درندگی-1

پچھلے ادوار پر نظر دوڑائیں تو فرعون٬ نمرود اور شداد نظر آتے ہیں پھر سکندر اعظم اور نزدیک آئیں تو چنگیز خان اور تاتاری ملیں گے اور قریب آئیں نپولئین٬ بونا پارٹ٬ لینن اسٹالن اور ہٹلر پھر امریکی بد معاشی۔

گیارہویں بارہویں صدی کے درمیانی عرصہ میں ایک نئی درندگی کی ابتدا مغربی یورپ میں عیسائی شدت پسندی اٹھی جس کا رخ مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام تھا صلیبی جنگی جنون پیدا ہوا جس میں ان مغربی شدت پسندوں کو شکست فاش ہوئی اور مسلمان فاتح کی حیثیت سے ترکی اور مشرقی یورپ تک اپنی سرحدات میں شامل اور اسے مضبط کرنے میں کامیاب ہوئے اور یورپ پر انکا اقتدار پانچ صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہے اگر مسلمان حکمران ایسی ہی درندگی عیسائی شدت پسندی اپناتے تو کیا خیال ہے کہ آج یورپ یا اسکے حاشیہ بردار اس قابل رہتے کہ آج اتنے مضبوط ہوتے۔

مغرب نے صلیبی جنگ سے یہ نتائج اخذ کیے کہ مسلم قوتوں سے براہ راست جنگ ممکن نہیں ہے ان میں سازشوں اور انتشار پیدا کر کے قابو پایا جا سکتا ہےاور یہ سلسلہ شروع ہوا اور عثمانی سلطنت کے علاقوں میں مداخلت اور تعصب کو فروغ دے کر ینگ ترک نامی تنظیم کو ابھارا اور عربوں کو ترکوں سے لڑوا کر عرب علاقوں پر قبضہ کر کے بلآخر خلافت کا خاتمہ کر دیا جو مغرب کے رستے پر ایک بڑی رکاوٹ تھی اور مسلمان ریاستوں کے معدنی وسائل کو لوٹنے میں حائل ہو سکتی تھی۔ اس کے خاتمہ کے ساتھ ہی ان مغربی درندوں کا رخ پوری توجہ سے مسلمانوں کی طرف ہو گیا۔ اور آج تلک جاری و ساری ہیں۔

اس درندگی کی انتہا امریکی لٹل بوائے اور فیٹ مین نے پوری کر دی کہ لاکھوں انسان پلک جھپکتے میں موت کی نیند سلا دئے گئے اور لاکھوں زندگی بھر کے لئے معذور کر دئے گئے ابھی دنیا اس بھیانک دہشت گردی کے سکتے میں مبتلا تھی کہ مغربی دہشت گردوں نے ایک اور خونی منصوبہ تشکیل دیا جن میں مسلمانوں کو جانی مالی نقصان سے دوچار کرنا تھا لوگ اپنے جدی پشتی جائیداد اور املاک سے محروم ہوئے ایک طرف بر صغیر کی تقسیم کا منصوبہ اور ہندو مسلم فسادات کے لئے ماحول ہندووں کے لئے سازگار بنانا اور ایسی کمزور ریاست کا قیام جو بھارت میں ضم ہوکر جلد اپنا وجود کھو بییٹھے۔ ایک طرف عرب خطے میں اسرائیل کی مضبوط ریاست کا قیام تھا اور کمزور عرب ریاستیں جو بالآخر اسرائیل میں ضم ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھیں۔

دونوں اہداف مشترک مقصد ایک بس مسلم قوت کا شیرازہ بکھیرنا اور اسکی کمر توڑ کر معزور کرنا کہ وہ اس قابل ہی نہ رہ سکیں کہ یورپ یا ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کر سکیں یورپ اور ہندوستان پر انکا اقتدار پانچ صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔

پاکستان کے قیام کے موقع پر بڑی منصوبہ بندی سے لاکھوں مردوں عورتوں اور پچوں کو تہہ تیغ کر کے انکی املاک پر قبضہ کر لیا۔ اور زندہ پچ جانے والوں کو منقسم پاکستان میں لوٹ کر دھکیل دیا۔

اسی طرح فلسطینی مسلمانوں پر ایسی ہی یلغار کر کے انکا قتل عام کیا گیا اور انکی املاک پر قبضہ کر کے انہیں کیمپوں میں قیام کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔

اگر مسلمان حکمران اپنے دور اقتدار میں ایسی ہی درندگی اپناتے تو کیا خیال ہے کہ آج یورپ یا اسکے حاشیہ بردار اس قابل رہتے کہ آج اتنے مضبوط ہوتے۔

اس طرح اس درندگی مں دو نئے کردار سامنے آئے ایک اسرائیل دوسرا ہندوستان جنہوں نے پچھلے تمام مظالم کو مات کر کے مسلمانوں کو درندگی کے نئے طریقوں سے قتل وغارت سے دوچار کرنا ہے۔

قدرت الله شہاب نے شہاب نامہ میں لکھا کہ جب پارٹیشن پلان کا اعلان تین جون انیس سو سینتالیس میں ہوا۔ تو ہندو مہا سبھا نے اعلان کر دیا کہ ہندوستان واحد اور غیر منقسم ہے جب تک الگ کیے ہوئے علاقوں کو انڈین یونین میں واپس لا کر انہیں مکمل حصہ نہیں بنایا جاتا اس وقت تک امن قائم ہرگز نہیں رہ سکتا اسی طرح کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا تو اس نے تقسیم ہند کے سانحے پر بڑے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا گیا اور بڑے وثوق سے اس امید اور عزم کا اظہار کیا گیا کہ یہ عارضی بندوبست ہے جو وقت کی مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے ناگزیر ہو گیا تھا۔ وہ وقت دور نہیں جب بھارت ایک بار پھر متحد ہندوستان بن کے ابھرے گا۔

اقتدار کانگریس کے پاس ہو یا اسکی مخالف جماعت کے پاس اس نصب العین کو پورا کرنے کی پابند ہے بھارت ہمارے ساتھ خیر سگالی کی بات کرے یا تعلقات معمول پر لانے کا آغاز کرے تجارتی لین دین ہو یا ثقافتی ہیر پیر ہو ہر شعبہ میں بھارتی حکمت کی سڑک ایک اور صرف ایک منزل کی طرف جاتی ہے اور وہ ہےاکھنڈ بھارت۔

ایوب٬ بھٹو٬ ضیاء اور مشرف اپنے ادوار میں اس کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے میں بہت سنجیدہ کوششیں کرتے رہے لیکن ہندوستان نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نہ مانوں کا ہمیشہ ورد کیا۔ اور کشمیریوں کا قتل عام اور تشدد زور معمول ہے بلکہ بعض اوقات اپنی لمٹ سے بھی بڑھ کر اس مسئلہ کا حل تجویز کیا جو قابل اعتراض بھی تھا لیکن ہندوستان نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔

اسی طرح اسرائیل کے قیام ہیگناہ نامی انڈر گراؤنڈ عسکری تنظیم قائم کی جو خفئیہ طور پر مسلمان لیڈروں کا قتل عام کرتی رہی رات کی تاریکیوں میں اچانک پوری پوری مسلمانوں کی آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی۔ اس سے نقل مکانی ہوئی اور مسلمان اپنی ہی سرزمین پر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دئے گئے۔

ہیگناہ نامی جوئیش پری ملٹری آرگنائیزشن کا قیام عمل میں لایا گیا جو1909میں قائم ہوئی یہ فلسطین میں نقل مکانی کرنے والے افراد کا چھوٹا سا گروہ تھا شروع میں اسکے ممبر بہت تھوڑی تعداد میں تھے اور سالانہ فیس دیتے تھے پھراچانک اس کے ممبران کی تعداد سو سے زائد ہو گئی۔ یہ لوگ یورپی یہودیوں کو فلسطین آنے پر راغب کرتے تھے۔ پھر جب برطانوی فوجیں1917میں فلسطین سے ترکی فوج کو علاقے سے نکالے فلسطین میں داخل ہوئیں تو علاقے میں یورپی یہودیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ جنہوں نے بڑی بڑی زمینیں خریدیں اور زرعی اور تجارتی شعبے پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس پر انیس سو بیس اور اکیس1920-21 میں مسلحہ کشمکش شروع ہوئی اور خونریز فسادات شروع ہو گئے۔ جس میں ہیگناہ نے بڑھ چڑ کر حصہ لیا اور مقامی آبادی پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگے برطانیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا رہا۔

ایسے میں جنگ عظیم دوئم شروع ہو گئی ایسے میں ہٹلر کی فوجیں جو مشرق وسطی میں برطانیوں کو خطہ سے نکالنے آئیں مقامی آبادی نے بالکل تعاون نہیں کیا اور برطانیہ نے یہودیوں سے افرادی قوت کی درخواست کی تو ہیگناہ نے پانچ ہزار کی ٹرینڈ افرادی قوت فراہم کر دی اس طرح اٹلی اور جرمنوں کو شکست دی گئی۔

اب ہیگناہ نے پالمچ کے نام سے1941 ایک کمانڈو سیکشن قائم کیا اس میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل تھیں ان کو برٹش فورسز نے تربیت فراہم کی اس کا کام سبوتاژ کرنا تھا پھر برطنیہ نے اسکی سرپرستی سے1943 ہاتھ اٹھا لیا 1947 میں اسکی سیتالیس بٹالین ہو گئیں۔

جنگ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر یہودی لائے جاتے رہے اور برطانوی احجاج کے باوجود ہیگناہ کے ان لوگوں کو فلسطین میں لاتی رہی۔

جنگ کے دوران یہودی جن کی تعداد تیس ہزار تھی قبرص سے لا کر آباد کیا گیا اب ہیگناہ کے پاس وہ افرادی قوت بھی آ گئی جو جنگ عظیم میں برطانوی فوج کے ساتھ لڑی تھی۔

ہیگناہ کے سرکردہ لوگوں میں قابل ذکر ممبر اسحاق رابن۔ایرل شیرون۔ارہاوا۔ لوئی وی ڈوزو۔ وشے دایان۔ ڈاکٹر روتھ ویلتھیمر۔ ہیگناہ میں تین ونگ بنائے گئے۔ یہودی آباد کاروں کی پولیس۔ یہودی اضافی عسکری قوت۔ راتوں کے مخصوص گروہ۔ ہر ایک کے زمہ اپنے مقاصد تھے۔

انہوں نے مل کر نہتے اور بےگناہ فلسطینیوں کا منظم قتل عام کیا کہ انسانیت شرما جائے۔

صابرہ شتیلہ کے پناہ گزینوں کے کیمپوں کا گھیراؤ کر کے قحط جیسے المیے سے دوچار کیا اور پھر ان تمام پناہ گزینوں کو موت کے گھاٹ اتار کر راتوں رات بلڈوزروں کی مدد سے اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا۔ یہ درندگی کی عبرت ناک مثال ہے جس کی حمایت یہ درندے اس شان سے کرتے ہیں۔ اسرائیل کی کوئی مذمت نہ کی گئی۔

اسی طرح کشمیر میں حضرت بل کے واقعے پر مسلمانوں کے احتجاج کو فوجی قوت سے کچل کر ہزاروں کشمیریوں کو موت کی نیند سلا دیا بلکہ پاکستان پر مداخلت کا الزام عائد کر کے درندہ ریاستوں سے آشیر باد حاصل کی۔ مشرقی پاکستان میں مداخلت کر کے وہاں انتشار کی کیفیت پیدا کر دی۔ اور عسکری یلغار کر کے پاکستان کے ٹکڑے کر دئے۔ بر صغیر میں کشمیر کا مسئلہ چھوڑ دیا جو آج تک حل طلب ہے اس کی آڑ میں ان درندوں نے جی بھر کھل کر انڈیا کی اسرائیل کی طرح مدد کی۔ اس کی عسکری اور دفاعی صلاحیت کو مضبوط کیا مسئلہ کشیر میں انسانیت سوز مظالم پر بھی آنکھیں بند کیے رکھیں۔ اسرائیلی اور ہندوستانی ایٹمی سائنسدانوں کی ایٹمی تربیت جاری رہی۔

ان دو درندہ صفت ریاستوں کی ضرورت مغرب اور امریکہ کو تھی کہ وہ مسلم قوتوں کو الجھ کر رکھیں تاکہ جنگ عظیم کے زخم مندمل کریں اور عسکری کمزوری جس کا انہیں ہٹلر سے جنگ کرنے کے بعد ہوا اپنی وار مشینری کو اتنا مضبط کر لیں کہ مستقبل میں انہیں کوئی چیلنج نہ کر سکے۔ یہ درندے اس کوشش میں کتنے کامیاب رہے۔ یہ مسلمان حکمرانوں کے لئے عبرت کا مقام ہے۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75631 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More