کہنا مشکل ہے ۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ کسی بھی جمہوریت کیلئے ذرائع ابلاغ چوتھا ستون کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اس طرح اپنا کردار ادا کرتا ہے کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو اور دل آزاری بھی نہ ہو ۔اسی لئے ذرائع ابلاغ کو آزاد رکھا گیا ہے ۔لیکن کچھ ایسے عوامل ہیں جس کی وجہ سے کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ جانب داری کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ غلامی کے شکار ہیں تو کبھی ایسا لگتا ہے کہ پیڈ نیوز کی ہوڑ لگی ہے ۔یہ سب حرکات پر عوام کی پینی نظر ہے وہ ان سے بے خبر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی خبر نگاری کو ان کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ عوام بخوبی اس کا اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ خبر کس نوعیت کی ہے اور اس کے پیچھے کیا راز پنہا ہے ۔بھلے ہی یہ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کریں لیکن آج کا ہر ہندوستانی ان کی کارستانی سے بہت اچھی طرح واقف ہے اور ہونا بھی چاہئے ۔جب جعلی ویڈیو کی بات سامنے آئی اور اس سے چھیڑ چھاڑ کی فارنسک رپور ٹ دنیا کے سامنے آگئی تب بھی بہت سے نیوز چینل انتہائی بے شرمی کے ساتھ اس کے آزالے کے لئے کچھ متعین افراد سے صفائی بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم سماج کے خیر خواہ ہیں ۔لیکن ان کے رویہ سے تو ایسا کہیں محسوس نہیں ہو رہا ہے بلکہ ان کی شر انگیزی میں اور شدت آگئی ہے ۔حد تو تب ہو گئی جب جے این یو کے کلاس روم میں طلبہ اور اساتذہ کے درمیان چل رہے لیکچر اور سوال و جواب کو دنیا کے سامنے عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔حد تو تب ہو گئی جب ٹیچر اور طلبہ کی گفتگو پر تبصرہ بھی کیا جانے لگا ۔وہ اپنی ان حرکتوں سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اس سے سب واقف ہیں ۔کسی کی محبت میں اس قدر گرنا یہ کہاں کی دانشمندی ہے ۔کون شخص ایسا ہے جو اپنی حکومت کو نہیں چاہتا ہے ۔ملک میں جو بھی حکومت ہوہر ہندوستانی کو اس سے فطری لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے چاہے وہ اس کی سیاسی مخالف کی ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ بھی اس قدر محبت نہیں کرتا ہے جس سے ملک کی امن و آمان میں خلل پڑے اور کسی خاص ادارے کی بدنامی ہو ۔کوئی ان سے یہ پوچھے کہ آخر آپ جے این یو کے پیچھے کیوں پڑے ہیں کیا ملک کا قانون اس کی اجازت دیتا ہے کہ کسی کی تخلیہ پر ڈاکہ ڈالا جائے ۔کلاس روم میں ٹیچر لیکچر دے رہے ہیں اور طلبہ سوالات کر رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر یونیورسٹی میں یہی طریقہ رائج ہے ۔چونکہ اساتذہ روحانی باپ کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے طلبہ ان سے ہر طرح کے سوالات کرتے ہیں بعض اوقات تو طلبہ اپنے گھریلو سوالات بھی کرتے ہیں اور اساتذہ اس کا جواب بھی دیتے ہیں یہ نہیں کہتے کہ یہ ہمارے مضمون کا حصہ نہیں ہے بلکہ وہ ان کے مسائل کو سنتے ہیں اور اس کا بہترین جواب دیتے ہیں ۔یہ پوری دنیا میں رائج ہے بلکہ کئی جگہ تو طلبہ اور اساتذہ میں روحانی رشتہ کے ساتھ جذباتی اور کبھی کبھی خاندانی رشتہ سے بھی ایک دوسرے سے منسلک ہو جاتے ہیں ۔اب اگر کوئی ان کی تخلیہ میں جاکر رپورٹنگ کرے تو انتہائی گری ہوئی اوچھی حرکت ہے اس سے پرہیز کرنا چاہئے ۔یہی تو تعلیم کا طریقہ ہے جس سے انسان کو ایک انسان بنایا جاتا ہے تعلیم کا مقصد تو یہی ہے کہ ان کی بھر پور تربیت کی جائے ان کے تمام سوالات کا جواب دے کر انہیں مطمین کیا جائے ۔اس لئے ذرائع ابلاغ کو اپنے حدود کا خیال رکھنا ہوگا نہیں تو ہندوستان کی تعلیمی ادارے بری طرح متاثر ہوں گے اور طلبہ کی زندگی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گی ۔اب سرکار کو چاہئے کہ ایسے نیوز چینل پر سختی کے ساتھ کارروائی کی جائے جو اس طرح کی حرکت کر رہے ہیں ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 112665 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.