تیرا کیا بنے گا۔ کالیا۔؟
(ajmal malik, faisalabad)
وفاقی وزیر خواجہ آصف کا ٹوئیٹ۔تیرا کیا بنے گا ۔ کالیا ۔؟۔جواز ۔جرم کے برابرتھا۔اسےخودکلامی بھی کہہ سکتے ہیں۔انہوں نے جو کہا وہ فلم میں گبھر سنگھ نے کہا تھا ۔اب خواجہ صاحب کو گبھر تو نہیں کہا جا سکتا۔ وگرنہ حالات حاضرہ میں توبسنتی کا جملہ فٹ بیٹھتا ہے۔’’بھاگ دھنو۔ آج تیری بسنتی کی عزت کا سوال ہے‘‘۔ شعلے کے بہت سے ڈائیلاگ بہت ہٹ ہوئے تھے۔جیسے۔۔ یہ رام گڑھ والے اپنی بیٹیوں کو کون سی چکی کا آٹا کھلاتے ہیں۔۔جو ڈر گیا وہ مر گیا۔جب تک تیرے پیر چلیں گے۔اِس کی سانسیں چلیں گی۔ ۔اورمشہور زمانہ ڈائیلاگ۔کتنے آدمی تھے۔ ؟۔ سردا ر۔دو آدمی۔۔
حسن اور حسین نواز۔۔!
|
|
|
شعلے فلم میں سردار اور کالیا کی تصویر |
|
اگر میں یہ کہوں کہ سیاستدان جوکام اقتدار
میں آکر۔ کرتے ہیں وہ ہم بچپن میں کرتے تھے۔ توغلط نہیں ہوگا۔میں
چھوٹاپے۔میں کافی لالچی تھا۔اماں کچھ لینے بھیجتی تو ریزگاری مارلیتا۔ کبھی
کبھار مکھن ٹافی کھالیتااورکبھی ٹیڈی بسکٹ ۔گچک اور مرتبان میں رکھی برفی
دیکھ کرمُنہ سیلابی ہوجاتا۔ میرا بھی ایک آف شورگُلک تھا۔ تب بوتلیں گھروں
میں مہمان کے آنے پر آتی تھیں۔گھرمیں چابی نہیں ہوتی تھی۔ دکاندار بوتل
کھول کر تھما دیتا۔ واپسی پر چُسکی تو مسٹ ہوجاتی۔مہمان جتنے زیادہ آتے
چُسکیاں اُتنی ہی بڑھ جاتی تھیں۔ تب ایک سے زائدبوتلیں چھکُو میں لاتے
تھے۔بڑے پارکس میں جائیں تو وہاں مالشیے۔مختلف رنگ و قسم کے تیل سٹینڈ میں
لگا کرگھومتے ہوتے ہیں۔ناں۔؟۔بالکل ویسا ہی چھکُو۔زمانہ بدلا تو چابی ۔
چھکُو کے ساتھ یوں لٹکنے لگی ۔جیسے سبیل کے ساتھ گلاس۔میری جیب اور منہ
اکثر بھرا رہتا۔ بچے پیٹو ہوتے ہیں میں کھاٹو تھا۔۔۔میرادوست مرید آج فُل
موڈ میں تھا۔خود احتسابی کی پہلی قسط لیک کر دی تھی۔خود کلامی مسلسل جاری
تھی۔چھونے ۔چکھنے اور سونگھنےسمیت سارے حواس کی میراتھن لگی تھی۔صرف کان
میرے پاس تھے۔مرید کا بچپن خراب گاڑی کےانجن کی طرح بکھرا پڑا تھا۔ٹائمنگ
آوٹ تھی ۔ ریڈی ایٹر، پسٹن اور آئل فلٹر بکھرے پڑے تھے۔مرید ایک بار
جھگڑکر روتا ہوا گھر آیا۔
ابا:جس سے لڑائی ہوئی ہے تم اسے پہچان لو گے۔؟
مُرید:کیوں نہیں ابا ۔؟اس کاناک ابھی تک میری جیب میں ہے۔
اسے جو کچھ ملتا ۔ جیب میں ڈال لیتا۔جیسے رشوت اور کمیشن جیب میں ڈال لیا
جاتا ہے۔تبھی تو وہ کہتا ہے کہ سیاستدانوں والے کام میں بچپن میں کرتا
رہاہوں۔ آج بچپن کی کارستانیاں۔ را طوطے کی طرح اچانک بولنے لگی تھیں۔دماغ
سے وہی تحریک اٹھی تھی۔ جو کبھی کبھارتحریک انصاف کے سربر اہ عمران خان میں
جاگ پڑتی ہے۔ عمران خان ایسے سادہ آدمی ہیں ۔کہ انہیں کوئی بھی شخص ۔ کچھ
بھی بتا دے تو وہ سچ مان لیتے ہیں۔ صاف گوئی ان کی وجہ بدنامی ہے اور
اعتراف غلطی۔ جرم ہے۔ وہ کانوں کے کچے ہیں۔ بلکہ زبان کے بھی۔ اس بار ان کے
ساتھ نیا ڈرامہ ہونے والا ہے۔متحدہ اپوزیشن کا ڈرامہ۔سارے کردار خود کلامی
میں لگے ہیں۔ احتساب۔اور۔ استعفی سب کچھ مانگا جا رہا ہے۔اورمیاں نواز شریف
کا جواب ہے۔۔۔یہ منہ اور مسور کی دال۔پاکستان کو آج تک مرید جیسا و زیر
اعظم نہیں ملا ۔ خود کلامی کرنے والا۔وہاں کھایا پیاہضم کیا ۔والا سسٹم
رائج ہے۔
خاتون ( پڑوسن سے):میراشوہر اتنا بھلکڑ ہے ۔کبھی کوٹ بھول آتا ہے۔کبھی
چھتری اور عینک۔آج ٹماٹر لینے بھیجا ہے۔شرط لگا لو۔بھول جائے گا۔
شوہر (گھر داخل ہوتے ہوئےزور ۔زور سے):بیگم۔ یہ دیکھو۔۔مجھے ایک خبطی ملا۔
ہزاروں نوٹ دے کربھاگ گیا۔ اور نوٹوں کا ڈھیرلگا دیا۔
بیوی( پڑوسن سے):دیکھا تم نے ۔ ٹماٹر لانا بھول گئے۔
حسین اور حسن نواز بھی ٹماٹر لانا بھول گئے تھے۔کوئی خبطی انہیں کروڑوں دے
کر بھاگ گیاتھا۔انہوں نے آف شور کمپنیاں بنا لی تھیں۔آج ایک اور خبطی ان
سے ٹماٹروں کاحساب مانگ رہا ہے۔خبطیوں کے منہ ٹماٹر ہو چکے ہیں۔۔جن دنوں
آف شور کمپنیوں کا چرچہ تھا۔ تب عمران خان۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کی
مشترکہ تصویر پر معروف دانشور انور مقصود نے ٹوئیٹ کیا تھا۔’’عمران خان
اپنی اے ٹی ایم مشینوں کے ساتھ ‘‘۔اچانک سارے بھید کھل چکے تھے۔ راز راز نہ
رہا تھا۔ جہانگیر ترین اور علیم خان بھی آف شور کمپنیوں کے مالک نکل آئے
تھے۔ترین اور علیم بھی ۔ نواز کی صف میں کھڑے تھے۔اسی صورتحال پروفاقی وزیر
خواجہ آصف نے شعلے فلم کا ڈائیلاگ ٹوئیٹ کیا ۔تیرا كیا بنے گا ۔كالیا۔؟ یہ
سوال ۔ اُس ملزم جیسا تھا جو اعتراف جرم کے بجائے ۔جواز جرم تلاش کرتا ہے۔
یہ منہ اور مسور کی دال جیسا۔جواز۔ اس جُگتی ٹوئیٹ کےبعد ترین اور علیم
نےاپنی صفائی میں وزیر اعظم کا بیان کاپی کیا۔میڈیاپر اپنی پارسائی کا چرچہ
کیا ۔مرید جیسا خود احتسابی وہاں بھی کوئی نہ نکلا۔
خودکلامی ایسی کیفیت ہے جس میں انسان خودسےباتیں کرتا ہے۔وگرنہ خود کُشی کر
لے۔ ڈرامہ نگاری کے معروف معلم۔ولیم شیکسپیئر کے ڈراموں میں اکثر کردار خود
کلامی کے ماہر تھے۔معلم ۔لفظوں سے واقعات اور جذبوں سے کردار۔زندہ کرنے کا
ہنر جانتا تھا۔ناقدین کا خیال ہے کہ خود کلامی نے شیکسپیئرکی نجی زندگی سے
پردا۔ اٹھایا۔نسل نو کی شاعرہ پروین شاکر ۔کا دوسرا مجموعہ کلام ’’خود
کلامی‘‘ تھا۔ جذبات قطاراندرقطار کھڑے تھے۔محققین کہتے ہیں کہ خود کلامی
سےذہنی دباؤکنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ اپنے ضمیر کی آواز سننے سے غصہ کم ہوتا
ہے۔بالکل مرید کی طرح۔میرا گمان بھی یہی ہے ’’ الفاظ کے ذریعے جذبات کا
بہنا ز ندگی ہے اورخاموشی موت۔خاموشی مقناطیسی طاقت کی طرح شور اپنے
اندرکھینچ سکتی ہے۔ماتم، نوحے، سوگ ، الم اورسوز و گداز کا قبرستان بھی
خاموشی ہی ہے‘‘۔تبھی تو کہتے ہیں کہ ’’خاموشی کا ادب کرو یہ آوازوں کی
مرشد ہوتی ہے‘‘۔
ہمارے گھروں میں بیوی مرشد ہو تی ہے اور بچے ہوجانے پر بیوی بطور ماں مرشد
بن جاتی ہے۔مرشدی کی سب سے مشکل گدی یہی ہوتی ہے۔جس میں بچوں اور شوہر کے
بھید چل کر خود پاس آتے ہیں۔اتنے سارے راز کہ اماں اپنا ایک ذاتی۔’’پانامہ
لیکس‘‘ جاری کرسکے۔ہر سال۔میری اماں ٹوٹلی ان پڑھ تھی۔ جیب کے اندر جو کچھ
بھی ہوتا تھا ۔اماں ماتھےسے پڑھ لیتی۔لڑکپن جب جوانی کی دہلیز پر دستک دے
رہا تھا۔ تب میری جیب ویسے ہی پھولی ہوتی تھی جیسی نہر میں ہوا بھری ٹیوب
ہوتی ہے۔ شادی ہوئی تونصیبو نے مادی اورمالی ضروریات کی طویل فہرست بنا دی
۔پھر آف شور اکاونٹ بنانا پڑگئے۔بیوی کے سامنے دم مارنے کی مجال کسے ہوتی
ہے۔؟دل و دماغ میں آتش فشاں بنتے گئے۔پھر خود کلامی کی عادت پڑ گئی ۔ضروری
نہیں کہ خود کلامی۔خوش کلامی بھی ہو۔جوبیویاں دن بھر رعب ڈالتی ہیں ان کے
شوہر رات بھر خود کلامی کرتے ہیں۔مریدابھی تک بولے جا رہا تھا۔اس کا آتش
فشاں بھراپڑا تھا۔ کاش میں نے ریزگاری نہ ماری ہوتی۔؟
وفاقی وزیر خواجہ آصف کا ٹوئیٹ۔تیرا کیا بنے گا ۔ کالیا ۔؟۔جواز ۔جرم کے
برابرتھا۔اسےخودکلامی بھی کہہ سکتے ہیں۔انہوں نے جو کہا وہ فلم میں گبھر
سنگھ نے کہا تھا ۔اب خواجہ صاحب کو گبھر تو نہیں کہا جا سکتا۔ وگرنہ حالات
حاضرہ میں توبسنتی کا جملہ فٹ بیٹھتا ہے۔’’بھاگ دھنو۔ آج تیری بسنتی کی
عزت کا سوال ہے‘‘۔ شعلے کے بہت سے ڈائیلاگ بہت ہٹ ہوئے تھے۔جیسے۔۔ یہ رام
گڑھ والے اپنی بیٹیوں کو کون سی چکی کا آٹا کھلاتے ہیں۔۔جو ڈر گیا وہ مر
گیا۔جب تک تیرے پیر چلیں گے۔اِس کی سانسیں چلیں گی۔ ۔اورمشہور زمانہ
ڈائیلاگ۔کتنے آدمی تھے۔ ؟۔ سردا ر۔دو آدمی۔۔
حسن اور حسین نواز۔۔! |
|