وصیل خان
جمیل مظہری کا یہ شعر دنیا کی بے ثباتی اور اس کی رنگا رنگ کیفیت کی کس قدر
درست عکاسی کررہا ہے۔
بقدرپیمانہ ٔ تخیل سرور ہر اک میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی
حالات کتنے بھی بگڑجائیں سماجی ومعاشرتی صورتحال کتنی ہی ابترہوجائے لیکن
قانون فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں بقول رسول کریمﷺ اگر دنیا تمام برائیوں
فحاشیوں اور خرافات سے لبریز ہوجائے جس کا بڑی حد تک مشاہدہ آج ہم خود
اپنی آنکھوں سے کررہے ہیں پھر بھی مختصر اور قلیل ترین ہی سہی روئے ارض پر
حق پرستوں اورمجاہدین کی ایک جماعت ضرور موجود رہے گی جو اپنے قول وعمل میں
تضاد کے بغیر اللہ اوراسکے رسول کے احکامات کی ترویج واشاعت اور سربلندی
میں پیش پیش رہے گی۔خدمت خلق اور انسانوں کی خیر خواہی ان کی پریشانیوںمیں
ہاتھ بٹانے کاعمل بھی مندرجہ بالا صفات کا ایک ادنی ترین درجہ ہے آپ اگر
اپنے آس پاس نگاہ دوڑائیں توکم ہی سہی لیکن ایسے افراد ضرور مل جائیں
گے۔بہار سے تعلق رکھنے والے پچاس سالہ محمدہارون رشید منشی کو اپنے قول
وعمل کے اعتبا رسے ایسی ہی صف میں شمار کیا جاسکتاہے جولوگوں کی پریشانیاں
دورکرنے میں بصد خلوص اپنا وقت صرف کردیتے ہیںپڑھے لکھے توکم ہیں لیکن
انگلش میڈیم کی ابتدائی تعلیم اور خداداد ذہانت کے سبب انگریزی اور اُردو
اخبارات بہ آسانی پڑھ اور سمجھ لیتے ہیں سرکاری آفسوں کی کارروائیوں اور
کاغذات وغیرہ کی پیچیدگیوں کوجان لیتے ہیں ان کا ایک پاؤں مکمل طور
پرمفلوج ہے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ بچپن میںسانپ کاٹنے کے سبب یہ حال
ہوا زہرکے اثرات اتنے شدید تھے لیکن غربت کے سبب ٹھیک طرح سے علاج نہیں ہو
سکا اور یہ روگ اورمفلوج الحالی زندگی بھر کے لیے مقدر بن گئی انہوںنے
بتایا کہ وہ ۹؍سال کی ہی عمر میں ممبئی آگئے تھے اورتقریباً ۲۵؍سال سے
باندرہ ایسٹ پائپ روڈ پرمقیم ہیں غربت میں زندگی بسر ہو رہی ہے اس لئے مجھے
لوگوں کے دکھ درد کا اندازہ ہے مجھ سے جو بن پڑتا ہے ان کے لیے کرتا
ہوں۔یہاں کے لوگوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ گھر،لائٹ او رپانی کا ہے بی ایم
سی ،مہاڈا او رکلکٹرآفس میں اس کے لیے چکر لگانا پڑتا ہے۔بیساکھی پر چلنے
کے سبب بڑی دقت ہوتی ہے لیکن اپنی تکلیف برداشت کر کے لوگوں کے کام نمٹانے
میں مجھے مسرت ہوتی ہے جس کا میں کوئی معاوضہ نہیں لیتا بس ان کی دعاؤں سے
میرا کام چل جاتاہے۔ایک مرتبہ راشن دوکاندار کی حد سے بڑھتی دھاندلی پرمیں
نے اعتراض کیا وہ گھاسلیٹ کم دینے پر مصرتھا اور جھوٹ موٹ کہتا تھا کہ یہی
سرکاری حکم ہے میں نے راشننگ آفس میں جب شکایت درج کرائی تووہ غنڈہ گردی
پراتر آیا درخواست واپس لینے کے لیے غنڈوں کے ذریعے دھمکیاں دیں اورکہنے
لگا کہ تمہاری دوسری ٹانگ بھی توڑدوں گا ورنہ شکایت واپس لے لو ۔میں نے بھی
ہا رنہیں مانی معاملے کو آگے بڑھاتارہا یہاں تک کہ اس کا کوٹا منسوخ
ہوگیا۔مجھے لگا کہ آج کی دنیا میں بھی انصاف مل سکتا ہے بشرطیکہ ہم
خودایمانداری اورمحنت کے ساتھ انصاف کے طلبگار ہوں۔
ہم نے ان کاموں کے لیے اندراگاندھی ویلفیئر سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم
بھی بنائی ہے دفتر میں علاقے کے لوگو ںکی اچھی خاصی تعداد آتی ہے اورہماری
تنظیم ان کے معاملات ومسائل کونمٹاتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ باندرہ اسٹیشن
سے باندرہ ٹرمنس جانے والے راستے پر برج کی تعمیر کا کام جاری ہے یہ روڈ
ریلوے اور بی ایم سی کے زیرانتظام ہے اتنے مصروف راستے پرلائٹ کا انتظام
نہیں ہے کئی بار حکام کی توجہ اس جانب دلائی گئی لیکن کوئی شنوائی نہیں
ہوئی اندھیرا ہونے کے سبب را ت میں یہاں سے گذرنے والے مسافروں کے سامان
اور رقمیں لوٹ لی جاتی ہیں جب زیادہ وارداتیں ہونے لگیںتب ہم نے لوگوں سے
کہا کہ یہاںلائٹ کا انتظام ہم خودکریں گے سب نے تعاون دیا اور لائٹ کا
انتظام ہوگیا اس طرح سے مسافرو ںکے لوٹے جانے کے واقعات بڑی حد تک کم ہوگئے
ہیں۔دوسری ایک اور لعنت وہاں شروع ہوگئی ہے زیرتعمیر برج کے نیچے رات میں
نشہ خوروں کی بھیڑلگ جاتی ہے مستی میں وہ کچھ بھی کرتے ہیں چونکہ ان میں
غنڈے ٹائپ کے لوگ بھی ہوتے ہیں اس لیے لوگ ان سے خوف کھاتے ہیں ان کی
زیادتیاںبڑھتی جا رہی ہیں وہ آنے جانے والی خواتین پربھی بری نظریںڈالتے
ہیںاور چھیڑچھاڑسے بھی گریز نہیں کرتے حیرت تو اس بات پر ہے کہ یہ سب
واقعات آئے دن کا معمول بن گئے ہیں جب کہ وہاں آرپی ایف کے جوان تعینات
ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے معاملات اور حادثات سے جو لوگوں کے لیے
سوہان روح بن گئے ہیں آرپی ایف کے جوانوں کو کوئی سروکارنہیں ہے وہ مستقل
آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اس سے قبل کہ کوئی بہت بڑا حادثہ نہ رونما ہوجائے
ہم لوگوں کو ہی کوئی نہ کوئی اقدام کرنا پڑے گا۔اس کے لیے ہم جلد ہی ایک
میٹنگ کرنے والے ہیں اور لوگوں کے تعاون سے یہاں ایسا بندوبست ضروری ہے کہ
مسافروں کے لوٹے جانے کا سلسلہ رک جائے اور خواتین کی عزت وآبرو کے تحفظ
کو یقینی بنایاجاسکے۔ساتھ ہی انہوں نے دیگر لوگوں کے لیے بھی یہ پیغام دیا
کہ موجودہ حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اپنا تحفظ خود کریں اور اپنے
مسائل کے حل کے لیے دوسروں سے مددلینے سے پہلے خود ہمت کریں اور خلوص
وایمانداری کے ساتھ عوامی مسائل نمٹانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔چلتے چلتے
انہوں نے ایک شعر سنایا جس سے ان کے ہمت و عزائم اور دوسروں کے تئیں محبت
اور خلوص کا پتہ چلتا ہے۔
اُٹھ باندھ کمرکیاڈرتا ہے
پھر دیکھ خداکیا کرتا ہے |