کئی افراد کیلئے سفر کرنا بہت خوشگوار ہوتا
ہے کیونکہ دوران سفر ہر شے سے بے نیاز ہو کر یاتو تمام راستے سوئے رہتے ہیں
یا خوبصورت مناظر سے انجوائے کرتے ہیں اور کئی لوگ اتنا خوفزدہ ہوتے ہیں کہ
سانسیں تک روک لیتے ہیں ،ذاتی کار یا پبلک ٹرانسپورٹ مثلاً بس یا ٹرین کا
سفر کچھ زیادہ ہی کٹھن اور صبر آزماء ہوتا ہے جبکہ بائی ائیر سفر کرنا جتنا
آرام دہ ہوتا ہے اتنا ہی خطرناک بھی ،دوران فلائٹ تقریباً ہر انسان کو یہی
دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کوئی فنی خرابی نہ پیدا ہو جائے یا پائلٹ اگر ستو پی
کر کاک پٹ میں بیٹھا ہے تو طیارے کو زمین پر نہ پھینک دے لیکن ایسا شاذ
ونادر ہی ہوتا ہے کہ طیارے میں فنی خرابی پیدا ہو یا پائلٹ دھت ہو کر اڑان
بھرے کیونکہ زیادہ تر حادثات مسافروں کی لاپرواہی اور سفری اصولوں کی
پابندی نہ کرنے سے ہی پیش آتے ہیں۔عام طور پر دوران پرواز اگر طیارے میں
فنی خرابی پیدا ہوجائے تو ٹاور سے رابطہ کرنے کے بعد اسے محفوظ ترین مقام
پر اتار لیا جاتا ہے،انٹر نیشنل ائیر کرافٹ ریگولیشن اور فلائٹس قوانین کے
تحت پائلٹس یا عملے کو کسی قسم کی ڈرگس لینے سے ممانعت ہے اس کے باوجود آئے
دن حادثات رونما ہوتے ہیں کیونکہ کئی مسافر عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ نہ
تو دوران پرواز کسی کروٹ آرام سے بیٹھتے ہیں اور نہ لینڈنگ کے وقت ،انہیں
شاید اپنی منزل پر پہنچنے کی کچھ زیادہ جلدی ہوتی ہے یا خوفزدہ ہوتے ہیں کہ
جلدی سے یہ مشین زمین پر اترے اور میں باہر چھلانگ لگاؤں۔ماہرین کا کہنا ہے
زیادہ تر حادثات سیٹ بیلٹ نہ باندھنے کی صورت میں پیش آتے ہیں ،زیادہ ہوائی
سفر کرنے والے افراد اپنی سیٹ پر بیلٹ باندھے بیٹھے رہتے ہیں سوائے واش روم
کے انہیں طیارے میں سیر سپاٹے کا کوئی شوق نہیں ہوتا اور انہیں کسی قسم کی
سفری ڈکٹیشن کی ضرورت بھی نہیں ہوتی جبکہ کئی مسافر سیٹ بیلٹ کی لائٹ آف
ہوتے ہی اپنی بیلٹ کھول دیتے ہیں جو ایک سنگین غلطی ہے،ائیر کرافٹ ماہرین
کا کہنا ہے لائٹ آف ہونے کے باوجود سیٹ بیلٹ نہیں کھولنی چاہیے کیونکہ
دوران پرواز اچانک کسی قسم کا حادثہ پیش آ سکتا ہے جس سے زخمی ہونے کا خدشہ
ہے۔ٹیک آف ،دوران پرواز اور لینڈنگ کے وقت عملہ اناؤنسمنٹ کرتا ہے کہ سیٹ
بیلٹ باندھ لیں لیکن کئی مسافر سنی ان سنی اور اپنی من مانی کرتے ہیں اور
ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات کو طول دیا جاتا ہے اور تو تڑاخ کے بعد بات ہاتھا
پائی تک پہنچ جاتی ہے۔پائلٹس یونین ایسوسی ایشن کے پیشہ ورانہ ماہرین کا
کہنا ہے لائٹ آف ہونے کے باوجود سیٹ بیلٹ کھول کر آزاد گھومنا خطرے کی
گھنٹی ہے کیونکہ اچانک فنی خرابی یا موسم کے تیور بدل جانے پر پیشگی اطلاع
کے بغیر طیارہ کسی بھی خطرناک سیچوئشن سے دوچار ہو سکتا ہے اور ان لمحات
میں پائلٹ طیارے کو سنبھالنے میں مصروف ہو جاتے ہیں فلائٹ کریوز ایسے حالات
سے واقف ہوتے ہیں اور فوراً اپنی سیٹ پر بیٹھ کر بیلٹ باندھ لیتے ہیں انہیں
لمحات میں اگر کوئی مسافر طیارے میں گھوم پھر رہا ہو تو اسے شدید نقصان
پہنچ سکتا ہے ،ایسے خوفزدہ لمحات میں پائلٹس طیارے کو سنبھالنے کے علاوہ
کسی بات پر دھیان نہیں دیتے کہ کسی مسافر نے سیٹ بیلٹ باندھی ہے یا نہیں
اور سیٹ بیلٹ کی لائٹ آن ہے یا آف ان کا کام طیارے اور مسافروں کی سیفٹی
ہوتا ہے اور تمام توجہ اسی طرف مرکوز ہوتی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اچانک
دوران پرواز رونما ہونے والے واقعات سے دو ہزار دس میں چھہتر مسافر شدید
زخمی ہوئے جن میں فلائٹ کریوز بھی شامل تھے جنہوں نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی
تھی۔امریکی فیڈرل بورڈ آف ایوی ایشن ایڈ منسٹریشن کے مطابق اچانک رونما
ہونے والے واقعات سے مسافروں میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور ایسی صورت میں اگر
کوئی مسافر سیٹ بیلٹ سے آزاد ہے تو وہ شدید مشکلات میں دوچار ہو سکتا ہے
طیارے کے ہچکولے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں انہی ہچکولوں کے سبب گزشتہ برس
اکیس مسافر دوران پرواز شدید زخمی ہوئے کیونکہ وہ اناؤنسمنٹ کے باوجود آزاد
گھوم پھر رہے تھے۔ماہرین کا کہنا ہے دوران پرواز سیٹ بیلٹ کا باندھے رکھنا
سنگین معاملات کی روک تھام ہے کیونکہ طیارے کے اچانک جھک جانے سے ڈھیلا
سامان ادھر ادھر گر اور پھیل سکتا ہے علاوہ ازیں طیارے کے تیزی سے زمین کی
سمت رخ ہونے پر مسافروں کے سر چھت سے ٹکرانے کا امکان ہوتا ہے اس لئے پوری
پرواز کے دوران سیٹ بیلٹ باندھے رکھنا اہم قرا ر دیا گیا ہے لیکن یہ ضروری
نہیں کہ سیٹ بیلٹ کو اتنی مضبوطی سے باندھا جائے کہ سانس ہی رک جائے تاہم
اتنا مضبوط لازمی ہے کہ اچانک رونما ہونے والے حادثے میں کم سے کم سر کو
کوئی نقصان نہ پہنچے اور دیگر جسمانی اعضاء محفوظ رہیں۔ماہرین نے مسافروں
سے پر زور اپیل کی ہے کہ ٹیک آف، دوران پرواز اور طیارے کے مکمل طور پر
گراؤنڈ ہونے تک سیٹ بیلٹ بندھی رہے کسی قسم کی عجلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے
کیونکہ مسافروں کا تحفظ ہی ہر ائیر لائنز کا اولین فرض ہے۔ |