شام: یہ لہو کارواں کارواں جائے گا
(Nazish Huma Qasmi, Mumbai)
یہ ضروری نہیں کہ ہم وہاں جاکر ان کی مدد کریں لیکن اتنا تو کرسکتے ہیں کہ ان کے لئے دعا کریں… شامی قونصلیٹ میں جاکر اپنا احتجاج درج کروائیں…حکومت ہند کو مجبور کریں کہ وہ شام سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرے۔ لیکن نہیں ہم اپنے اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہیں… ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں … حالانکہ مسلمان ایک جسم کے مانند ہے پوری دنیا میں کہیں بھی ایک مسلم پر کوئی آفت آئے تو تقاضہ یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ اس کی امداد کے لے ٹوٹ پڑے لیکن نہیں ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اتنا یاد رکھیں…! قیامت کے دن ہم سے یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ شام والے کیا انسان نہیں تھے...؟ حلب جل رہا تھا لیکن تم سوئے رہے … ماوں کی عصمتیں تار تار ہوتی رہی تم مدہوش رہے …بہنوں کے دوپٹے جلائے جاتے رہے ، تم بے خبری میں پڑے رہے … بچوں کی سسکیاں آسمان تک پہنچتی رہی تمہارے کان بہرے رہے … بوڑھے درد سے کراہتے رہے تم بے درد بنے رہے … عفت نشیں بہنوں کے دوپٹے جلائے جاتے رہے تم باہر سڑکوں پر تاڑتے رہے… نوجوان امت مسلمہ کی طرف آس لگائے رہے لیکن تم بے حسی کی چادر تانے سوتے رہے…! |
|
سرزمین انصار ان مہدی و عیسیٰ ؑ ، مسکن
انبیاء ملک شام میں دنیا کی حالیہ ترین تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام جاری ہے
… چار سال سے زائد جاری اس جنگ نے معصوم شامیوں پر ظلم کی انتہاء کردی ہے…
کئی لاکھ جام شہادت نوش فرما چکے ہیں…نظام زندگی درہم برہم ہوچکی ہے… شہر
کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوکر قیامت صغری کامنظر پیش کررہے ہیں۔ حلب کی
چیخیں بشار الاسد کی فضائی و زمینی حملے میں دبائی جارہی ہیں۔ شام میں جاری
جنگ نے بوسنیا، فلسطین چیچینیا میں ہونے والے ظلم وجور کو مات دے دی ہے۔
شام خوں آشام ہے وہاں قیامتِ شام برپا ہے، چیخوں سے فضا بھر گئی ہے …!
بشارالاسد کی جارحیت کے سامنے ہلاکوخان، اور ہٹلر بھی مات کھاگئے ہیں… وہ
فوجیں جن پر عوام کے تحفظ کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں… وہی اپنے عوام کے خون سے
ہولی کھیلنے میں مصروف ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مظلوم شامی عوام کی مدد
کیلئے تو کوئی نہیں آیا لیکن اسے تہ وتیغ کرنے کیلئے ایران، روس، اور
لبنان کی تنظیمیں میدان کار ِ شر میں کود ی ہوئی ہیں۔جنگ کے کچھ اصول ہوتے
ہیں اسلامی طریقہ جنگ میں بچوں اور بوڑھوں عورتوں پر ہاتھ اُٹھانے سے منع
کیا گیا ہے لیکن شام کا ظالم شیر جیسی شر رکھنے والا بشارالاسد نے تمام
اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر فرعونیت کی وہ تاریخ رقم کررہا ہے کہ شیطان
بھی شرمندہ ہے۔ گزشتہ روز اس کے ظلم کی انتہاء ہوگئی جب اس نے شام کے سب سے
بڑے شہر حلب میں مجاہدین کے زیر قبضہ علاقوں پر فضائی حملوں میں 18 بچوں
سمیت 123 شہری کو ہلاک کردیا۔اسپتال کو تہس نہس کردیاگیا۔ بوڑھوں پر ظلم کی
انتہاء کردی گئی … خون اس طرح سے بہہ رہے تھے گویا عید قرباں کا سماں ہو۔
شہداء کے خون کی دھاریںکہہ رہی تھیں کہ ’’ا یہ لہو کاررواں کاررواں جائے گا‘‘
لیکن ظلم کے آگے سر نگوں نہیں ہوگا۔ شام میں مسلمانوں پر کئے گئے وحشیانہ
مظالم کی داستانیں تو بہت ہیں لیکن چند ایک جن سے روح کانپ جائے انسانیت
شرمند ہوجائے وہ یہ ہے کہ دو سال قبل شامی فوج نے دمشق کے اطراف میں
85شہریوں کو گھروں سے نکال کر بے دردی سے قتل کردیاتھا ۔ بارہویں صدی ہجری
میں بنوامیہ کے دور خلافت میں تعمیر کی گئی ایک شاہکار اور تاریخی مسجد کو
شہید کردیاگیا اور مسجد کی حرمت کو پامال کیاگیا۔مسجد کے لائوڈ اسپیکر کو
آن کرکے ایک دوشیزہ کی عصمت دری کی گئی جس سے اس کی چیخیں پورے شہر میں
سنائی دیتی رہی دنیا خاموشی سے سنتی رہی اور ظالم فرعونیت میں مگن ہوکر بنت
حوا کی بے بسی کا مذاق اڑاتے رہے۔ شام کے ساحلی شہر بانیاس کے گائوں بیضاء
پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے مسلمان شہریوں کا اجتماعی قتل عام کیاگیا
اس قتل عام میں سات سوسے زائد نہتے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کو شہید
کیاگیا۔ عمر نامی ایک شامی باشندہ اپنے گائو ںمیں ہونے والے قتل عام کا ایک
چشم دید گواہ ہے وہ کہتا ہے کہ ’’میں نے 46لاشیں اکیلے نکالیں اور پھر چار
دن تک کچھ کھا نہیں سکا۔ ایک چند ماہ کی بچی کی لاش کو میں بالکل بھول نہیں
سکتا، جسے زندہ جلادیاگیا اور پھر ایک ایسی لاش دیکھی جس سے میرے اوسان خطا
ہوگئے میں تڑپ اٹھا اس لاش کو ماں کے پیٹ سے چیر کر باہر نکال کر ذبح
کردیاگیاتھا‘‘۔ انہوں نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے علاقے
میں شامی فو ج نے حملہ کیا پہلے بچوں کو الگ کیا جن کی تعداد 40کے قریب تھی
انہیں ماں باپ کے سامنے نیست ونابو دکردیاگیا، کچھ بچوں کو چھریوں سے ذبح
کردیا گیا، اورپھرعورتوں کو اور بڑوں کو ماردیاگیا، اور کچھ لوگوں کو آگ
میں ڈال کر بھون دیاگیا۔ پھر اپنے بچوں اور عورتوں کے موت کے ہولناک مناظر
دیکھنے والے ان بے بس نوجوان مردوں کو بھی آخر میں گولیاں چلا کر شہید
کردیاگیا۔ اسی طرح ایک اور اجتماعی قتل عام میں شام کے علاقہ بائیدہ اور
راس النبیہ سے 322لاشیں ملی ہیں لاشیں کیا ہیں، بلکہ ان کی باقیات دستیاب
ہوئی ہیں، اس وقت اس علاقہ میں کے 800افراد ہنوز لاپتہ ہیں اور عام خیال ہے
کہ ان سب کی شامی صدر بشارالاسد حکومت کیلئے بلی چڑھادی گئی ہے۔ کئی بچوں
کی جلی ہوئی لاشیں، اس حال میں ملی ہیں کہ وہ خوف سے ا یک دوسرے سے چمٹ گئے
تھے اور اسی حالت میں ظالم فوجوں نے انہیں سپرد آگ کردیا۔ اسی بائیدہ کے
قتل عام پر ایک فوجی سے کسی نے کہا کہ تم اس طرح خونخوار کیوں بنے ہوئے ہو
تو اس نے کہاکہ اگر ہم نے اس علاقے کے ایک بھی آدمی کو زندہ چھوڑ دیا تو
اعلیٰ افسران ہمیں زندہ نہیں چھوڑیں گے وہ ہمیں ماردیں گے۔ وہ اپنی بربریت
کی داستاں بے شرمی سے سناتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک ہال میں 100عورتوں کو
اکٹھا کیاگیا پھر سبھی کو باری باری چھرے سے ذبح کردیاگیا جب فوجی بائیدہ
کو تہ وتیغ کرکے واپس جارہے تھے تو تمام گلیاں اور چوک لاشوں سے اَٹے پڑے
تھے۔
آج سے دو سال قبل مشہور عالم دین شیخ یوسف القرضاوی نے فتوی دیا تھا کہ
’’شام میں جہاد فرض ہوگیا ہے، انہوں نے شامی صدر بشارالاسد کی حمایت میں
ایران روس اور حزب اللہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ انہوں نے اس
فتوی میں کہاتھا کہ تنظیم حزب اللہ نے اپنے عزائم سے پردہ ہٹا کر یہ ثابت
کردیا کہ وہ حزب اللہ نہیں بلکہ حزب الشیٰطین والطاغوت ہے۔ انہوں نے مزید
کہاتھا شامی حکومت اور حزب اللہ کے خلاف جہاد عین اسلامی تعلیمات کے مطابق
جائز ہے اور اس میں عامۃ الناس اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں پر شام میں
جاری جہاد میں حصہ لینا ضروری ہے۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ وہاں تو بم باری
ہورہی ہے اور ہم خواب خرگوش میں مدہوش ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم وہاں جاکر
ان کی مدد کریں لیکن اتنا تو کرسکتے ہیں کہ ان کے لئے دعا کریں… شامی
قونصلیٹ میں جاکر اپنا احتجاج درج کروائیں…حکومت ہند کو مجبور کریں کہ وہ
شام سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرے۔ لیکن نہیں ہم اپنے اپنے روز مرہ کے
کاموں میں مصروف ہیں… ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں … حالانکہ مسلمان ایک جسم
کے مانند ہے پوری دنیا میں کہیں بھی ایک مسلم پر کوئی آفت آئے تو تقاضہ
یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ اس کی امداد کے لے ٹوٹ پڑے لیکن نہیں ہمیں اس سے
کیا فرق پڑتا ہے۔ اتنا یاد رکھیں…! قیامت کے دن ہم سے یہ ضرور پوچھا جائے
گا کہ شام والے کیا انسان نہیں تھے...؟ حلب جل رہا تھا لیکن تم سوئے رہے …
ماوں کی عصمتیں تار تار ہوتی رہی تم مدہوش رہے …بہنوں کے دوپٹے جلائے جاتے
رہے ، تم بے خبری میں پڑے رہے … بچوں کی سسکیاں آسمان تک پہنچتی رہی
تمہارے کان بہرے رہے … بوڑھے درد سے کراہتے رہے تم بے درد بنے رہے … عفت
نشیں بہنوں کے دوپٹے جلائے جاتے رہے تم باہر سڑکوں پر تاڑتے رہے… نوجوان
امت مسلمہ کی طرف آس لگائے رہے لیکن تم بے حسی کی چادر تانے سوتے رہے…!
|
|