مرغْ۔۔۔مرغوں کی لڑائی ۔۔۔اور ہماری زندگی
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
انسان کی زندگی میں دو چیزوں کی اہمیت بہت
زیادہ ہوتی ہے اول ہاضمہ اور دوئم حافظہ ۔۔۔اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا
کریں کہ آپ کا حافظہ اور ہاضمہ دونوں ٹھیک ہیں اور دعاگو رہا کریں کہ آپ کے
ہاضمہ کو کسی کی نظر نہ لگے بلکہ یہ دن بدن ترقی کرتا رہے لیکن حاسد زدہ
لوگوں کی نظروں سے بچ کر رہنا ہو گا نہیں تو وہ آپ کو مختلف ناموں سے بلانا
شروع کردیں گئے جیسا کہ پیٹو، بسیار خور، رزق کی تباہی اور بعض اوقات تو
ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو دیکھتے ہی لوگ بے ساختہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ اس کا پیٹ
ہے یا کہ خندق۔۔۔یار یہ بہت کھاتا ہے۔۔۔گھر بیگانہ ہے مگر پیٹ تو اپنا ہے۔۔۔۔ادھر
میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید صاحب کا قطعہ بیان کرتا جاؤں :
ڈونگے کی طرف جمپ لگاتے نہیں دیکھا
اور مرغ پلاؤ کو اُڑاتے نہیں دیکھا
جس شوق سے کل لنچ کی دے ڈالی ہے دعوت
لگتا ہے تم نے اسے کھاتے نہیں دیکھا
میرا موضوع آج مرغے کے اوپر ہے پنجابی کا ایک ڈرامہ تھا کہ جس میں مرغے کی
دعوت والے دن موصوف بار بار فرما رہے تھے کہ "آج میں وہی ککڑ کھاساں(آج میں
بھی مرغا کھاؤں گا)۔ـ" فارسی میں مرغے کو خروس کہتے ہیں خروس کا ہم قافیہ
جھڑوس بھی ہوتا ہے لیکن احتیاط کی بات ادھر یہ کہ مرغے کو کبھی غلطی سے بھی
جھڑوس نہ بو ل دیناکیونکہ جھڑوس کا مطلب ہوتا ہے خرانٹ بڈھا۔۔۔مرغوں کی بات
کی جائے تو ماہرین ِ نفسیات نے انسانی نفسیات پر بہت کام کیا جو ان کی شہرت
کا سبب بھی بنا لیکن ان کے اس سارے کام میں مرغوں کا نام کہیں بھی نہیں
آیاجس کی وجہ سے مرغوں کے اندر کافی مایوسی پائی گئی، یہ ہی نہیں بلکہ
ارسطوسے لے کر افلاطون تک کسی مفکر کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ مرغوں کے
احساسات و جذبات کے بارے میں دو لفظ ہی کہہ دیئے ہوتے۔ ہاں مگر غالب کے
اشعار میں مرغوں کی حوصلہ افزائی ہوتی نظر آتی ہے ، کیونکہ انھوں نے اپنے
اشعار میں مرغوں کو بڑی پذیرائی دی۔ اب بات کرتے ہیں مرغوں کی تو تمام ہی
مرغے بے حد نیک ، شریف اور صلح پسند ہوتے ہیں ، آواز بھی نہایت سریلی رکھتے
ہیں، یہی وجہ ہے کہ منہ اندھیرے اس کی بانگ اچھی اور شام کوبری لگتی ہے،
ہاں ادھر ایک بات مرغے کو جب آپ پکڑنے کی کوشش کریں چاہے کہ وہ آپ کے پڑوسی
کا ہو یا آپ کا اپنا۔۔۔اچھے کے لیے پکڑیں یا کہ برے کے لیے تب اس کی آواز
میں دنیائے فانی کا سارا دکھ سمٹ آتا ہے کیونکہ اس کے تحت الشعور میں یہ
خوف جاگزیں ہو جاتی ہے کہ آج محفل منائی جانی ہے۔۔۔آج مہمانوں کی آمد
ہے۔۔۔لڑکوں کی نظرمیں آج آگیا ہو۔۔۔ یا پھر میں ٹھیک ہو ں اور ماسی بولتی
ہے کہ میں بیمار ہوں اس سے قبل کہ میں مر جاؤں مجھ کو ذبح کر دیا
جائے۔۔۔خیر ہر بہانے سے مرغے کو اپنی موت ہی نظر آرہی ہوتی ہے تب ہی غالب
نے اس کیفیت کو ایسے بیان کیا کہ:
ڈرنالہ زار سے میرے، خدا کو مان
آخر نوائے مرغ گرفتار بھی نہیں!
اگر مرغوں کی نفسیات کا باریک بینی سے جائزہ یا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
ان کے لاشعور میں کئی طرح کے خوف جاگزیں ہیں مثلا ً چھری کا خوف، بلی کا
خوف، رانی کھیت کی بیماری کاخوف، جنگلی جانوروں کا خوف اور سب سے زیادہ گلی
کے اوباش لڑکوں کا خوف، جن کی بنا پر یہ رفتہ رفتہ انتہائی قنوطی ہو جاتے
ہیں، ہر چیز میں تاریک پہلو کی تلاش کرتے ہیں، ان کو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ
دنیا میں صرف ان ہی کہ صحیح مقام نہیں مل رہا اور اکثر اس کی عزت ِنفس کو
بھی مجروح کیا جاتا ہے۔۔۔جیسے بازارمیں یخنی بیچنے والا سیخ کے اوپر ننگا
مرغے لو لٹکاکر دیکچے سے گرم پانی بار بار اس کے اوپر ڈال کر یخنی کا نام
لیتا ہے۔۔۔برڈ فلو یا دیگر بیماری کے دنوں میں ان مرغوں کے نزدیک تک جانا
تو درکنا ر بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ان کو زمین کے اندر تلف کر دیا جاتا
ہے پھر ایسے حالات میں یہ قنوطی نہ ہوں تو پھر کیا ہوں۔ ۔۔؟؟؟ یہ ہی نہیں
بلکہ ادھر ایک بات اور بیان کرتا جاؤں کہ مرغوں کے قنوطی ہونے اور ہم
انسانوں کی بے حسی کی سب سے بڑی نشانی تو یہ ہے کہ میرے سمیت آپ سب نے بھی
کبھی کسی میلے ، گاؤں یا کسی شہر میں دیکھا ہوگا کہ تیس چالیس لوگ دائرے کی
شکل میں زمین پر اکڑوں بیٹھے ہوتے ہیں اور نہایت جو ش و خروش کے ساتھ نعرے
لگا رہے ہوتے ہیں کہ "شاباش ، شاباش"مار دے اسکو۔۔۔! "آپ قریب جا کر دیکھیں
تو معلوم ہوتا ہے کہ دائرے کے درمیان دو عدد خونم خون مرغ آپس میں لڑ رہے
ہوتے ہیں ، ان کے ظالم مالکوں نے اپنے اپنے مرغوں پر شرطیں لگائی ہوتی ہیں،
آخر ایک مرغ بھاگ جاتا ہے یا مر جاتا ہے ، جیتنے والے شخص کے ہاتھ میں
شرطوں کے نوٹ آجاتے ہیں ادھر آپ اگر یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ مرغے بھی
ظالم ہوتے ہیں اپنے دوسرے بھائی کو مار دیتے ہیں تو آپ بالکل غلط سوچ رہے
ہیں یہ تو صرف دانے کے محتاج ہوتے ہیں جو ان کو ان کا مالک دیتا ہے ، اصل
میں ان کو آپس میں لڑانے والے پس پشت کوئی اور ہاتھ ہے ۔۔۔جن کو بے نقاب
کرناہوگا ۔۔۔؟؟؟تاکہ وہ معصوم مخلوق کو لڑانے کا کام چھوڑیں۔۔۔آخرمیں یہ کہ
ہمارے معاشرے کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم کتوں کی لڑائی ، بٹریوں کی
لڑائی ، دھمبوں کی لڑائی ، گھوڑوں اور اونٹوں کی لڑائی بڑے مزے لے لے کر
دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر ہم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ ہم یہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔؟؟؟
ان میں سے کوئی ایک بھی اُٹھ کر ان کی مخالفت کرنے کھڑا ہوا ہے ۔۔۔؟؟؟
یقینانہیں البتہ لڑائی کے بعد ہم جیتنے والے کو بدائیاں دیتے ہیں ۔۔۔ اس کے
جانور کی تعریفیں کر کے اسکا حمایتی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ آئیے اس
برائی کو ختم کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔۔۔ہم اشرف المخلوق ہیں ہمدردی و دوستی
کی داستانیں قائم کرنے کے بجائے کن کاموں میں مگن ہو گئے ہیں۔ |
|