مدر ڈے․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ ایک تجزیہ

ہرسال مئی کے دوسرے اتوارکو عالمی پیمانے پرپوری دنیامیں مدرڈے منانے کا عام سارواج ہوگیا ہے ، جس میں ماؤں سے محبت والفت کا اظہار کیا جاتاہے ، اولاد کی تئیں دی گئیں ان کی قربانیوں کو یاد کرکے عقیدت ومحبت کا گلدستہ ان کی خدمت میں پیش کیاجاتاہے۔

ماں خداوحدہ لاشریک لہ کاعطاکردہ وہ عظیم نعمت ہے جس کا متبادل دنیا میں ملنا مشکل ہے، وہ ماں جس نے برسوں پریشانیاں جھیل کر اپنی اولاد کو ترقی کے بام عروج تک پہونچایا، خود تکالیف برداشت کرکے اپنے بچوں کی راحت رسانی کے لیے کوشاں رہیں، ماں اولاد کے لیے پھولوں کی خوشبو، تشنگی کے عالم شیریں پانی، قدم قدم پر رہنمائی کرنے والی اور بہاروں کی برسات ہے ، جس کی چاہت سچی ، جس کی الفت و محبت لافانی، جس کے پیار ومحبت کے جذبات واحساسات میں نمائش اور دکھلاوا نہیں۔ماں وہ ہے جو رات میں اولاد کی ہلکی سی آہٹ سے چونک اٹھے،بستر گیلاہوجائے تو خود بھیگے پر رات گزار کر اپنے لاڈلے کو سوکھے بستر پر سلائے،بچہ پرسکون ہوتو خود کوسکون محسوس کرے، اس کے آرام سے خوش ہو، اور اس کی تکلیف سے غم زدہ وپریشان ہوجاتی ہو۔ان ساری خوبیوں کی مالک ماں ہے۔ اس ماں کے لیے سال میں صرف ایک دن ! بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اس ماں کی مامتا کو بیان کرتے ہوئے ایک شاعر یوں گویاہے ؂
ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش
میں نے ایک بار کہاتھا کہ مجھے ڈر لگتاہے

مدر ڈے کیاہے؟ اور اس کا رواج کب ہوا؟ اس سلسلے تاریخ نگاروں نے مختلف باتیں لکھی ہیں جن میں سے ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ:
ــ’’تاریخی اعتبار سے اس دن کاآغاز اپنے عہد کی ایک ممتاز مصلح شاعرہ، انسانی حقوق کی علمبردار اور فلاحی کام انجام دینے والی ایک خاتون جولیاوارڈ(Julia Ward)نے 1870عیسوی میں اپنی ماں کی یاد سے کیاتھا۔ بعدازاں 1877کو امریکہ میں پہلامدر ڈے منایا گیا تھااور 1908میں امریکی ریاست فلاڈیفیا میں انا میری جاروس(Anna Marie Jarvis) نامی اسکول ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو مدڈے کے نام پر منانے کاآغاز کیااور اس نے اپنی ماں این ریویس جاروس (Ann Reeves Jarvis)کی یاد میں اس دن کو قومی سطح پر منانے کی تحریک قائم کی اور باقاعدہ طور پر اس تقریب کا انعقاد امریکہ کے چرچ میں ہوا ،جس میں اس نے اپنی ماں کو پسندیدہ پھول پیش کرکے اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کیا ۔ اس وقت کے امریکی صدروڈرولس نے ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو قومی دن کے طورپر منانے کااعلان کردیا اور اس دن سے آج تک ہرسال مئی کا دوسرا اتوار مدرڈے کے طور پر منایا جاتاہے ۔ اسی مناسبت سے برطانیہ میں اس دن کو Mothering Sunadayبھی کہاجاتاہے۔‘‘

مختلف ممالک کے اعتبارسے مدر ڈے کی کوئی خاص تاریخ اور مہینہ متعین نہیں ہے بلکہ مختلف ممالک کے اعتبارسے اس کی تاریخ اور مہینہ متعین ہے۔ مثلا Kosovoمیں مدر ڈے فروری کے پہلے اتوار کو منایا جاتاہے، اسی طرح Norwayمیں فروری کے دوسرے اتوار کو نیزکسی ممالک میں مارچ مہینہ میں تو کہیں اپریل اور مئی کے مہینوں میں منایا جاتاہے ۔مذکورہ بالا مہینوں میں سب سے معروف مئی کا ہی مہینہ ہے اوراکثر ممالک اسی مہینہ میں مدرڈے منانے کا اہتمام کرتے ہیں اورہندوستان میں بھی یہی مہینہ مدڈے کے لیے مشہور ہے۔

اوپرجو باتیں بیان کی گئیں ہیں اس کا مقصد صرف تاریخی اعتبار سے اس دن کا آغاز کب اور کس طرح ہوا اس کو بیان کرناہے ؟

اب سوال یہ ہے کہ آخر مدر ڈے مناتے کیوں ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟۔

دراصل جن ممالک میں اس دن کا آغاز کیا گیا ہے وہاں کے لوگ یاتو اپنی ماؤں سے کوسوں دور رہتے ہیں یا پھر وہ اپنی مادی دنیا میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ انہیں اپنے والدین سے اظہار محبت کاکوئی وقت ہی نہیں مل پاتا،نیز اکثر مغربی ممالک میں لوگ اپنے بوڑھے والدین کو گھروں میں رکھنا پسند نہیں کرتے، بلکہ ان کو شہرمیں قائم شدہ اولڈ ہاؤس(Old House)میں منتقل کردیتے ہیں جہاں باضابطہ ان کی نگرانی اور دیکھ بھال ہوتی رہتی ہے۔شاید اسی لیے اس دن آغاز ہوا تاکہ والدین کم ازکم سال میں ایک بار ہی سہی اپنے لاڈلے کا دیدار تو کرلیں اور اس کی خیر خیریت سے واقف ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ بوڑھے والدین کو پورے سال بڑی شدت سے اس دن کے آنے کا انتظار رہتاہے ۔

پھر وہ اولادجن کی مائیں باحیات ہیں وہ ہرسال مئی کے دوسرے اتوار کو اپنی ماؤوں سے ملنے اور ان کی خدمت میں ہدیہ وتحائف اورسرخ گلاب پیش کرنے کے لیے حاضرہوتے ہیں۔اور وہ اولاد جن کی مائیں باحیات نہیں ہیں وہ لوگ ان کی قبروں میں حاضر ہوکر سفید پھولوں سے ان کی قبروں کا سجاتے ہیں ۔اس طرح وہ لوگ اپنی ماؤں سے محبت کا اظہار کرکے سال بھر کے لیے رخصت ہوجاتے ہیں۔

خود کو ترقی کی دہائی دینے والے اور اپنے آپ کو تعلیم یافتہ تصور کرنے والے مغربی ممالک کیایہ سمجھتے ہیں کہ سال بھر میں ایک دن مدرڈے اور فادر ڈے منالینے سے والدین کے تئیں جو ذمہ داریاں ہیں ان کو کماحقہ اداکردیاہے؟ یہ ہرگز ممکن نہیں ہوسکتاہے کہ جس ماں نے نو ماہ تک حمل کی دشواریوں کو برداشت کیا ہو اور پھر بڑی مشقت کے ساتھ اسے جنا اور پرورش کیا ہو وہ حقوق ایک دن میں کیسے اداہوسکتے ہیں؟

اسلام کے برخلاف قرآن وحدیث دین محمدی میں اﷲ رب العزت کی بندگی کے بعد سب سے پہلاحق والدین کا بیا ن کیاگیا۔

اﷲ تبارک وتعالیٰ نے والدین کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا’’ اور تیرے پروردگار نے حکم دے رکھا ہے کہ بجز اس ایک رب کے کسی کی پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک رکھنا ، اگر وہ تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں ،ان دونوں میں سے ایک یا دونوں ،تو ان سے کہیں چھی بھی نہ کہنااور نہ ان کو جھڑکنا ،اور ان سے ادب سے بات چیت کرنا اور ان کے سامنے محبت سے انکسار کے ساتھ جھکے رہنا اور کہتے رہنا کہ اے میرے پروردگا ان پر مہربانی فرما،جیساکہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ، پرورش کیا۔(بنی اسرائیل:۲۴-۳۲)

اسی طرح رسول اﷲ ﷺ کی بے شمار رواتیں ہیں جس میں آپ ﷺ نے والدین کی خدمت ان کے حقوق کو بیان فرمایا ہے : کہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر عمر اوررزق میں برکت کے خواہاں ہوتو والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ(رواہ احمد) کہیں آپ ﷺ نے فرمایا ’’رب کی رضامندی باپ کی رضامندی میں ہے اور رب کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے ‘‘(ترمذی)اسی طرح اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے ‘‘ (حاکم)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ’’ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، صحابہ نے سوال کیا ؟ کس کی ناک خاک آلود ہو اے اﷲ کے رسول ﷺ ؟ آپ نے جواب دیا جس نے اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو بوڑھاپے کی عمر میں پایا ہو اور اپنے آپ کو جنت مستحق نہ بنالیاہو‘‘ (مسلم)

مذکورہ بالا آیت کریمہ اور احادیث شریفہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ دین شریعت میں والدین کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے ، وہ ہمارے گھروں کے تاج ہیں ، ان کی سربراہی سے ہی گھر سرسبز وشاداب رہتے ہیں، گھروں میں خوشحالی بحال رہتی ہے، اور ان کی دعاؤں کے سایہ تلے ہماری زندگی بڑی سکون واطمینان کے ساتھ رواں دواں رہتی ہیں، وہ ہمیں مفید مشوروں سے نوازتے او دشواریوں کے وقت ہماری رہنمائی فرماتے ہیـں۔
لیکن افسوس ہمارااسلامی معاشرہ بھی مغرب کی نقلالی کرتے کرتے اسی ڈگر پر گامزن ہوتاجارہاہے، ہمارے یہاں بھی اولڈ ہاوس تعمیر کیے جانے کی باتیں ہورہی ہیں، ہم بھی والدین کے لیے سال میں ایک دن متعین کرکے ان کو یاد کرنے اور ان سے عقیدت ومحبت کا اظہارکرنے کی رسم جاری کرنے کی سعی میں ہیں، اورہمارا معاشرہ اس جنت اور رضائے الہی سے دامن بچاتانظرآرہاہے، مغرب کی اندھی تقلید ہمیں مہلک مقام تک لے جارہی ہے، جس سے ہماری عائلی قدریں پامال ہورہی ہیں، خاندانی چولیں ڈھیلی ہوتی جارہی ہیں اور ترقی کے بجائے تنزلی ہمارا مقدر بنتاجارہاہے ۔

اگر صحیح معنوں میں ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خاندانی اقدار کی قدر کرنے پڑے گی اور خاندان میں بھی سب اہم ترین والدین ہیں جب تک والدین کی دعاؤں کا سایہ ہم پر ہوگا ہم کبھی ناکام ونامراد نہیں ہوسکتے ۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :مَنْ سَرَّہٗ اَنْ یَمُدَّ لَہٗ فِیْ عُمْرِہٖ وَ یُزَادَ فِیْ رِزْقِہٖ فَلْیَبِرَّ وَالِدَیْہِ وَ لْیَصِلْ رَحِمَہٗ ’’ جو شخص یہ پسند کرے کہ اس کی عمر دراز ہو اور اس کے رزق میں برکت ہو تو اس کو چاہئے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے ‘‘ ۔ (رواہ احمد)
اﷲ سے دعاکریں اﷲ والدین کی قدرکرنے کی توفیق عطافرمائے۔ (آمین)
Sajid Hussain
About the Author: Sajid Hussain Read More Articles by Sajid Hussain: 11 Articles with 8190 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.