رویے
(Farheen Naz Tariq, Chakwal)
رویے ایسی دلدل ہیں جس میں جتنا الجھیں گے
اتنا ہی دھنستے جائیں گے- ہمارے رویے کسی کو زندگی بھی بخش سکتے ہیں اور
یہی رویے کسی کی ساری خوشیوں کے قاتل بھی بن سکتے ہیں- یہی رویے انسانوں
میں نفاق پیدا کرتے ہیں یہی یگانگت ملی کا باعث بنتے ہیں-
انسان خودکشی کرتے ہیں جینے کی امید چھوڑ دیتے ہیں مایوسی کو اپنا وطیرہ
بنا لیتے ہیں اس کا سبب کیا ہوتا ہے؟ یہی ہماری بے حسی خود پرستی خود پسندی-
فلاں فلاں کے ساتھ فلاں فلاں مسئلہ ہے تو ہو ہماری بلا سے ہمیں کسی کی
تکلیف سے کیا مطلب- کوئی دکھی ہے ہم سے دو حرف تشفی کے چہتا ہے کسے پروہ-
کوئی بھوکوں مر رہا ہے تو مرے ہم تو اپنی امارت کا چرچہ کریں گے- ہمارے
اونچے بنگلے کی سفیل کے سائے میں کوئی بھوکا بھکاری پنہ گزین ہے تو ہمیں
کیا لینا ہاں اگر اک پھٹے پرانے بدحال حلیے والے جانور نما بے وقعت انسان
کو ہماری دیوار کے سائے میں بیٹھ کر سکون ملتا ہے اور اس سے ہمارے بنگلے کی
شان و شوکت میں کمی واقع ہوتی ہے تو اسے بھگانا تو پڑے گا وہاں سے- البتہ
اگر اسکے وہاں بیٹھے رہنے سے ہماری دریا دلی کے قصے لوگوں تک پہنچیں گے اور
ہماری وہ وہی کے چرچے ہونگے تو پھر ہمیں یہ ذرا سی تکلیف گوارا ہے-
آج ایک نیا واقعہ میری سماعتوں سے ٹکرایا جسے آپ لوگوں کے گوش گزار کرنا
چہوں گی-
ایک بے چارے+ مظلوم شوہر نے بیوی کی بد زبانی اور اس کے خراب رویے سے تنگ آ
کر اسے عدالت جیسی سرکاری حدود میں دھنک کے رکھ دیا جس سے اس کا مسگیرج ہو
گیا- اب اگر وہ بے چارہ سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں اسکے ساتھ ایسے خوش
اسلوبی سے پیش آ سکتا ہے تو درپردہ حقیقت تو پھر رب ہی جانے-یقینا اس میں
اس لڑکی کا بھی قصور ضرور رہا ہوگا کہ اس نے اتنے گوہوں کی پروہ کیے بغیر
ایسا گھناؤنا فعل سرانجام دیا-مگر کیا طاقت کے نشے میں بدمست ہو کر کسی خود
سے کمزور انسان پر اس طرح تشدد کرنا جائز ہے میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی
بات پر جج صاحب پر اس شخص کو غصہ أجاتایاوہ اسکی بے عزتی کرتے تو کیا وہ
وہاں بھی اسی رد عمل کا اظہار کرتا؟ یقینا نہیں - تو ایسا کیوں کہ ہم اپنی
طاقت کا مظہرہ صرف اسی شخص پہ کرتے ہیں جسے ہم خود سے کمزور گردانتے ہیں؟
بہرحال ہمارا مدعا یہ واقعہ ہرگز نہیں یہ تو اک چھوٹی سی مثال تھی ہمارے
رویوں کی تلخیوں سے ہونے والے فوائد و نقصانات کی- آپ بتائیے اس میں فائدہ
کس کا ہوا اور نقصان کس کا؟
جاتے جاتے ایک اور سوال کروں گی ہم جو کسی کو بھی اسکے حال پر چھوڑ دیتے
ہیں اس کے دکھ اس کی تکلیفوں کے ساتھ اکیلا اور وہ زندگی سے ہمارے رویے سے
تنگ آ کر خود کشی کر لے یا گھٹ گھٹ کر مر جائے تو کیا ہمیں اس پر پوچھ نہیں
ہوگی کیا یہی زندگی ہمارا اختتام ہے؟ کیا ہمیں اپنا اعمال نامہ لے کر اک دن
اپنے رب کے حضور پیش نہیں ہونا؟ تو کیوں نہ ہم اپنے رویوں کو بہتر بنائیں
کیوں نہ کسی کی زندگی میں زہر گھولنے کی بجائے کسی کی مسکرہٹ کا باعث بنیں؟
مزید کچھ نہیں تو کسی کی تشفی کے لیئے اسے اک مسکرہٹ تو دے ہی سکتے ہیں ناں-
کیا اتنا بھی ہمارے لیئے ممکن نہیں؟
|
|