واقعہ معراج النبی ﷺ اور ہماری زندگی
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
" پاکی ہے اُسے جو اپنے بندے کو راتوں رات
لے گیا مسجد ھرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرد ہم نے برکت رکھی، ہم نے اسے
اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا ہے۔ـ" سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر
1، پارہ 15) اسی طرھ سورہ النجم 27پارہ میں پہلی 18آیت میں مسلسل معراج کا
واقع بیان کیا گیاہے۔ کیا رات ہے وہ۔۔۔؟؟؟ کیا عظمتیں ہیں اس رات کی ۔۔۔؟؟؟
سورج نے اپنے پردوں میں غروب ہونا تھا کہ قمرنے پرشگاف آسمان میں اپنا نوری
چہرہ باہر نکالاتو رجب المرجب کی 27ویں رات نے اپنے وجود کو ظاہر کیا، اس
رات کا وہ مختصر حصہ مقرر کیا گیا تھا کہ سرور کائنات ، آقائے دوجہاں، فخر
موجودات، شہنشاہ نبوت، نور مجسم ، سرور دو عالم ، سرور کشور رسالت حضورنبی
کریم ﷺ کو 18ہزار عالم یا 40ہزار عالم کی سیر اور سیر بھی ایسی کہ آسمانوں
کی وسعتوں سے آگے نکل کر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچ گئے اور یہ ہی نہیں بلکہ
وآپس اس مادی دنیا میں آئے تو دروازے کی کُنڈی ہل رہی تھی اور بسترا بھی
ویسے ہی گرم تھا۔ اس رات پورے عالم میں ایک خاموشی طاری تھی مگر عالم بالا
میں دھومیں مچی ہوئیں تھیں، سماوات پر تشریف آوری سلطان کا غلغلہ بلند
ہے،یہاں زمین میں وہاں فلک پہ دھومیں مچی تھیں ، ادھر سے انوار ہنستے آتے،
ادھر سے نصحات اُٹھ رہے تھے، یہ ہی سماں تھا کہ کائنات کی گھڑیا ں گویا
جیسے رُک سی گئی ہوں ، ہوا چلنے سے رکی، کوا کب کی گردش ختم ہوئی، رضوانِ
جنت نے جنت کی آئینہ بندی کی، درِ دوزخ بندکر دیئے گئے، جنت کے سارے
دروازوں کو کھول دیا گیا،آسمانوں کی وسعتوں کو سمیٹ کر رکھ دیا گیا، ماحول
میں عطر امنبر کی خوشبوؤں کو بکھیرا گیا، عرش و کرسی کو لباس نور سے زیب تن
کیا گیا، حورانِ مہ جبیں آراستہ و پیراستہ ہو کر ہاتھوں میں طبق زرد جواہر
اٹھا کر غرف جنت میں صف بستہ کھڑی ہو گئیں کہ شاہد ِ عالم آج مہمان بن کر
آنے والے ہیں۔روح الامین کو حکم ہوا کہ وہ سواری جو بجلی سے زیادہ تیز گام
اور روشنی سے زیادہ سُبک خرام ہے ، جو خطہ لاہوت کے مسافروں کے لیے مخصوص
ہے حر م ابراہیم (کعبہ) میں لے کر حاضر ہوں ۔ کارکنا ں عناصر کو حکم ہوا کہ
مملکت آب و خاک کے تمام مادی احکام و قوانین معطل کر دیئے جائیں اور زمان و
مکان و اقامت ، رویت و سماعت، تخاطب و کلام کی تمام طبعی پابندیاں اُٹھا دی
جائیں۔جبرائیل امین نے اپنے کافوری ہونٹ قدم پاک نبویﷺ پر رکھ دیئے اور
کافور کی ٹھنڈک سے چشم دلنواز عجیب انداز سے کھلی۔ پھر حضور ﷺ چاہ زمزم کے
قریب لائے گئے وہاں آپ ﷺ کے سینہ اقدس کو چاک کیا گیا اور ایمان اور حکمت
سے بھر دیا گیا شق صدر بھی عجب شان سے ہوا نہ کسی نشتر کا استعمال ہوا اور
نہ کسی قسم کی تکلیف ، یہ شق صدر سیر ملکوت اور دیدار باری کیلئے ایک قسم
کا وضو تھا۔ 70 ہزار ملائکہ کا ایک نوری قافلہ حاضر خدمت تھا، سواری کے لیے
براق پیش ہوا، آپ ْ نے براق پر سوار ہونے کا قصد فرمایا تو اس نے شوخی کی
جبرائیل علیہ سلام نے فرمایا کیوں شوخی کرتا ہے تیری پُشت پر حضور نبی کریم
ﷺ سے زیادہ خدا کے نزدیک کوئی دوسرا محبوب سوار نہیں ہوا۔ یہ سن کر براق
پسینہ پسینہ ہو گیا۔ براق گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک سفید رنگ کا
جانور تھا، اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا ہر قدرم وہاں پڑتا
تھا جہاں نگاہ کی آخری حد ہوتی ہے۔ (ترمذی ۔ مسند احمد) اب لامکاں کا سیاح
، اسریٰ کا دولہا، نائب ِ پروردگار، حاکم کائنات، متصرف موجودات سید
الانبیاء حضرت محمد عربی ﷺ سواری پر سوارہوکر ملائک کے نوری جلس کے ہمراہ
نہیایت شان بان کے ساتھ سفر شروع کیا، نورانی سواری چلی ، حد نظر پر دوسرا
قدم پڑ رہا تھا، فضاؤں میں وہ گل کھلے تھے کہ سار ا سماں مہک رہا تھا، آج
افلاک پر عجب چہل پہل ہے، ساکنان سماوات ، دیدار پرُ انوار و شوق قدم بوسی
کیلئے بیتاب ہیں ، حوران بہشتی کے نورانی چہرے خوشی و مسرت سے دمک رہے ہیں،
آج آسمان پرکس نے قدم رکھا ۔۔۔ہر آسمان پر انبیاء استقبال می کھڑے ہیں ۔۔۔پہلے
آسمان پر حضرت آدم علیہ سلام، دوسرے پر حضرت حضرت یحییٰ علیہ سلام اور حضرت
عیسیٰ علیہ سلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ سلام، چوتھے آسمان پر حضرت
ادریس علیہ سلام،پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ سلام، چھٹے آسمان پر
حضرت موسیٰ علیہ سلام ملے سب نے کہا خوش آمدید ہو صالح بھائی اور صالح نبی
مگر اب باری آتی ہے ساتویں آسمان کی وہا ں پہنچے تو شیخ الانبیاء خلیل اﷲ
حضرت ابراہیم علیہ سلام جو بیت المعمور سے پیٹھ لگائے بیٹھے تھے ، آپ ﷺ خود
چل کر ابراہیم علیہ سلام کے قریب پہنچے تو ابراہیم علیہ سلام اُٹھ کھڑے
ہوئے تو انھوں نے کہا کہ خوش آمدید صالح فرزند اور صالح نبی ۔۔۔پھر جنت و
دوزخ کے عجائب اور ملکوت کے غرائب کا مشاہدہ فرماتے ہوئے آپ سدرۃ المنتہیٰ
پر جلو ہ فرما ہوئے ، سدرۃ المنتہیٰ وہ مقام ہے جہاں سے جبرائیل علیہ سلام
آگے نہیں جاسکتے اسی لیے انہوں نے عرض کی کہ حضور ﷺ ہمارے سب کیلئے ایک جگہ
مقرر ہے جسکے آگے نہیں بڑھ سکتے، روح الامین علیہ سلام سے بازو چھٹا، وہ
پہلورکاب چھوٹی ،امید چھوٹی ، نگاہ حسرت کے ولولے تھے، اﷲ اکبر ۔۔۔!
جبرائیل علیہ سلام بھی آگے نہ بڑھ سکے عرض کر دی حضور ﷺ میری حد ختم ہو گئی
میرے بازو تھک گئے معلوم ہوا کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائین اور روح
الامین ﷺ کی حد ختم ہوجائے وہاں سے حضور نبی کریم ﷺ کی پرواز شروع ہوتی ہے
۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا" جبرائیل کوئی حاجب ہو تو ہماری بارگا ہ میں عرض
کرو"(مواہب لدنیہ،ج۲،ص۲۹)تو جبرائیل نے عرض کی :سرکار ﷺیہ مانگتا ہوں کہ
قیامت کے دن پُل صراط پر آپ ﷺ کی امت کیلئے اپنے بازو پھیلا سکوں تاکہ حضور
ﷺ کا ایک ایک امتی آسانی سے پل صراط سے گزر جائے۔ پورے سفر کا ایک تحفہ
ہمارے لیے لے کر آئے وہ ہے نماز جو پچاس لے کر آئے راستے میں سے وآپس جا جا
کر پانچ کروائی ۔۔۔اور آخرمیں بولا کہ اب مجھ کو حیا آتی ہیکہ میں پانچ
نمازیں بھی بخشوانے کے لیے جاؤں ۔۔۔اور ہم ہیں کہ ہم کو پانچ نماز یں پڑھنا
بھی بہت بھاری ہیں روزانہ مسجد میں پانچ وقت صدائیں بلند ہوتی ہیں اور ہم
غافل پڑے سوئے رہتے ہیں ۔۔۔اُٹھو ۔۔۔نماز کی طرف ۔۔۔ تاکہ اس نایاب تحفہ کے
کا حق ادا کر سکیں ۔۔۔کیونکہ نماز ہمارے نبی کریم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔۔۔ |
|