شاعری کے حق میں
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
علم وادب کی دنیا میں نثرکا مزاج تذکیری
جبکہ شاعری کا تانیثی ہے۔ جس طرح تصویرِ کائنات میں رنگ، تصورِ زن کا مرہونِ
منت ہے ایسے ہی کسی مرقعٗ ادب کی رنگینی شاعری کی نیازمند ہے۔دوسرے الفاظ
میں ادب کی ہستی کا وجود نثر اور روح شاعری ہے۔ جس طرح روح کے بغیر جسم مٹی
کا پتلا ہے ایسے ہی شاعری کی عدم موجودگی میں ادب بے جان مجسمہ ہے۔اردو ادب
سے غالب، میر جیسے شاعر نکال دیں تو اس کا دامن تہی ہو جاتا ہے۔ پنجابی سے
وارث شاہ اور بلہے شاہ جیسے شاعروں کا کلام منہا کر دینے سے بہت بڑا خلا
محسوس ہوتا ہے۔ الغرض ہر زبان کا بہترین ادب شاعری میں پایا جاتا ہے۔
ہمارے خیال میں شاعری انسانی فطرت میں موجود ہے۔ اکثر و بیشتر انسان شاعری
پسند کرتے ہیں ۔ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک، غریبوں سے لے کر امیروں تک، کند
ذہنوں سے لے کر ذہینوں تک، بد شکلوں سے لے کر حسینوں تک، ہر کوئی شاعری کی
زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہے۔اگرایک رکشہ چلانے والا ڈیک بجاتا ہے تو ایک کار
میں بیٹھنے والا بھی ڈیک بجاتا ہے۔ اگر ایک طرف کسی عبادت گاہ میں مذہبی
جذبات شاعری کے ذریعے تسکین پاتے ہیں تو دوسری طرف کسی نائٹ کلب میں شاعری
کسی اور طرح کے جذبات کو انگیخت کر تی ہے:
بوئے گل، نالہء دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا ، سو پریشاں نکلا
یہ بھی خیال ہے کہ جس طرح شاعری ہر شخص کی گھٹی میں اتری ہوئی ہے اسی طرح
علم کی ہر شاخ بھی اپنے اندر شاعری کا انداز رکھتی ہے۔ اس کو ہم مثالوں سے
کچھ یوں بیان کر سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ بات زبان زدِعام ہے کہ ریاضی حقیقت پر مبنی علم ہے اس کی گزر
گاہیں تخیل کی متحمل نہیں ہو سکتیں، کیوں کہ اس میں ہمیشہ دو جمع دو چار ہی
ہوتا ہے۔ لیکن ایسی بات نہیں ۔ اس علم کے شجرِ سایہ دار کی جڑیں بھی آبِ
تخیل ہی سے سیراب ہوتی ہیں۔ اگرچہ کونپلیں اس بات سے انکار ی ہیں۔ کیا کسی
نے صفر دیکھی ہے؟ کبھی نہیں۔ صفر تو نظر آہی نہیں سکتی۔ جو چیز اپنا وجود
ختم کر دے وہ کیسے دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ جو گول سی چیز صفر کہلاتی ہے وہ
صفر کا اشارہ یا تخیل ہے۔ صفر جو کہ ریاضی کی جان ہے سراسر تخیل ہے۔ اسی
طرح تین یا پانچ جیسی رقموں کا جذر لا متناہی اعداد پر مشمل ہوتا ہے، لا
متناہی یا انفنیٹی کا تصور ریاضی سے نکال دیا جائے تو اس کی گاڑی جام ہو
جائے گی اور یہ لا متناہی کا تصور شاعر کا تخیل ہی تو ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سوچا جا سکتا ہے کہ فزکس میں تخیل نہ ہو گا۔ کیوں کہ یہ علم بھی مادہ اور
توانائی پر مشتمل ہے اور تجرباتی بنیاد رکھتا ہے لیکن کسی کو کیا پتہ کہ
آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹوٹی سراپا تخیل ہے۔ جب ہم کوئی بات سپوز کرتے
ہیں تو ہم تخیل کی دہلیز کے اندر قدم رکھ چکے ہوتے ہیں۔ اور تھیوری آف
ریلیٹوٹی ہے ہی سپوزیشن کہ اگر کسی مادی چیز کی رفتار روشنی کی رفتار کے
برابر ہو جائے جو کہ تین لاکھ کلو میٹر فی سکینڈ ہے تو اس چیز پر وقت نہیں
گزرے گا یا دوسرے الفاظ میں اس کا وقت لا متناہی ہو جائے گا۔ اور جب زندگی
بھی روشنی کی رفتار سے گزر جاتی ہے تو پچاس سال پرانی بات بھی کل کی بات
لگتی ہے تو شاعر یہ بات کہنے میں حق بجانب ہے:
آئے بھی اکیلا، جائے بھی اکیلا
دو دن کی زندگی ہے، دو دن کا میلہ
تھیوری آف ریلیٹوٹی کا دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ اگر کوئی مادی چیز روشنی کی
رفتار اپنا لے تو اس کی کمیت یا جسم بھی لا متناہی ہو جائے گا۔ یعنی وہ ہر
جگہ موجود ہو گا ، دوسرے الفاظ میں وہ حاضر و ناظر ہو جائے گا۔ یہی بات
تومومن خاں مومن بھی کہہ رہا ہے:
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسر ا نہیں ہوتا
سوچا جا سکتا ہے کہ کیمسٹری جیسا علم تخیل سے بچا ہوا ہو گا ۔ لیکن نہیں ،
جب ایک کیمیائی عمل ہوتا ہے یا ہونا ہوتا ہے تو کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ
کیا ہوگا ،یاکیا ہوتا ہے۔ البتہ ہو جانے کے بعد معلومات اکٹھی کر کے ایک
انکوائری آفیسر کی طرح یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ یہ ہوا ہے۔ اور کئی ایک
باتیں تصور بھی کی جاتی ہیں ۔ ایٹم کی ساخت کا علم بڑی حد تک تخیل کی
پیداوار ہے کہ ، ایٹمی بانڈز کا بننا اور ٹوٹنا وغیرہ بھی تصور کے بغیر
سمجھنا ممکن نہیں۔ ایٹم کے مرکز کے گرد الیکٹران ایسے حرکت کرتے ہیں جیسے
کسی معشوق کے گھر کر گرد اس کے عاشق چکر لگاتے ہیں۔یہی بات شاعر کہتے ہیں
گردشِ کوئے یار کرتے ہیں
ہم یہی کاروبار کرتے ہیں
ٹی۔ ایس ایلیٹ نے تو کمال ہی کر دیا ہے کہ اس نے اچھے خاصے جیتے جاگتے شاعر
کو کیمیائی عمل کے عمل انگیز یعنی کیٹیلسٹ کا خطاب دے کر شاعر ی کرنے کو
کسی کیمائی عمل سے گزرنے جیسا بنا دیا ہے۔
ارتقاء کا نظریہ دینے والا ڈارون بھی کسی شاعر سے کم نہ تھا۔ جب وہ اپنے
نظریئے کی تکمیل کے لئے دو چار نہیں بلکہ کروڑوں سالوں کی بات کرتا ہے تو
وہ کس شاعر یا جس تخیل سے پیچھے رہ جاتا ہے۔شاعر بھی تو یہی کہتا ہے:
ایک عمر چاہیئے آہ کو اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
کوئی یہ بھی خیال کر سکتا ہے کہ مذہب اور شاعری میں کوئی تال میل نظر نہیں
آتا۔ لیکن نہیں ان میں بھی تعلق یا نسبت موجود ہے۔
قرآنِ پاک کی سورہ رحمٰن کس قدر ردھم میں ہے کہ سننے والا جھوم جاتا ہے۔
اسی طرح قرآن کی کئی اور سورتوں میں بلا کا ردھم پایا جاتا ہے جیسا کہ سورہ
مزمل ، الضیٰ، وغیرہ۔ اگرچہ قرآن کا فرمان ہے کہ قرآن شاعری نہیں ہے۔ یہ
کسی اور تناظر کی بات ہے۔ مذاہب جب حیات بعد ممات کا تصور دیتے ہیں تو وہ
تخیل کی بنیاد پر ایک جہان تعمیر کرتے ہہیں۔ اگرچہ یہ باتیں شاعری نہیں ،
ہاں ہرگز شاعری نہیں لیکن تخیل ضرور ہے۔شاعر یہاں بھی خاموش نہیں رہتا:
واعظ نہ خود پیؤ ، نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمھاری شرابِ طہور کی
یا یہ بات بھی تو کمال کی ہے:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
سوچا جا سکتا ہے کہ تاریخ دان شاعری سے مبرا ہوں گے۔ لیکن بالکل نہیں ۔ ایک
مؤرخ کو کچھ معلومات ملتی ہیں اور کچھ نہیں ملتیں تو وہ معلوم معلومات سے
نا معلوم تک پہنچنے کی جستجو کرتا ہے جو کہ وہ تخیل کے بحرِ کرشمات میں
غوطہ زن ہوئے بغیر نہیں کر سکتا۔شاعر بھی یہی کہتا ہے: وہی کارواں، وہی
راستے، وہی زندگی وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں ، کبھی ہم نہیں
فلسفیوں کو شاعری سے بڑی چڑھ رہی ہے اور ہے بھی۔ لیکن فلسفی پتہ نہیں یہ
بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ فلسفہ اپنے عروج میں جا کر خود ہی شاعرانہ ہو
جاتا ہے۔ وہ بھی تخیل اور تصور کا سہارا ڈونڈھ رہا ہوتا ہے۔ ایک فلسفی ایک
دیوار پر لگے اوپلے دیکھ کر محوِ حیرت و تخیل میں غم ہو گیا کہ آخر کوئی
گائے یا بھینس اس دیوار پر کیسی چڑھی ہو گی۔ ایک فلسفی ایک آم کے درخت کے
نیچے بیٹھ کر سوچ رہا تھا کہ خدا نے کیسی زیادتی کی ہے کہ کمزور سی بیلوں
کو اتنے بڑے بڑے تربوز لگا دیئے ہیں اور آم جیسے قد آور درخت کو چھوٹے
چھوٹے آم لگادیئے ، فوراً ایک آم اس کی ٹنڈ پر آ لگا اور وہ فورا ً سمجھ
گیا کہ یہ خدا کی حکمت ہے نہ کہ کوئی زیادتی،۔ کوئی بھی فلسفہ تخیل میں
جائے بغیر سمجھ نہیں آسکتا۔اس شعر سے زیادہ فلسفہ کہاں ہو سکتاہے:
قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ہیں ایک
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
شاعری اپنی نوعیت کے لحاظ سے جس علم کے قریب تر ین ہے وہ موسیقی ہے۔ دونوں
تخیل پسند اور تخیل افزا ہیں ۔ دونوں میں ردھم ایک اور مشترک وصف ہے۔اور
دونوں کا چولی دامن کاساتھ ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے کو چار چاند بھی لگا
دیتے ہیں۔
ازدواجی تعلقات بھی شاعری کی طرح ہوتے ہیں:انتہائی نازک اور سمجھ نہ آنے
والے۔ اس تعلق کے بغیر زندگی اپنی تصویر میں رنگ نہیں بھر پاتی۔ اور کئی
لوگ ان رنگوں کے ہاتھوں پریشان بھی ہوتے ہیں۔ اس نازک رشتے کو اگر خوبصورتی
کا پیرہن مل سکتا ہے تو وہ بس شاعری کی دکان سے ہی مل سکتاہے۔ یہ دو شعر
کتنے بے زبان دلوں کی نوا ہیں:
کدی تے پیکے جا نی بیگم
آوے سکھ دا ساہ نی بیگم
اور پھر جواب آں غزل را:
چھتی گھر نوں آ وے بیبا
ایناں ناں تڑپا وے بیبا
شاعر کو معاشرے کی آنکھ بھی کہا جاتا ہے اور آنکھ جسم کا خوبصورت ترین عضو
ہے۔ دیکھنا تمام انسانی حسوں میں سے اہم ترین ہے۔ شاعروں کے تخیل کی بنیاد
پر بہت سے جہاں دریافت ہوتے ہیں۔ تاروں بھرا آسمان بھی شاعری کی بساط لگتا
ہے،اور پھولوں سے سجی زمیں بھی شاعری میراث لگتی ہے۔ شاعری کی اہمیت و
افادیت اور ہمہ گیریت کا موضوع جتنا بھی کھینچا جائے شیطان کی آنت کی طرح
کھنچتا چلا جاتا ہے۔لیکن ہر بار یہی ثابت ہو گا کہ شاعری تمام علوم کی جان
ہے۔یہ انسان اور کائنات کی فطرت میں روح کی طرح اپنا وجود رکھتی ہے۔ اس کے
چاہنے والوں سے کوئی زمانہ یا کوئی علاقہ محروم نہیں رہا۔ اور نہ ہی آئندہ
رہے گا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی جتنی بھی ترقی کر لے انسانی فطرت نہیں بدلے
گی۔ انسانی معاشرت نے ہر دور میں پہلو بدلے ہیں لیکن فطرت پہاڑوں اور
ستاروں کی طرح اپنی پوزیشن مستحکم رکھے ہوئے ہے۔جب تک انسانی فطرت نہیں
بدلے گی، جس کا کہ شاعری ایک لازمی عنصر ہے، اس دم تک شاعری کی پزیرائی
برقرار رہت گی۔
جب تک حسن پرستی رہے گی، شاعری رہے گی، جب تک فن یا آرٹ رہے گی شاعری رہے
گی، جب تک موسیقی رہے گی، شاعری رہے گی، جب تک انسانی جسم میں آنکھ رہے گی،
انسانی معاشرے میں شاعر رہے گا۔ جب انسانی چہرہ آنکھ سے اور انسانی کان
موسیقی سے محروم ہو جائیں گی تو پھر شاعری نہ رہے گی تو کوئی بات نہیں ،
لیکن ایسا کبھی بھی ہو نہیں سکے گا۔
شاعری کا مستقبل انسان کی مصروفیت کے ساتھ اور زیادہ منور ہوا ہے۔ کیوں کہ
اس مصروف ماحول میں اس کی افادیت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ انسان ذہنی طور
پر جتنا زیادہ مصروف ہو گا ، اسی شاعری کی اکسیر کی اتنی ہی زیادہ ضرورت
محسوس ہو گی۔
انسانی تعلقات کی نوعیت بدل سکتی ہے لیکن انسانی جذبات کی نوعیت کبھی نہیں
بدلے گی۔ اگر عمومی طور پر جذبات، تعلقات کے مرہونِ منت ہوتے ہیں لیکن تعلق
وقتی لیکن جذبات دائمی ہوتے ہیں، اگرچہ جذبات کی شدت میں جلد ہی کمی بیشی
واقع ہو جاتی ہے لیکن جذبات کی موجودگی انسانی وجود سے نکلتی نہیں۔ جب تک
جذبات انسان کے دل کع گرماتے رہے گے، شاعری ہوتی رہے گی،
اگر دنیا کے بہترین انسانوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تو ان میں سب سے زیادہ
تعداد شاعری پسند کرنے والوں کی ہو گی۔ اگر یقین نہ ہو تو کر کے دیکھ
لیں۔لیکن ہمیں یقین ہے کہ آپ ہماری زبان کا یقین کرتے ہوئے ہماری بات کا
یقین کریں گے۔۔۔شکریہ
|
|