ایبٹ کا واقعہ سماجی زوال پزیری کا منہ بولتا ثبوت ہے

ایبٹ آباد کی عبرین کے ساتھ جو کچھ ہوا ،وہ سماجی زوال پزیری نہیں تواور کیا ہے؟ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سماجی و سیاسی اداروں کی گرفت کمزور ہے جوکہ خطرناک بات ہے۔ اداروں کو چلانے والے افراد ناکام ہوچکے ہیں ،یہ ادارے اپنے قیام کے بنیادی مقصد اور فلسفے کو بھول چکے ہیں، ان اداروں میں بیٹھے افراد کو ”مسلط افراد“ کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ فرد اور ادارے کے درمیان کشمکش جاری ہے، یہ کشمکش اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ اداروں کو ازسرِ نو اورجدید تقاضوں کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ڈھانچے کو بدل دیا جائے کیونکہ سماج کے اپنے قائم کردہ ”سیاسی اور سماجی ادارے“ فرد اور سماج کے درمیان ربط و تعلق کو سمجھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے سیاسی کے سماجی تحریک کی بھی ضرورت ہے۔ سیاسی تحریک ہمیشہ مفادات کے تحت گھومتی ہے ایسی تحریکوں کا مقصد صرف اور صرف سیاسی طور پر طاقت کا حصول اور اس کی انتہاہ صرف اقتدار پر قبضہ ہوتا ہے۔
 ترقی سے مراد کسی بھی سماج میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں میں ہونے والی تبدیلی ہے۔ سماجی تبدیلی کبھی بھی انفرادی نہیں ہوتی یہ ایک اجتماعی شعور کے پیدا ہو نے کادوسرا نام ہے اسی کو سماجی ترقی کہا جاتا ہے۔ سماج کی ترقی کی رفتار تیز یا سست ہو سکتی ہے اور کبھی بالکل زوال پذیری بھی۔ ایک سماج میں رہنے والے لوگوں میں جتنی زیادہ تعداد شعوری آگاہی رکھے گی، وہ اتنا ہی ترقی یافتہ ہونگے۔ معاشرتی ترقی کے بغیر دوسری کسی ترقی سے آپ سماج کو ترقی یافتہ قرار نہیں دے سکتے۔ سماج اجتماعی نفسیات یا شعورکی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے۔

افراد کے مجموعہ کو معاشرہ تو کہا جاسکتا ہے مگرترقی یافتہ معاشرہ صرف اس صورت ہوگا جہاں لوگوں کا طرز زندگی بہتر اور شعوری بیداری ہو، اس کے لیے سماجی اور سیاسی اداروں کا ہونا لازمی ہے یہی وہ ادارے ہوتے ہیں جو سماج کو آگے لے کرجاتے ہیں۔ یہ ادارے اپنے افراد کو زیادہ سے زیادہ” فکری بالیدگی،آزادی اورپائیدارامن“ فراہم کرنے میں اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔فکری بالیدگی،آزادی اورامن کے حوالے سے دیکھا جائے کہ پاکستانی سماج اس وقت کہاں کھڑا ہے کیا ہم بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں، یا ترقی کی رفتارسست ترین ہے کم ترقی یافتہ یا پھر ہم بحیثیت سماج زوال پذیری کا شکارہیں۔موجودہ حالات کو دیکھ کراس کا فیصلہ میں اور آپ یعنی ہم سب خود کریں ہمارا سماج کہاں پر کھڑاہے۔

ایبٹ آباد کی عبرین کے ساتھ جو کچھ ہوا ،وہ سماجی زوال پزیری نہیں تواور کیا ہے؟ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سماجی و سیاسی اداروں کی گرفت کمزور ہے جوکہ خطرناک بات ہے۔ اداروں کو چلانے والے افراد ناکام ہوچکے ہیں ،یہ ادارے اپنے قیام کے بنیادی مقصد اور فلسفے کو بھول چکے ہیں، ان اداروں میں بیٹھے افراد کو ”مسلط افراد“ کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ فرد اور ادارے کے درمیان کشمکش جاری ہے، یہ کشمکش اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ اداروں کو ازسرِ نو اورجدید تقاضوں کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ڈھانچے کو بدل دیا جائے کیونکہ سماج کے اپنے قائم کردہ ”سیاسی اور سماجی ادارے“ فرد اور سماج کے درمیان ربط و تعلق کو سمجھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے سیاسی کے سماجی تحریک کی بھی ضرورت ہے۔ سیاسی تحریک ہمیشہ مفادات کے تحت گھومتی ہے ایسی تحریکوں کا مقصد صرف اور صرف سیاسی طور پر طاقت کا حصول اور اس کی انتہاہ صرف اقتدار پر قبضہ ہوتا ہے۔ ایسی تحریکوں میں کیونکہ ایک طرح کے لوگ اور گروہ شامل ہوتے ہیں اس لیے ان کا مقصد تبدیلی یا ترقی نہیں سیاسی طاقت اور اقتدار ہوتا ہے۔ سماج کے سب سے بڑے حصہ دارسیاسی نہیں سماجی گروہ یعنی طبقات ہوتے ہیں جن میں لیبریونین،ایسوسی ایشن، خواتین ، یوتھ ، اقلیت، سماجی و سیاسی دانشور، شاعرو ادیب ، صحافی، فلسفی ، موسیقی کار ، دستکار ہنرمند اور دیگر فنون سے تعلق رکھنے والے شامل ہیںیہ سب تندیلی کے لیے ہراول دستے کا کام کرتے ہیں یہی لوگ سماجی حالت کو بدل دینے اور ایک جست لینے کے منظم انقلابی اقدام کا سبب بنتے ہیں۔ موجودہ صورتحال سماجی بدحالی کا نہ صرف منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ استحصال زدہ کیفیت میں مبتلا معاشرے کی بے بسی کی علامت بھی ہے۔ ہمارے سیاسی اور سماجی اداروں اور افراد کے درمیان ربط وضبط اور نظم و ضبط کہیں نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے انارکی ،تفرکہ،لاقانونیت بڑھتی جارہی ہے۔

ایبٹ آباد کا واقعہ کوئی معمولی سا واقعہ نہیں ہے یہ کسی ایک ادارہ کی نہیں پورے سسٹم کے ناکارہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ اس کے ذمہ دار ہم سب ہیںپورا سماج ہی ذمہ دار ہے سیاسی و سماجی اداروں کے منتظمین ذمہ دار ہےں،ایبٹ آباد کے تھانہ ڈونگہ گلی کی حدود میں واقع گاؤں مکول میں کمزور نہتی لڑکی کاگلہ دبا کر خون نہیں کیا گیا بلکہ انسانیت کا خون کیا گیا،قانون کی دھجیاں اڑا دی گئیں ، معصوم لڑکی کی نعش کو آگ میں جلا کر دور جہالت و کفر کی یاد تازہ کی گئی، اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیایہ اکیلے ایک فرد کا یہ جرم نہیں اجتماعی طور پر کیا گیا جرم ہے۔جو ہمیں اس بات کی طرف شارہ کررہا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر کرپٹ،سخت گیر،بے لچک داراور بے حس ہوتے جارہے ہیں ۔ غیر سماجی رویوں کے مالک بلکہ ہمارے رویوں کو سرطان لاحق ہوچکا ہے ۔

ترقی اور تبدیلی حکومت تبدیلی کا نام نہیں ترقی اور تبدیلی موٹروے اور بڑے پل تعمیر کرنے کا نام نہیں ،ترقی اور تبدیلی جلسہ اوردھرنا کے بڑے اجتماع سے نہیں بلکہ لوگوں کے ذہین کے بدلے جانے، شعورو آگاہی پیدا ہونے، اداروں کی فعالیت، طرزمعاشرت کے سلیقہ منداور بہتر ہونے ، اخلاقیات کے اعلیٰ اور اچھے رویے کے ہونے، قانون کی پاسدرای کرنے،دوسروں کی آزادی اور مرضی پر اپنی مرضی مسلط نہ کرنے سے آئیں گی ۔

دعوت فکر ہے کہ آئیں ذرا سوچیں۔کیا ہمارا، اجتماعی شعور ترقی یافتہ سماجوں یا قوموں کے اجتماعی شعورکے مقابلے میں کہاں پر کھڑا ہے۔ ہما رے سماج کی ترقی کی رفتار تیز ہے یا سست ، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اورزوال پذیری کاشکار ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہونے کے لیے ہمیں ایبٹ آباد جیسے واقعات سے بچنا ہوگا۔ اس کام کی ذمہ داری کسی ایک فرد یا گروہ کی نہیں ہم سب کی ذمہ داری ہے نفرادی سوچ نہیں اجتماعی بات کرنا ہوگی۔ترقی یافتہ سماج کے لیے سیاسی کے ساتھ ساتھ سماجی تحریک لانا ہوگی جس میں تمام عوامی گروہ کی شرکت ضروری ہے۔
 
riaz jazib
About the Author: riaz jazib Read More Articles by riaz jazib: 53 Articles with 52905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.