پیلی ٹیکسی کی ڈرائیونگ کا انوکھا تجربہ

ایک دوست کے پاس پیلے رنگ کی ٹیکسی نما کار ہے ،
جسے وہ ذاتی سواری کے طور پر کبھی کبھار استعمال کرتا ہے۔
چند ماہ پہلے وہ مجھے دوسرے شہر سے ملنے آیا،
ایک دن اور رات ساتھ گزرے۔
واپسی کے وقت اسکی طبعیت ناساز ہوگیء۔ پھر بھی اس کا جانا بھی ضروری قرار پایا۔
میں نے حالات کی نذاکت کو بھانپتے ہوئے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔
ڈرایؤنگ سیٹ سنبھالی۔ وہ حیران تھا کہ میں 40، 50 سالہ پرانے ماڈل کی گاڑی کیسے چلاوں گا۔
شہر چھوڑنے سے قبل اسمبی گیٹ سے کچھ آگے ٹریفک شعبہ سے منسلک پلس بھائیوں نے روک دیا۔
مقامی و غیرمقامی کے سوالات کے جواب دیئے،گاڑی کاغذات دکھائے ،تو جانے دیا گیا۔
شہر سے باہر نکلے تو دوست کہنے لگا کہ میر صاحب۔۔۔!
یہ گاڑی آپ کے شایان شان نہیں۔
آپ کا کوی جاننے والا آفیسر یا سیاست دان یہ چلاتے ہوئے آپ کو دیکھ گیا تو کیا سوچے گا؟
میں نے عرض کیا کہ مجھے لوگوں کی فکر کم،، آپ کا خیال زیادہ ہے۔
اتنے میں ایمز ہسپتال سے آگے نکلے تو پولس کا روائیتی ناکہ آگیا۔
اشارہ کیا گیا کہ گاڑی سایڈ پر لگاو تو حکم کی تعمیل کی۔
گاڑی کا ملک دوست کاغذات اٹھا کر نکلنا چاہتا تھا کہ میں نے روک لیا۔
پولس وین کے اندر تھری سٹار والے پولسیے بابو نے پوچھا کدھر سے آے ہو۔ کہاں جارہے۔؟
شریف شہری کے طور پر درست جواب دیے۔کاغذات دکھاے تو جانے دیا گیا۔
کچھ آگے برھے تو چونگی والے نے رکنے کا اشارہ کیا۔
عرض کیا یہ ذاتی استعمال کی گاڑی ہے۔ تو جانے دیا گیا۔
دوست نے کہا کہ آگے کہیں سے پانی کی بوتل یا جوس کیلئے رکیے گا۔
سگار پینے کے ہم عادی نہیں، نسوار کبھی چکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔
سو، بھوک کی شدت میں کمی لانے کیلئے مارکیٹ رکے تو پانی کی دوعدد بوتلیں ، ساتھ کچھ سیب اور امرود لے لیے۔
کوئی 10 منٹ کا سفر طے کیا ہو گا کہ پھر سے پولس بھائیوں کی وین سائیڈ پر کھڑی ہماری منتظر دکھائی دی۔
ترش لہجے میں سوال کیا گیا۔ ٹیکسی اپنی ہے یا چوری کی۔ ؟
ایک اسٹار والے قدرے لمبے تڑنگے اس پولسیے کو جواب دینا چاہتا تھا کہ دوست بول پڑا۔
گاڑی اپنی ہے۔ ٹیکسی کے طور پر نہیں ذاتی استعمال کرتا ہوں۔
دوست نے کاغذات دکھانے کی آفر بھی کی۔۔ لیکن چھوٹی پھیتی والے بابو بات الجھانے کے موڈ میں تھے۔
میں دروازہ کھول کر اترا،، پوچھا ،، کون سی چوکی یا تھانے سے ہو؟
جواب ملا، ہم جہاں کھڑے ہوں وہی دیوٹی کی جگہ ہوتی ہے۔
پان 5،7 منٹوں میں وہاں سے درجنوں گاڑیاں بنا کسی روک ٹوک کے گزر گئیں۔
پوچھا کیا چاہتے ہو؟ کہنے لگا کاغذات اور روٹ پرمٹ دکھایئے اور جایئے۔
بھلا ٹیکسی کا پرمٹ کون اور کیوں بنائے گا جبکہ علاقائی سیٹ اپ سے باہر جانا نہیں تھا۔
دوست نے کاغذات دکھائے تو پرمٹ پر سوال و جواب دونوں نے نپٹائے تو ہم پھر سے روانہ۔
کوہالہ سے پہلے غیرملکیوں کے اندراج کیلئے لگائے گئے ناکے پر پھرروکا گیا تو وہی رسمی سوال جواب کا سلسلہ۔
کہاں سے آئے۔ کہاں جا رہے ہو۔
کہا آبائی شہر راولاکوٹ جا رہے، اول باشندہ ریاست ہیں۔ چاہے تو شناختی کارڈ دیکھ لو۔
پیلی ٹیکسی پر دونوں سواروں کے یہاں بھی 8 منٹ ضائع کرائے گئے۔
یقین مانیے۔ سوائے ہمارے باقی تمام گاڑیوں سے رسمی چیکنگ اور سوال جواب کیے گئے۔
خدشہ ہوا کہ شاید کسی نے مخبری کی ہو کہ پیلی ٹیکسی خاص ہے یا میری برداشت چیک کر رہے۔
پھر گمان ہوا کہ شاید ملک کے امن کیلئے خطرہ قراردیئے جا چکے تھے ہم۔
دھیرکوٹ کی حدود میں داخل ہوئے۔ تو دوست نے کہا کہ آپ اپنا تعارف کیوں نہیں کراتے یا کارڈ دکھاتے۔
بس اتنا عرض کیا کہ کارڈ دکھانے کی ہر جگہ عادت نہیں۔
نہ یہاں کسی ڈیوٹی پر ہوں۔ اوپر سے ان لوگوں کی دیوٹی پوچھ کچھ کرنا ہے۔
ہم قانون کی پاسداری نہیں کریں گے تو کہا جائے گا کہ یہ لوگ کیوں بااثر لوگوں پر تنقید کرتے ہیں۔
دھیرکوٹ سے پہلے ایک اور چونگی والے نے روکنے کا اشارہ کیا۔
رکے تو وہی سوال جواب اور روانگی۔
دھیرکوٹ پہنچے تو سکھ کا سانس لینے کی غلط فہمی ہوئی۔
شہر چھوڑا ہی تو آگے پھر سے پیلی ٹیکسی کو چونگی کیلئے روک لیا گیا۔
پھر سوال جواب ، اور آگے بڑھے۔
کوئی دو سے تین منٹ کا سفر کیا ہو گا کہ دھیرکوٹ پولس نے پیلی ٹیکسی پر شک کرتے ہوئے روک لیا۔
گاڑی کی تلاشی لی گئی۔ کچھ نہ ملا سوائے ایک پنکچر زدہ ٹائیر کے۔
اب سوال و جواب۔ بابو جی۔کہاں سے آئے اور کدھر جارہے۔
راولاکوٹی بولی میں بتایا کہ مطفرآباد تھی آئے دیان راولاکوٹ جلنیان۔
پھر کاغذات کی چیکنگ اور روانگی۔
غازی آباد سے نیچے جنگل میں ہوٹل کنارے رکے۔ عمر رسیدہ شخص کی بنائی گئی چائے کی چسکیاں لی پھر روانہ۔
ارجہ بازار میں پھر ٹریفک سے منسلک بھائیوں نے پیلی ٹیکسی کو دھر لیا،، سوال جواب اور روانگی۔
شغل شپہ لگائے رکھا کہ دوست کو ندامت نہ ہو کہ اس کے ساتھ خرابی صحت کی وجہ سے آیا تو یہ سب سہنا پڑا۔
دل ہی دل میں کڑھتا رہا لیکن زبان خراب نہ کی۔
ٹائیں کراس کے ناکے پر پھر سے روک لیا گیا۔ شاید آج کا دن تھا ہی چیکنگ کا۔
یہاں دوست کا قومی شناختی کارڈ دیکھا گیا تو پھر جانے دیا گیا۔
راولاکوٹ شہر کے داخلے پر پھر روک لیا گیا کہ چونگی دے جاو۔
دماغ کی بتی اس وقت تک کافی اوپر چڑھ چکی تھی لیکن برداشت کیا۔
دوست نے معاملہ رفعہ دفعہ کیا۔
گھر پہنچا تو دوست نے سیٹ سنبھالی۔ وہ اپنے ٹھکانے کو روانہ ہوا۔
ہم لوگ ساڑھے تین سے چار گھنٹے کا سفر 5 گھنٹے سے زائد میں طے کر آئے تھے۔
پولس بھائیوں نے نہ کچھ مانگا اور نہ ہم نے دیا لیکن بار بار پیلی ٹیکسی کو روک لیا جاتا تو میٹر گھومنا شروع ہو جاتا۔
ویسے ،، پبلک و پرائیویٹ گاڑیوں پر سفر کی عادت ہے لیکن ایسی ذلالت نہیں دیکھی جو پیلی ٹیکسی پر ہوئی۔
دوست بعد میں ملا تو اسے کہا گاڑی کا کوئی اور رنگ تبدیل کردو تو بلا وجہ نہیں روکے جاو گے۔
اس نے حامی بھری۔ اب معلوم نہیں رنگ تبدیل کیا یا نہیں۔
سوچتا ہوں۔ نئے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو مفت میں مشورہ دے دوں۔
بشیر میمن صاحب۔۔!!
آپ نے آئی جی پولیس آزادکشمیر کا چارچ سنبھالنے پر ذاتی سکیورٹی مکمل ختم کر کے اچھا کیا۔
اب دو،تین اہم روٹس پرکبھی بغیر وردی کے اور پرائیویٹ گاڑی پر سفر کریں اورایک عام شہری یا سیاح کے طور پر سوالوں کے جواب دے کر دیکھیں۔
شاہرات پر کھڑی نفری اور چوکیوں پر تعینات عملے کی تربیت کرانے کا بندوبست بھی کریں۔
پولس والوں سے 24، 24 گھنٹے ایک ساتھ دیوٹی لینے کی بجائے شفٹ کا نظام اپنا لیں۔
آزادکشمیر کے اہم داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ کا نظام انتہائی سخت رکھیں۔
بلاتفریق تمام گاڑیوں کو چیک کیا جائے۔ یہ جگہ جگہ ناکے لگا کر لوگوں کو تنگ نہ کیا جائے۔
چیف سیکرٹری سکندر سلطان راجہ صاحب۔۔!!
ایک شہر میں چار چار چانگیوں کے بجائے ان کی تعداد کم اور چونگی میں اسی تناصب سے اضافہ کرادیں۔
تفریح کیلئے آنے اور جانے والوں کو یہ بلدیہ یا میونسپل کارپوریشن کے نام پر چونگیاں لینے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ ملازمین عزت افزائی میں کثر نہیں چھوڑتے۔
بڑے داخلی راستوں پر باہر سے آنے والوں کیلئے ایک ہی چنگی ہونی چاہیے۔ جو رسید جاری کرے تو واپسی پر وہ رسید جمع کرا کے علاقہ چھوڑ سکے۔
ختم شد
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66323 views Columnist/Writer.. View More