سینیٹرمحمد محسن خان لغاری نے دروازہ کھولا
اور بڑے تپاک سے ملے،حال احوال پوچھا اوررہنمائی کرتے ہوئے اپارٹمنٹ کے
اندر لے گئے۔ ایک صحافی اور سیاست دان جب مل کر بیٹھتے ہیں تو کیا بات ہو
سکتی ہے؟۔سیاست،سماج،انتخابات،پارلیمنٹ یا حالات حاضرہ کا ’’ ہاٹ ایشو‘‘ ،
ہم بھی پانامہ لیکس سے شروع ہوئے اور باتوں باتوں میں بلوچستان کی طرف ہو
لئے۔بلوچستان کی بات نکلی تو لغاری صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھری،بولے بلوچوں
کے لئے ہم نے کیا کیا؟ آپ کو کچھ دستاویزات دکھاتا ہوں ۔ملازم کو بھیجا کہ
گاڑی میں کچھ پیپرز پڑے ہیں وہ لے آؤ۔یہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو دی جانے
والی بریفنگ تھی ، میں نے کاغذات کا پلندہ پڑھنا شروع کیا تو حیرت کے مارے
منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہانی میں رنگ بھر رہا ہوں
!اس لئے سیدھا مدعے پر آجاتا ہوں ۔
ساڑھے تیرہ برس پہلے چار اکتوبر دوہزار دو کو آمر وقت پرویز مشرف نے
بلوچستان کی پیاسی دھرتی کو سیراب کرنے کے لئے کچھی کینال منصوبے کا افتتاح
کیا تھا۔تونسہ بیراج سے لے کر ڈیرہ بگٹی تک چار سوتین کلومیٹر طویل کچھی
کینال کے پی سی ون کے مطابق اسے تقریباََ پانچ برس میں جون دوہزار سات میں
مکمل ہونا تھا۔ اکتیس ہزار دو سو چار ملین روپے کے اس منصوبے کی منظوری
ایکنک نے ستائیس ستمبر دو ہزار تین کو دی تھی۔کچھی کینال سے بلوچستان کے
شہروں ڈیرہ بگٹی، نصیر آباد،بولان ، جھل مگسی اور آس پاس کے علاقوں میں
پانی کی بوند بوند کو ترسے بیس لاکھ بلوچیوں کو پینے کا پانی میسر آنا
تھا،ان اضلاع کے سات لاکھ تیرہ ہزار ایکڑ رقبے کو سیراب کرنا تھا۔جس سے
بلوچستان کے ان علاقوں میں فصلوں کی کاشت چار فیصد سے بڑھ کر اسی فیصد تک
جا پہنچتی اور زرعی شعبے میں سالانہ بیس ار ب روپے سے زائد کی آمدنی متوقع
تھی۔ منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف یہاں کے غریب عوام کی زمینوں کی قیمت میں
اضافہ ہو جاتا بلکہ ان علاقوں سے غربت اور بیروز گاری تقریباََ ختم ہو جاتی
۔غریب بلوچیوں کو اپنے گھروں میں باعزت روزگار میسر آتا اورمختلف زرعی
اجناس کی برآمد سے نہ صرف بلوچستان معاشی طور پر مستحکم ہوتا بلکہ بلوچستان
کی زمین سے اگنے والی فصل کا ہردانہ پاکستان کی جی ڈی پی میں اضافے کا باعث
بنتا۔ منصوبے کی تکمیل سے ڈیرہ بگٹی ، نصیر آباد ،بولان اورجھل مگسی سے
روزگار کی خاطر کوئٹہ ، کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میں نقل مکانی کا
سلسلہ رک جاتا او ر بڑے شہروں پر آبادی کا مزید دباؤبھی رک جاتا۔ لیکن
بلوچستان اور پاکستان دونوں کی بدقسمتی کہ یہ منصوبہ آج بھی ادھوراہے۔
پرویز مشرف اس منصوبے کے آغاز کے بعد کم و بیش چھ برس تک ایوان اقتدار میں
رہے ۔ان کے دور میں کچھی کینال کی تعمیر کیلئے مجموعی طور پرتقریباََ
اٹھارہ ہزار چھ سو انتیس ملین روپے جاری کئے گئے ۔ ظاہر ہے اس رقم سے
منصوبہ مکمل نہیں ہوسکتا تھا۔ان کے بعد زرداری صاحب کا دور آیا اور انہوں
نے آغاز حقوق بلوچستان کانعرہ لگایا۔کسی کی نظر کرم کچھی کینال پر پڑی تو
انکشاف ہوا کہ منصوبے کی لاگت تقریبا دو گنا ہو کر انسٹھ ہزار تین سو باون
ملین روپے تک پہنچ چکی ہے۔منصوبے کا دوسرا پی سی ون جس کی مالیت ستاون ہزار
پانچ سو باسٹھ ملین روپے تھی ایکنک نے اس کی منظوری اکتیس دسمبر دوہزار
تیرہ کو دی۔ منصوبے کے پہلے دومرحلوں کی تکمیل کی تاریخ اکتیس دسمبر دوہزار
چودہ اور تیسرے مرحلے کی تاریخ تکمیل جون دوہزار پندرہ مقرر کی گئی ۔ ۔پیپلزپارٹی
کے پانچ سالہ دور میں کچھی کینال کی تعمیر کے لئے تقریباََ سترہ ہزار چھ
سوچوبیس ملین روپے جاری کئے گئے لیکن پھر بھی یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔
وزیراعظم نوازشریف کے موجودہ دور حکومت میں اب تک کچھی کینال کی تعمیر کے
لئے اٹھارہ ہزار بہتر ملین روپے سے زائد رقم جاری کی جا چکی ہے لیکن منصوبہ
مکمل ہونا تھا نہ ہوا ۔اسی دوران تیرہ برس بعدہمارے ’’ماہرین ‘‘ پر یہ
انکشاف ہو ا کہ منصوبے کی مالیت میں مزید اضافہ ہو چکا ہے ۔ انہوں نے اکیس
دسمبردوہزار پندرہ کو منصوبہ بندی کمیشن میں ایک لاکھ دوہزار اٹھہترملین
روپے کا ایک اور پی سی ون منظوری کے لئے ارسال کر دیا۔جس کی منظوری سے یہ
خاکسار تاحال لاعلم ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے اس سے پہلے
صرف دو نہروں کا پانی دستیاب ہے ۔ پہلی پٹ فیڈر جو کشمورکے قریب گڈو بیراج
سے نکلتی ہے اور دوسری کیرتھر کینال جو سکھر بیراج سے نکالی گئی ہے۔ لیکن
حیرت انگیز طور پر اس منصوبے کو گڈو یاکوٹری بیراج سے شروع کرنے کی بجائے
تین سو چھ کلومیٹر پیچھے تونسہ بیراج سے شروع کیا گیا۔اگر کچھی کینال گڈو
یا کوٹری بیراج سے نکالی جاتی تو نہ صرف اس کی لمبائی تین چوتھائی سے بھی
زیادہ کم ہوکر صرف ستانوے کلومیٹر رہ جاتی بلکہ اس کی لاگت بھی اسی تناسب
سے کم ہوتی اور منصوبہ بھی جلد مکمل ہوتا۔
پانی تونسہ بیراج سے نکلے یا گڈوسے یا کوٹری سے یہ دریائے سندھ کا پانی ہو
گا لیکن ابھی تک میری سمجھ میں یہ سائنس نہیں آئی کہ کچھی کینال کو تونسہ
بیراج سے کیوں نکالا گیا۔لغاری صاحب میرا سوال سن کر مسکرائے اور بولے کہ
سندھ حکومت گڈو اور سکھر بیراج سے تو بلوچستان کو اس کے حصے کا پانی دیتی
نہیں تو کچھی کینال سے کیسے دے گی ۔ واہ سبحان اﷲ !سندھ پنجاب کو پانی چوری
کا الزام دیتا ہے لیکن خود بلوچوں کو ان کے حصے کا پانی نہیں دیتا۔میں نے
پوچھا کہ بلوچستان کے محمود اچکزئی قومی اسمبلی اور ان کی پارٹی کے سینیٹرز
عثمان خٹک اور اعظم موسیٰ خیل تو پارلیمنٹ میں ہربات پر بلوچستان کے حقوق
کی بات کرتے ہیں لیکن ہم نے آج تک ان کے منہ سے اس منصوبے کانام نہیں سنا ۔
کہنے لگے اس لئے کہ کچھی کینال سے بلوچستان کے جو علاقے سیراب ہوں گے وہاں
بلوچ اکثریت ہے ۔محمود اچکزئی بلوچستان کے پشتونوں کی نمائندگی کرتے ہیں وہ
کیوں بلوچوں کی خوشحالی کے اس منصوبے پر اپنی توانائی خرچ کریں ؟۔ یہ سن کر
میں اپنا سا منہ لے کر رہے گیا۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے کچھی کینال منصوبہ وزیراعظم نواز
شریف کی نظر سے گزرا تو انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دریافت کیا کہ
اس قدر اہم منصوبہ ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوسکاجس پر وزیراعظم کو ڈیر ہ
بگٹی تک کچھی کینال کی تعمیر کے لئے اکتیس دسمبر دوہزار سولہ کی تاریخ دی
گئی ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی واٹرا ینڈ پاور کو لیکن بتایا گیا ہے کہ
منصوبے کی رواں برس تکمیل کے لئے بھی مزید دس ارب روپے درکارہیں۔یعنی اکتیس
ہزار دوسوچارملین کے منصوبے پر چون ہزار تین سو پچیس ملین روپے سے زائد رقم
خرچ ہوچکی ہے او رمزید ایک ہزارملین روپے نہ ملے تو منصوبہ پھر ادھورا ہی
رہے گا۔سرائیکی کہاوت ہے ’’بیورو کریسی ، کُج نہ کریسی ‘‘(بیورو کریسی کچھ
نہیں کرے گی)۔
میرا خیال ہے میری طرح وزیراعظم محمد نواز شریف کوبھی اس تاریخ پر کوئی
اعتبار نہیں اسی لیے انہوں نے سارے معاملے کی جانچ کا حکم دیا ہے۔تحقیقات
کا نتیجہ کیا ہوگا یہ میں نہیں جانتا لیکن میری یہ خواہش ضرور ہے کہ
وزیراعظم اس منصوبے کو اتنی ہی اہمیت دی جتنی اقتصادی راہداری منصوبے کو دی
جارہی ہے کیونکہ فرد کی خوشحالی کے بغیر اقتصادیات کی بہتری کا خواب شرمندہ
تعبیر نہیں ہوسکتا۔
واﷲ عالم باالصواب
|