قصور

ہائے مام !
مانی نے حسب معمول گھر میں داخل ہوتے ہی کہا. ...
ہاو آر یو ڈئیر؟
ماما نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا. وہ اس کے آنے سے پہلے ہی کھانے کی ٹیبل سجا چکی تھیں.
وہ بھی فریش ہوکر آگیا. خنک ماحول میں کھانا کھایا گیا. ماما اس کی مصروفیات پوچھتی رہیں اور وہ حسب سابق ہوں ہاں میں جواب دیتا رہا....
چونکہ اب وہ اس کے رویے کی عادی ہوچکی تھیں.سو انہوں نے اس کی سرد مہری کو نظر انداز کردیا.
برائے نام کھانا کھا کر مانی اپنے کمرے میں جا چکا تھا. وہ بھی کچن سمیٹ کر اپنے بیڈ روم میں آگئیں.ایک بیٹے کی ماں ہوکر بھی وہ تنہا تھیں.دل مامتا کے جذبات تو رکھتا تھا مگر اس کے اظہار کا کوئ راستہ نہ تھا، انہی خیالات میں گم وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئیں.
----------------
کچھ دن سے مانی انہیں کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا ، مگر وہ اس کی کیفیت کو سمجھ نہیں پارہی تھیں.
السلام علیکم و رحمہ اللہ وبرکاتہ،
یہ اجنبی سے کلمات سن کر وہ تو مارے حیرت کے کچن سے باہر ہی آگئیں.مانی نے آگے بڑھ کر ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیئے. ان کی پیشانی پر بوسہ دیا .کیسی ہیں میری پیاری مام؟
ان کی حیرانی کو محسوس کرکے وہ ہنس دیا اور موضوع بدلتے ہوئے بولا.
جلدی آئیں کھانا کھاتے ہیں ، بہت بھوک لگی ہے.
وہ میکانکی انداز میں چلتی ہوئ ٹیبل تک آئیں . مانی نے ان کے لیئے نہ صرف کھانا پلیٹ میں نکالا بلکہ خود نوالے بنا کر انہیں کھلانے لگا.
میں کوئ خواب دیکھ رہی ہوں کیا ؟
انہوں نے خود کلامی کی !
نجانے کیوں نوالے ان کے حلق میں اٹکنے لگے تھے.وہ اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھیں...
کھانے سے فارغ ہو کر مانی نے خود ہی ٹیبل سمیٹی اور ان کو کندھوں سے پکڑ کر ان کے بیڈ روم میں لے آیا .وہ بیڈ پر بیٹھیں تو مانی ان کے قدموں میں بیٹھ گیا . انہوں نے گھبرا کر پاوں سمیٹنے چاہے تو اس نے ہاتھ بڑھا کر ان کے پاوں تھام لئیے.
اس دوران وہ خود کو کچھ سنبھال چکی تھیں ، سو پوچھنے لگیں .
مانی ، مائے سن ! تم ٹھیک تو ہو ناں ؟ کچھ دن سے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی !
ان کا اتنا کہنا تھا کہ وہ ضبط کھو بیٹھا اور ان کی گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا.
وہ مزید پریشان ہوگئیں !
کیا ہوا بیٹا ، کچھ تو بتاو، کوئ تکلیف ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں....وہ اس کے بال سہلانے لگیں.
سارا غبار آنسوؤں سے دھو چکا تو سر اٹھا کر ماں کو دیکھا،
سوری مام ! مجھے معاف کردیں، میں نے آپ کو ناحق پریشان کیا..
وہ... دراصل بات یہ ہے کہ کچھ دن قبل مجھے نوٹس کے سلسلے میں اپنے کلاس فیلو اسامہ کے گھر جانا پڑا.تو اس کی امی کے اخلاق نے مجھے اپنا گرویدہ ہی بنا لیا. نہ چاہتے ہوئے بھی میرے قدم روزانہ خود بخود ان کے گھر کی طرف اٹھنے لگتے.
شام کی چائے کا دور چلتا ، اس کے امی ابو مجھے یوں پروٹوکول دیتے جیسے اسامہ نہیں بلکہ میں ان کا بیٹا ہوں. انکل اور اسامہ نماز کے لیئے جانے لگتے تو میں خود بخود ساتھ چل پڑتا ،
وہ دم بخود اس کو سن رہی تھیں.
اس نے گہری سانس لے کر سلسلہ کلام دوبارہ جوڑا ...
ایک دن اسامہ مجھے بہت دلگرفتہ نظر آیا ، میرے استفسار پر کہنے لگا :
مانی یار ! مجھے ایک بات سے بہت ڈر لگتا ہے ،
میں نے پوچھا ، کس بات سے ؟
تو بولا :
جب میری امی یا ابو مجھ سے ناراض ہوتے ہیں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ میری جنت کہیں کھو گئ ہے ، مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا ،
ہر وقت خوف کی تلوار سر پر لٹکتی رہتی ہے کہ کہیں عتاب الہی کا شکار نہ ہو جاوں ......
یہ سن کر میں اس کا مذاق اڑانے لگا کہ اسامہ یار ! تم اچھی خاصی ایکٹنگ کرلیتے ہو ، آخر اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ؟
تو آپ کو پتہ ہے مام کہ اس نے کیا جواب دیا ؟
اس نے رک کر پوچھا تو مام جو محویت سے اس کی تمام گفتگو سن رہی تھیں ، چونک گئیں ،
ہاں !تو اس نے کیا کہا؟
مانی جو کسی غیر مرئ نقطے پر نظریں جمائے ہوئے تھا،کسی قدر توقف کے بعد گویا ہوا :
اسامہ دلگیر لہجے میں کہنے لگا ،
میں نے جس باجی سے ناظرہ قرآن کریم پڑھا تھا ، ان کا معمول تھا کہ وہ ہفتے میں ایک دن ہمیں سبق پڑھانے کا ناغہ کرتیں اور اس دن وہ بچوں سے ان کی دلچسپی کی گفتگو کیا کرتیں .
اسی دوران وہ بڑوں کے احترام خصوصا والدین کا مقام و مرتبہ بھی ایسے دلنشیں انداز میں سمجھایا کرتیں جو بچوں کے دل میں اتر جاتا ....
وہ کہا کرتیں کہ :
ماں کے قدموں تلے جنت ہے...
باپ جنت کا دروازہ ہے ...
والدین کی دعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے...
جس کے والدین اس سے ناراض ہوں گویا اس کا داخلہ جنت میں بند ہے...
والدین کی خدمت سے دنیا و آخرت دونوں ہی میں کامیابی ملتی ہے...
والدین کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھنے والا ایسا ہے گویا اس نے مقبول حج و عمرہ کرلیا ہو...
جس شخص سے والدین ناراض ہوں اس سے اللہ بھی ناراض ہوجاتا ہے...
والدین کا اتنا زیادہ حق ہےکہ کوئ تمام عمر خدمت کرکے بھی اس حق کو ادا نہیں کر سکتا...
والدین کے سامنے کبھی اونچا مت بولنابلکہ اگ تک بھی مت کہنا...
کبھی ان کا دل مت دکھانا...
کبھی ان کے احترام میں کمی نہ آنے دینا........
ان کی یہ نصیحتیں آج بھی کانوں میں گونجتی ہیں اور میں اس فکر میں رہتا ہوں کہ کہیں اپنے والدین ، اپنی جنت کو ناراض ہی نہ کر بیٹھوں اور بدلے میں دنیا و آخرت کا خسارہ اپنے نام نہ کرلوں !
مام! وہ تو یہ سب کہہ کر چلا گیا مگر میری نگاہوں کے سامنے سے غفلت کا پردہ ہٹا گیا، میں سوچتا ہی رہ گیا کہ مجھے تو اب تک یہ ہی نہیں پتہ کہ میری جنت کون ہے ، کہاں ہے ؟؟؟
مجھے سچے دل سے معاف کردیں ، میں اپنی جنت کو کبھی بھی نہیں کھونا چاہتا !
ماما نم آنکھوں سے اس کی گفتگو سن رہی تھیں اور سوچ رہی تھیں کہ اس ساری کہانی میں قصور وار کون تھا ؟
وہ خود یا ان کا بیٹا کہ جس کو وہ اپنی قدر و منزلت بھی نہ سکھا پائیں !
ان کا دل ہزار سجدہ ہائے شکر بجا لایا ، اس رب کے حضور جس نے ان کی کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کا بیٹا ان کو لوٹا دیا تھا !
بنت میر
Sadia Javed
About the Author: Sadia Javed Read More Articles by Sadia Javed: 5 Articles with 3730 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.