شاعری کیا بلا ہے؟

مضامین کی فہرست

مطالعہ، مقصد، اور معیار میٹر
حُسنِ کلام - چار عناصر
حُسنِ بیاں - دس ہتھیار
وزن - آوازوں کا کھیل
نظم - قافیہ بند، معری، آزاد، اور نثری
آزاد نظم کے لئے میٹرکس
شاعری کی عمومی غلطیاں

-----------------------------------------------
۱۔ مطالعہ، مقصد، اور معیار میٹر

(نئے قلمکاروں کے لئے تین مشورے)


سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ اچھے ادب کا مطالعہ آپ کی تربیت کا اہم ترین جزو ہے۔ مطالعے کی اہمیت پر جتنا زور دیا جائے کم ہے۔ جب آپ کتب کا مطالعہ غور اور دلچسپی سے کرتے ہیں تو اُن کا اسلوب اور پیغام ذہن کے کونوں کدھروں میں کہیں بیٹھ جاتا ہے، اور پھر دھیرے دھیرے مافی الضمیر میں یہ آپ کے دیگر خیالات، مشاہدات، اور جذبات کے ساتھ خلط ہوتا رہتا ہے۔ پھر یا تو اچانک کبھی ٹریگر ہو کر یہ نیا خیال ذہن میں سامنے کی طرف آ جاتا ہے، یا خود سوچنے پر اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ تو ایک بات تو یہی ہے کہ ایسا ہونے کے لیے عموما کافی بڑا ذخیرہ مطالعے، مشاہدے، اور سوچ کا چاہیے (مشاہدہ اور تفکر تو زندگی میں ہر لمحے چلتے رہنے چاہئیں، اِن کے لئے زمان و مکان کی کوئی قید نہیں، نہ ہی مواقع/موضوعات کی تخصیص)۔


دوسرے یہ کہ عموماََ اچھے خیال کو ٹریگر کرنے کے لیے جذبات یا جذبے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور یہاں معاملہ آتا ہے اِس بات پر غور کرنے کا کہ کوئی لکھنا کیوں چاہتا ہے؟ کس کے لیے لکھنا چاہتا ہے؟ کونسے عوامل ایسے ہیں جس پر اُس کے جذبات زیادہ متحرک ہوتے ہیں یا اُس کا جذبہ زیادہ دیر تک ساتھ دے سکتا ہے؟ اب اُن میں سے ایک یا دو عوامل کو پکڑ کر لکھنے کی مشق کی جا سکتی ہے۔ مشق میں سب سے اہم بات اپنے اندر ایک 'معیار میٹر' کو پروان چڑھانا ہے۔ معیار میٹر یہی ہے کہ آپ اپنے لکھے کے معیار کو جانچ سکیں۔ عموماََ جو لوگ مطالعے میں اعلی ذوق رکھتے ہیں اُن کا یہ میٹر بہت اچھا کام کر رہا ہوتا ہے (اور اِس کی تربیت بھی مانے ہوئے اچھے ادب کے گہرے مطالعے سے ہی ہو گی)۔ اِس میٹر کو پھر اپنی تخلیق پر لگا کر نظرِ ثانی کرتے رہیں، اور جب یہ میٹر سبز سگنل دے تو سمجھیں اب کچھ لکھ لیا (نقاد اور قارئین کے فیڈ بیک سے صرف آخری اُنیس بیس کا فرق پڑنا چاہیے، تحریر کے اصل معیار کی 'رینج' کا پتا آپ کے معیار میٹر کو ہی دینا ہو گا)۔ باقی اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کی فطری صلاحیتیں مختلف ہیں، چنانچہ کچھ لکھاریوں کو اس معاملے میں فطری 'اڈوانٹیج' ملتا ہے۔ مگر محنت کا دخل بہر حال بہت کچھ کروا سکتا ہے انسان سے۔ آگے آپ کا جذبہ اور جذبات۔

-------------------------------------------------

۲۔ حُسنِ کلام - چار عناصر

یوں سمجھیں کہ دو سطور آپ نے ایسی لکھنی ہیں جن میں معنی بھی خوب ہوں، روانی بھی ہو، موسیقیت بھی ہو اور ایک ماحول سا بھی بن جائے۔

- معنی : پڑھنے والے کو یوں لگے کہ کچھ دلچسپ بات اُس نے پڑھی؛ یا شعر نے اُس کے اندر موجود کسی سوچ، فکر، یا تمنا کو الفاظ دیے۔

- روانی : پڑھنے والا آسان فلو میں پڑھتا جائے، زبان کو جھٹکے نہ لگیں نہ ہی زبان ٹوِسٹ ہو۔

- موسیقیت: بات نثری نہ ہو۔

- ماحول: پڑھنے والا ایک لمحے کے لئے کسی اور دنیا میں چلا جائے۔

یہ چاروں ایک شعر میں آ گئے تو سمجھیں کمال ہو گیا۔ اور ضروری نہیں ابتداء میں ہی کمال ہو جائے یا یہ کہ یہ چاروں عناصر ہر شعر میں ہی ہوں۔ پر اِس طرف بڑھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔اساتذہ کے کلام میں اِن چاروں کی مثالیں مل جائیں گی۔ پر یہاں دیکھتے ہیں کہ اِن کی کمی کیسی ہوتی ہے۔

- بے معنی یا سطحی سی بات

جسے پڑھ کر قاری یہ سوچے "تو پھر؟" ۔ مثلاََ

"اُس نے مجھے پتھر مارا۔ میں نے کھا لیا"

اب اِس سلسلے میں پڑھنے والا کیا کرے؟ وہ آپ کی اِس روزمرہ سی بات کو توجہ کیوں دے؟ (آپ ہی کی بات پر اپنا وقت کیوں لگائے؟)۔ اِس کے برعکس دیکھئے

"اُس کا پتھر بھی مجھے پھول کی طرح لگا"۔

- جھٹکے اور ٹوِسٹ

"ہوئے رسوا جو ہم مر کے"

یہاں "ہوئے" کے ے کے بعد "رسوا" کا ر پڑھنا اور "رسوا" کے الف کے بعد "جو" کا جیم روانی سے پڑھنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ آپ نے پڑھنے والے کی زبان کو ایک پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ اِس کے برعکس دیکھیں

"ہوئے مر کے ہم جو رسوا"

ایسے ہی "پہاڑ پر گڑھ" کیسے پڑھے کوئی زبان کو گِرہیں لگوائے بغیر؟

- نثری

بات بالکل ہی یوں نہ لگے کہ نثر میں کہی ہے۔ مثلاََ "آج میرا دل کہہ رہا ہے" کا موازنہ کریں "آج تو میرا دل کہتا ہے" سے۔

- ماحول کی کمی

شعر ایسا ہو کہ تصور کی آنکھ کو گدگدائے۔ مثلاََ اِن دو باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے

میں اُسے بھلا نہ پایا
تمام عمر وہ یاد آیا

اور

ناصر یوں اُس کی یاد چلی ہاتھ تھام کے
میلے میں اِس جہان کے کھونے نہیں دیا

ناصر کا شعر ایک ماحول سا بنا دیتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے آپ ایک میلے کے عین بیچ میں ہوتے ہیں۔ چاروں طرف رونق، خوشیاں، ہلا گلا۔ پر آپ اُس سے مستفید نہیں ہو رہے۔ ایک غیر مرئی سی چیز آپ کا ہاتھ تھامے میلے کے بیچ و بیچ آپ کو اپنے ساتھ لیے جا رہی ہے۔ رُکنے نہیں دیتی، مُڑنے نہیں دیتی، گُھلنے نہیں دیتی۔

-------------------------------------------

۳۔ حُسنِ بیاں : دس ہتھیار

اِس سے پہلے ہم نے چار ایسے عناصر دیکھے جن کی کمی شعر کو ناقص بنا دیتی ہے۔۔ اب ہم مختصراََ دس ایسے "ہتھیاروں" کی بات کریں گے جن کے درست استعمال سے شاعر اپنے بیان میں جان ڈال سکتا ہے۔

1- منظر کشی

ایسا بیان جو قاری کے حواسِ خمسہ (ایک یا زائد) کو اپیل کرے۔ مثلاََ میر تقی میر کے یہ اشعار دیکھیں (پہلے میں خوشبو اور دوسرے میں لمس)

آتشِ غم میں دل بُھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے
نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اِک گُلاب کی سی ہے

2- تجسم

تجسم یہ ہے کہ کسی بے جان یا غیر انسانی چیز کو جانداروں یا انسانوں جیسی خصوصیات سے نواز دیا جائے۔ اِسی کو انگریزی میں پَرسانِیفِیکَیشَن کہتے ہیں۔ اِس کے استعمال سے شاعر بہت دلچسپ معانی، خیال، اور "مناظر" پیش کر سکتا ہے۔ مثلاََ میر درد کے اِس شعر میں پھولوں اور شبنم کے تجسم سے ایک کمال منظر جنم لیتا ہے۔

ہمیں تو باغ تجھ بن خانہِ ماتم نظر آیا
اِدھر گُل پھاڑتے تھے جیب، روتی تھی اُدھر شبنم

شاید یہی وجہ ہے کہ تجسم کا استعمال اساتذہ کے ہاں جا بجا ملتا ہے۔

3- خطاب اور مکالمہ

خطاب اور مکالمے کے ذریعے کلام میں کشش پیدا کی جا سکتی ہے۔ رومی اور اقبال دونوں کے ہاں اِن کا خوب استعمال ملتا ہے۔ خطاب میں شاعر کسی حاضر یا غائب شے یا گروہ کو مخاطب کر کے بات کرتا ہے، مثلاََ یہاں شاعر ایک خیالی مجمعے سے مخاطب ہے

یہ مصرع لکھ دیا کِس شوخ نے محرابِ مسجد پر؟
یہ ناداں گِر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا

یا یُوں بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شے یا فرد شاعر سے خطاب کرے۔ مثلاََ

میں جو سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تِرا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں؟

اِسی طرح اشعار میں مختلف کردار تخلیق کر کے اُن کے باہمی مکالمے سے دلچسپ کشمکش پیدا کی جا سکتی ہے۔ مثلاََ کلامِ اقبال میں دیکھیں "ایک پہاڑ اور گلہری"، "شمع اور شاعر"، "چاند اور تارے"،، "عقل و دل" اور "خضرِ راہ" وغیرہ۔

4- تضاد

متضاد احساسات، افعال اور صفات کو ایک جگہ جمع کر کے قاری کے ذہن کو گدگدانے کے ساتھ ساتھ بیان میں حُسن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ مثلاََ

(احساسات)
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے

اور

(افعال)
وہ گیت سارے وہ دیپ سارے
جلا کے جانا بجھا کے جانا
نظر نظر سے مِلا کے جانا

اور

(صفات)
سناٹے کا شور

اِس آخری مثال کو انگریزی میں "آگزی موران" (متضاد صفات کا مرکب) کہتے ہیں۔


5- تقابل : تفریق، تشبیہ، استعارہ

تشبیہ اور استعارے سے عموماََ ہم واقف ہوتے ہیں۔ یہاں میں صرف تفریق پر بات کروں گا۔ تفریق میں دو چیزوں کے درمیان فرق کے ذریعے ایک چیز کی حقیقت یا خصوصیت کو واضح کیا جاتا ہے۔ مثلاََ

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں!


سنگ و خشت سے تقابل دل کی نرمی اور ایک زندہ شے ہونے پر زور دے رہا ہے۔


6- صوتی اثرات : بحر، قافیہ، ردیف، تکرار (آواز، لفظ، فقرہ)، صوتی تراکیب


صوتی اثرات (موسیقیت، نغمگی، روانی) کے لئے بحر، قافیہ اور ردیف کے استعمال سے ہم واقف ہیں۔ اِن کے علاوہ "تکرار" اور "صوتی تراکیب" کے استعمال سے بھی کلام میں مزید حُسن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ قافیہ اور ردیف خود بھی تکرار کی دو شکلیں ہیں۔ ردیف میں ایک یا ایک سے زائد الفاظ (فقرہ) ہوبہو دہرائے جاتے ہیں اور پڑھنے سُننے والے اِس تکرار سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ قوافی میں چند حروف (لیکن غیر مکمل لفظ) پر مشتمل آواز کی تکرار سے نغمگیت پیدا کی جاتی ہے۔ مگر تکرار کے استعمال کے لئے ہم ردیف اور قافیے تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی مصرعے کے اندر ہی خاص آوازوں اور الفاظ کی قریب قریب تکرار سے خاص موسیقیت پیدا کی جا سکتی ہے۔ مثلاََ جالب کا شعر دیکھیں


ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا


یہاں پہلے مصرعے میں ظ اور ض کی ملتی جُلتی آوزوں ("ظلمت کو ضیا") اور پھر ص کی تین بار فوری تکرار ("صرصر کو صبا") سے مصرعے کے الفاظ کا ایک خاص صوتی رشتہ سا بن جاتا ہے۔ اِسی طرح دوسرے مصرعے میں حرف "ر" کا بار بار آنا شعر کے صوتی حُسن کو دوبالا کر رہا ہے ("پتھر کو گُہر، دیوار کو دَر")۔


یہ تو تھی آوازوں کی تکرار، اب داغ کے اِس شعر میں مکمل الفاظ کے دو دو بار دہرائے جانے سے پیدا ہونے والی موسیقیت کو دیکھیں


تری محبت نے مار ڈالا ہزار ایذا سے مجھ کو ظالم
رُلا رُلا کر، گھلا گھلا کر، جلا جلا کر، مٹا مٹا کر


اِسی طرح ایک مصرعے میں "اندرونی قوافی" سے بھی نغمگیت پیدا کی جا سکتی ہے۔ مثلاََ اِس مصرعے کے چار حصے ہم قافیہ ہیں (اور دیکھیں کیسے زبان پر جاری ہوتے جاتے ہیں)


مِرا عیش غم، مِرا شہد سم، مِری بود ہم نفسِ عدم


تکرار کے علاوہ "صوتی تراکیب" بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ صوتی ترکیب (یا اسمائے اصوات) سے مراد وہ الفاظ ہیں جو کسی اصلی شے کی آواز کو کاپی کرتے ہیں (جیسے دھک دھک، ٹپ ٹپ)۔ مثال


پھر ٹپ ٹپ آنسو ٹپکیں گے، اور رم جھم بارش برسے گی


7- اشارہ، تلمیح


اِن سے بھی ہم عموماََ واقف ہوتے ہیں۔ مختصراََ یہ کہ کسی جانے پہچانے واقعے، شے یا فرد (حقیقی یا خیالی) کی عام مانوسیت کو استعمال میں لا کر شعر کو دلچسپ بنایا جا سکتا ہے۔ مثلاََ یہاں مجنوں (قیس) کی مقبولِ عام کیفیت کو خوب استعمال کیا گیا ہے


قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے کی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو


8- مبالغہ


مبالغے کے لئے شعراء بدنام ہیں۔ بہرحال اِس کا درست استعمال کلام کو پُرلطف بناتا ہے۔ ایک مثال


جب تک تجھے نہ دیکھوں سورج نہ نکلے
زلفوں کے سائے سائے مہتاب ابھرے!


9- خوش کلامی


سخت یا بُرے الفاظ کے استعمال سے شعر "ادبی" طور پر ناپسندیدہ ہو سکتا ہے۔ اِس لئے اہم ہے کہ نفیس الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ مثلاََ یہاں بجائے یہ کہنے کے کہ "ہر کسی نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے"، شاعر نے ادبی پیرائے میں بات کو پیش کیا ہے


جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے


10- مزاج


خاص مزاج کے تواتر سے بھی ایک دلچسپ کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ مثلاََ غالب کے ہاں شوخی/شرارت خوب ملتی ہے۔ اسی طرح اقبال کے ہاں امر و نہی (دیکھ!، کر!، چھوڑ دے!)، فیض کے ہاں حفیف طنز/گِلے ، اور جون ایلیا کے ہاں لاابالی پن کی سی کیفیات وافر مقدار میں ملتی ہیں۔ (یہ سب استاد شعراء ہیں، اِس لئے یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ صرف یہی کیفیات ملتی ہے، پر میری رائے میں کچھ کچھ غلبہ اِنہی کا ہے )۔ ایک ایک مثال


ہے کیا جو کَس کے باندھئے، میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں؟

- غالب


مِرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!

- اقبال


دلداریِ واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ
اب شہر میں ہر رندِ خرابات ولی ہے

- فیض


شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں

- جون ایلیا



(نوٹ: یہ سب میرے مطالعے اور مشاہدے پر مبنی ہے۔ اردو اصطلاحات کچھ جانی پہچانی ہیں اور کچھ میں نے حسبِ ضرورت "ایجاد" کی ہیں۔ اِس فہرست کے حتمی ہونے کا کوئی دعوی نہیں)۔


-------------------------------------


۴۔ وزن: آوازوں کا کھیل


بالکل جیسے مادے کو مالیکیول اور ایٹم وغیرہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ویسے ہی اردو زبان میں مستعمل ہر لفظ کو ہم "طویل" دورانیے کی آوازوں اور "مختصر" دورانیے کی آوازوں میں "بریک" کرسکتے ہیں۔


شاعری میں "وزن" کی ساری کہانی اِنہی طویل اور مختصر آوازوں یا "ہجوں" سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ دو مصرعوں کا آپس میں وزن جانچنے کے لئے الفاظ کی گنتی کافی نہیں (کہ کچھ الفاظ بہت بڑے ہوتے ہیں اور کچھ بہت چھوٹے)۔ درحقیقت وزن کی دو شرائط ہیں اور دونوں کا تعلق الفاظ کی بجائے "ہجوں" سے ہے۔


1۔ تعداد: ایک مصرعے میں طویل ہجوں اور مختصر ہجوں کی اپنی اپنی تعداد بالکل اتنی ہی ہو جتنی دوسرے مصرعے میں ہیں۔


2۔ ترتیب: ایک مصرعے میں طویل اور مختصر ہجوں کی "ترتیب" ویسی ہی ہو جیسی دوسرے مصرعے میں ہے۔


وزن جانچنے کا معاملہ آسان ہو جاتا ہے اگر طویل ہجوں کو ہم طویل اور مختصر ہجوں کو مختصر ہی پڑھیں۔ سو اِسی پر پہلے توجہ دیتے ہیں چند مثالوں کے ساتھ۔


لفظ : آزمائش


اِس کو یوں بریک کریں گے: آ-ز-ما-ئِش


اِن میں آ ما اور ئِش طویل دورانیے کے ہجے ہیں اور "ز" مختصر دورانیے کا۔ طویل کو ہم "دو" لکھیں گے اور مختصر کو "ایک"۔ اِس لحاظ سے آزمائش کا فارمولا ہوا: دو-ایک-دو-دو۔ اب اگر آپ نے "آزمائش" سے "ہم وزن" لفظ یا الفاظ ڈھونڈنے ہیں تو اُنہیں بالکل اسی ترتیب اور تعداد کو فالو کرنا ہو گا۔ جیسے


لفظ: بے قراری


بے-ق-را-ری : دو-ایک-دو-دو



اِس میں طویل ہجے تین ہیں، مختصر ہجا ایک ہے (بالکل "آزمائش" کی تعداد کی طرح) اور ساتھ ترتیب بھی بالکل وہی ہے (دو-ایک-دو-دو، نا کہ "دو-دو-ایک-دو" یا "دو-دو-دو-ایک" وغیرہ)۔


اب اسی بات کو مکمل مصرعوں پر لگاتے جائیں تو اُن کا آپس میں وزن جانچ سکتے ہیں (میں اِس بات کا قائل ہوں کہ صرف پڑھنے سے ہی اندازہ ہو جانا چاہیے اور اِس پورے حساب کتاب کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے، بہرحال سمجھنے کی غرض سے دیکھا جا سکتا ہے)۔


مصرعوں کی مثال سے پہلے کچھ اور الفاظ دیکھتے ہیں


لفظ: محبّت


مُ-حَب-بَت : ایک-دو-دو


لفظ: تمنّا


ت-مَن-نا : ایک-دو-دو


لفظ: خلیلی


خ-لی-لی : ایک-دو-دو


لفظ: کلیمی


ک-لی-می: ایک-دو-دو


لفظ: امتحاں


اِم-ت-حاں : دو-ایک-دو


اب اِن الفاظ کی مدد سے بنے چار مختصر مصرعے دیکھتے ہیں


محبت بے قراری
تمنا بے قراری
خلیلی امتحاں ہے
کلیمی آزمائش


اوپر جو ہم نے الفاظ کے بریک ڈاؤن ("تقطیع") دیکھے اُس کی روشنی میں اِن مصرعوں کو یوں بریک کیا جا سکتا ہے


ایک-دو-دو-دو-ایک-دو-دو
ایک-دو-دو-دو-ایک-دو-دو
ایک-دو-دو-دو-ایک-دو-دو
ایک-دو-دو-دو-ایک-دو-دو


نوٹ کریں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی بہت خاص ترتیب سے ڈھولک پر تالی مار رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ آواز ڈھولک کی بجائے انسان کے منہ (اور ناک) سے ادا ہونی ہے (خاص ترتیب سے اور خاص دورانیوں کے لئے)۔


یہی "وزن" ہے۔


نوٹ 1: بحر بھی اسی ہجوں کی ترتیب کو کہتے ہیں۔ کسی مصرعے کی بحر اُس سے بننے والی ہجوں کی ترتیب ہو گی۔ پھر بحور کو "ایک-دو-دو" وغیرہ کے طور پر بتانے کی بجائے اساتذہ نے دیگر اصطلاحات اختیار کی ہیں، جیسے"مفَاعِیلَن فعُولَن" وغیرہ۔ مثلاََ غور کریں تو یہ بنتا ہے "م-فا-عی-لن۔ف-عو-لن" یعنی "ایک-دو-دو-دو-ایک-دو-دو"، یعنی وہی "بحر" جو مثال میں دئے مصرعوں کی ہے۔


نوٹ 2: الفاظ کا درست تلفظ شرط ہے درست اوزان تک پہنچنے کے لئے۔ اور یہ محنت اور شوق کا کام ہے۔


نوٹ 3: درست تلفظ جاننے سے کافی حد تک کام ہو جاتا ہے۔ مگر یہ مکمل طور پر مسئلہ حل نہیں کرتا۔ ایک زائد علم جس کی ضرورت پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ "شعری ضرورت" کے تحت کن کن الفاظ کے ایک سے زائد "درست" تلفظ رائج ہیں۔ مثلاََ لفظ "کی" کو طویل بھی پڑھا جا سکتا ہے اور شعر کی ضرورت کے لحاظ سے بہت مختصر بھی۔


----------------------------

۵۔ نظم : قافیہ بند، معری، آزاد، اور نثری



- قافیہ بند

نظم جس میں قوافی کی پابندی کی جائے۔

- معری

قافیہ ردیف سے آزاد، پابندِ بحور، مصرعوں کے ارکان برابر، یعنی ایک لمبائی کے مصرعے۔


- آزاد

قافیہ ردیف سے آزاد (کہیں کہیں قافیہ مل بھی جائے تو اجازت)، پابندِ بحور (چاہے ایک سے زیادہ بحریں ہی ہوں)، مختلف لمبائی کے مصرعوں کی اجازت (خیال کے لحاظ سے توڑے گئے، کوئی طویل، کوئی مختصر)۔


- نثری

قافیہ ردیف بحر یا مصرعوں کی لمبائی برابر رکھنے جیسی تمام شرائط سے آزاد، مگر جملے توڑ کر الگ الگ سطور میں لکھے گئے (نثری نظم کو "شاعری" ماننے پر ادبی حلقوں میں بہت لے دے ہوتی ہے)۔


نوٹ: آزاد اور نثری نظم کے بیچ کُچھ کنفیوژن اِس لئے پھیلتی ہے کہ بعض لوگ انگریزی کی 'فری ورز' کو اردو کی 'آزاد نظم' کے مترادف سمجھتے ہیں۔ مگر اردو کی آزاد نظم (جیسے تاریخی طور پر لکھی گئی)انگریزی فری ورز کی طرح مکمل آزاد نہیں ہے (اُس کام کے لئے نثری نظم آئی ہے)۔


-----------------------------------------

۶۔ آزاد نظم کے لئے میٹرِکس


1۔ خیال میں کتنی جان ہے؟


خیال کو جاندار بنانے والے چند اہم عناصر


- خیال کی گہرائی یا شدت


مثالیں: کوئی درد جگاتا ہے؟ کُچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے؟ ذہن کو چیلنج کرتا ہے؟


- خیال کا اچھوتا پن


کسی مختلف پہلو سے دیکھا ہے بات کو؟، کسی مختلف شاہد کے نقطہء نظر سے دیکھا ہے؟ جیسے پھول کو کانٹے کی نگاہ سے دیکھنا وغیرہ۔ مکمل اچھوتا پن لازمی نہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اِس پہلو پر یا نقطہء نظر سے پہلے بات کم کی گئی ہو۔


- خیال کی جدت


خیال/موضوع مکمل طور پر ہی نیا ہے؟


اگرچہ کسی بھی تخلیق کو جاندار بنانے کے لئے اِن عناصر میں سے کُچھ، یا سب کا کُچھ کُچھ حصہ، تخلیق میں ہونا چاہیئے، لیکن آزاد نظم کے لئے اِن کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ وہ اس لئے کہ آزاد نظم میں قافیے ردیف کی قید نہیں ہوتی (اِس قید پر مہارت سے عمل کر کے قافیہ بند نظم اور غزل میں کُچھ حُسن پیدا کیا جا سکتا ہے، جبکہ یہ آپشن آزاد نظم کو دستیاب نہیں)۔


2۔ بیان میں کتنی جان ہے؟


بیان کی جان ہر صنف کے لحاظ سے قدرے مختلف بتائی جا سکتی ہے۔ آزاد نظم کے لئے چند اہم عناصر یہ ہیں


- مصرعوں کی روانی

اگرچہ آزاد نظم قافیے ردیف سے آزاد ہوتی ہے، اِس میں بہرحال کچھ بحروں کو اختیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ روانی قائم رہے، اگر یہ قید بھی نکال دی جائے تو پھر 'نثری نظم' بنتی ہے جو کہ نثری جملوں کو توڑ کر متعدد سطور میں لکھنے کو کہتے ہیں۔


- الفاظ کا چناؤ


مثلََا خدا، آسمان والا، قہار، سب اللہ کی طرف اشارہ ہیں، مگر موقع محل کے لحاظ سے اِن کی تاثیر مختلف ہو سکتی ہے۔


- تراکیب کا استعمال


صبح کے وقت، صبح سویرے، سحر کے جھٹپٹے میں، یہ سب ایک ہی بات کی مختلف تراکیب ہیں۔


-------------------------------------------

۷۔ شاعری کی عمومی غلطیاں

(یا اُن سے بچنے کی بنیادی چیک لِسٹ )


یہاں چند ایسی غلطیاں پیش کی جارہی ہیں جو نئی کاوشوں میں عموماََ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بات واضح کرنے کے لیے کچھ ”غلط“ اشعار خود سے گھڑے گئے ہیں اور کچھ اساتذہ کے اشعار میں ردوبدل سے بنائے گئے ہیں۔


۱۔ اونٹ اور بلی (شتر گربہ)


اصطلاح میں شتر گربہ کہتے ہیں دو ناموافق چیزوں یا ضمیروں کو ایک جگہ اکھٹا کرنے کو۔ شعر میں بے تکلفی کا درجہ ایک سا رہنا چاہیے۔ مثلا تُو کے ساتھ تجھے اور تیرا آنے چاہئیں، تم کے ساتھ تمہیں اور تمہارا، اور آپ کے ساتھ آپکو اور آپکا (وغیرہ وغیرہ)۔ یہ اِس لیے کہ ہم عام بول چال میں بھی کسی ایک فرد کے ساتھ ایک سی بے تکلفی رکھتے ہیں اور بات کے دوران یہ درجہ بدلتے نہیں رہتے۔ مثال


تُو نہ آیا تو ہم نے رو رو کر
آپ کو بارہا صدائیں دِیں


پہلے مصرعے میں محبوب کو 'تُو' سے مخاطب کیا گیا ہے جبکہ دوسرے میں اچانک 'آپ' پر چلے گئے۔ اس طرح 'تُو' اور 'آپ' کو اکھٹا کرنا (ایک ہی مخاطب کے لیے) شتر گربگی ہے۔


احتیاط : شعر لکھنے کے بعد بغور جائزہ لے لیں کہ بے تکلفی کا درجہ ایک سا رہے۔


۲۔ غلط تلفظ باندھنا


اگر آپ عام بول چال میں کسی لفظ کو غلط ادا کرتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ آپ کا ذہن شعر میں بھی اُس لفظ کو غلط تلفظ سے ہی باندھے گا۔ مسئلہ اِس میں یہ ہے کہ جب لفظ کو ٹھیک تلفظ سے پڑھا جائے گا تو شعر کا وزن یا شعر کی روانی خراب ہو جائیگی۔ مثال


اگرچہ درگُزر میں مصلحَت ہے
مگر یہ راستہ بے حد سخت ہے


یہاں لفظ سخت کو غلط تلفظ کے ساتھ باندھا گیا ہے۔ یہ مصلحت سے ہم قافیہ ہے اگر اِسے سخَت پڑھا جائے یعنی خ پر زبر پڑھی جائے۔ مگر اصل تلفظ میں خ ساکن ہے۔ چنانچہ درست تلفظ پڑھنے سے شعر کا وزن خراب ہو جاتا ہے۔


احتیاطی تدابیر:


ا۔ شعر لکھنے کے بعد کوشش کریں کہ تمام الفاظ کو لغت میں چیک کر لیں کہ اُن کا تلفظ وہی ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں (یاد رہے کہ ہم عموما بہت عرصے سے کوئی ایک تلفظ ادا کرتے آ رہے ہوتے ہیں، اِس لئے کئی مرتبہ خود بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ جو ہم سمجھ رہے ہیں وہ تلفظ درست نہیں ہے)۔


ب- یہ بھی اہم ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے الفاظ کا تلفظ درست کرتے رہیں (تا کہ آپ کا ذہن خود سے درست تلفظ کے ساتھ الفاظ کو شعر میں باندھے)۔ اِس کے لیے معیاری مشاعروں کی ریکارڈنگ، اچھے اردو قاری کی ریکارڈنگ (جیسے ضیاء محی الدین)، اور اساتذہ کے کلام اور تحاریر پڑھتے ہوئے الفاظ کو لغات میں چیک کرنے کی عادت مفید ہو سکتی ہیں۔


۳۔ باغی ردیف اور گمشدہ قافیہ


یاد رہے کہ غزل کا ایک خاص ڈھانچہ ہوتا ہے۔ مثلاََ، کم از کم ہر شعر کے دوسرے مصرعے کے آخر میں کچھ الفاظ ہوبہو نقل کئے جاتے ہیں جنہیں ردیف کہتے ہیں (اگرچہ غزل کی ایک صنف ”غیر مردف“ غزل بھی ہے، یہاں ہم مردف غزل کی بات کر رہے ہیں)۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر شعر میں ردیف سے بالکل پہلے آنے والا لفظ قافیہ کہلاتا ہے۔ اگر آپ غزل لکھ رہے ہیں تو اِس بات کا خیال رکھیں کہ پوری غزل میں ردیف تبدیل نہ ہو، اور قافیہ میں استعمال کئے جانے والے الفاظ دراصل ہم قافیہ ہی ہوں۔ مثلاََ


دل سے خیالِ دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
مقصود اپنا کچھ نہ کُھلا لیکن اِس قدر
یعنی وہ ڈھونڈتے ہیں جو پایا نہ جائے گا


حالی کی غزل کے اِن دو اشعار میں ردیف ہے 'نہ جائے گا' (جو بغیر کسی تبدیلی کے ہوبہو نقل ہو رہی ہے)، جبکہ قافیے ہیں 'بھلایا، مٹایا، پایا' جو واقعی ہم قافیہ (rhyming) الفاظ ہیں۔ مگر اِن کے ساتھ اگر یہ شعر شامل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ غزل کی ترتیب کے خلاف ہو گا


تم کو ہزار شرم سہی، مجھ کو لاکھ ضبط
اُلفت وہ راز ہے کہ چھپائے نہیں چھپے


اِس شعر میں غزل کی ردیف 'نہ جائے گا' موجود نہیں، اور ساتھ ساتھ لفظ 'چھپائے' بقیہ قافیے کے الفاظ 'مٹایا، پایا' سے ہم قافیہ نہیں۔ دونوں غلطیوں کے باعث یہ شعر غزل میں خرابی پیدا کرے گا۔ حالی کا یہ شعر دراصل یوں ہے


تم کو ہزار شرم سہی، مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا


درست شعر میں ردیف بھی موجود ہے اور لفظ 'چھپایا' واقعی 'مٹایا، پایا' سے ہم قافیہ ہے۔


احتیاطی تدابیر:


ا۔ غزل لکھتے ہوئے اِس بات کا تعین کر لیں کہ غزل کی ردیف کیا ہے اور قافیہ کیا ہے۔ پھر ہر شعر کا جائزہ لیں کہ کہیں پر ردیف میں تبدیلی یا قافیے کے انتخاب میں غلطی تو نہیں ہو رہی۔


ب۔ بعض اوقات کوئی شعر بقیہ غزل سے مختلف ردیف یا قافیے کے ساتھ بہت بہتر لگتا ہے۔ ایسی صورت میں اِس شعر کو غزل سے نکال کر اِس پر علیحدہ غزل یا قطعہ لکھا جا سکتا ہے، یا پھر مفرد شعر ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔


۴۔ دو لخت اشعار


بعض اوقات شعر کے پہلے اور دوسرے مصرعے کا مفہوم کے لحاظ سے آپس میں کُچھ خاص ربط نہیں ہوتا (یا تو بالکل ہی نہیں ہوتا یا تقریباََ زبردستی بنانا پڑتا ہے)۔ نئی کاوشوں میں ایسے "دو لخت" اشعار عموماََ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم اِس (خود گھڑے ہوئے) شعر کو دیکھتے ہیں


نگاہِ یار ہے یا تِیر کوئی

مسلمانوں کو آخر کیا ہوا ہے


یہاں دونوں مصرعے الگ الگ کہانی بیان کر رہے ہیں اور دونوں کے پیغام میں کُچھ ربط نہیں ہے۔


احتیاط :


شعر لکھ کر جائزہ لے لیں کہ دونوں مصرعے مل کر ایک بات مکمل کر رہے ہیں یا نہیں؟ بعض اوقات اِس کا خود اندازہ نہیں ہوتا کہ مصرعوں میں جو ربط آپ سمجھ رہے ہیں وہ قاری تک بالکل نہیں پہنچ سکتا۔ چنانچہ سخن فہم ساتھیوں کی رائے لینے سے ایسی خرابی پکڑی جا سکتی ہے۔
Ibnay Muneeb
About the Author: Ibnay Muneeb Read More Articles by Ibnay Muneeb: 54 Articles with 63491 views https://www.facebook.com/Ibnay.Muneeb.. View More