طالب کے من کی چاہت کی تڑپ

جب حرص و ہوس کی عینک اُتار کر گرد وپیش پہ نظر دوڑائی جاتی ہے تو پھر خالق کی ہر ہر مخلوق کے ساتھ تعلق گہرا محسوس ہوتا ہے۔ انسان چرند پرند جانور سب کے ساتھ رویہ اُس نہج پہ دیکھائی دیتا ہے جس طرح اپنی ذات سے منسلک کسی پیارئے کے ساتھ ہو۔پھر ملازم کے بچے کے لیے بھی اُسی طرح کی دل سے دعا نکلتی ہے جیسی اپنی اولاد کے لیے۔کسی ذی روح کو تکلیف میں دیکھ کر وہ کیفیت وارد ہوجاتی ہے جیسے اُس کے ساتھ قلبی تعلق ہو۔ ہر ہر ذی روح کی بُود وباش اور اُس کے احترام اور آرام کا ایسا ہی خیال کیا جاتا ہے جیسا کہ اپنی جان کو امن و سکون دینے کے لیے سعی کی جاتی ہے۔فرق تو صرف سوچ کا ہے۔اگر ہمسائے کے بیٹے کے ساتھ بغض روا رکھا جائے تو لازمی بات ہے اپنا بچہ بھی اِس طرح کے رویے کی زد میں آجائے گا۔ لیکن ہمسائے کی اولاد کو اپنی اولاد کی طرح دل سے جانا جائے۔ بے شک کوئی مادی منفعت نہ بھی پہنچائی جائے لیکن صرف سوچ کے آئینے کو اِس طرح ڈھا دیا جائے کہ کسی کے لیے بُرا نہیں سوچنا۔ محبت ہی محبت احترام ہی احترام۔ بس پھر کیا ہے اپنا من اطمینان کے راستے پر کامزن ہوگا۔ کدورتوں سے پاک دل و جان طمانیت محسوس کرئے گی اور اﷲ پاک بھی پھر ایسے شفاف آئینے کے حامل دل میں گھر کر جائے گا۔ اِس سارئے عمل میں کوئی مادی قربانی بھی نہیں دینا پڑی اور نہ ہی جسمانی مشقت کا سامنا ہوا۔ فقط سوچ کا دھارا بدلہ اور روح پر، قلب پر اِیسی کیفیت پیدا ہوگئی کہ اِس سے اپنے دنیاوی معاملات کے لیے بھی غور و فکر کے لیے پرسکون ذہن کی توجہ میسر آجائے گئی۔نبی پاکﷺ نے جو انقلاب بپا کیا وہ روحانی انقلاب تھا۔ اُس کا تعلق روح کے ساتھ تھا۔ یہ ہی طرز عمل نبی پاکﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ اکرام، ؓ اولیا ء اکرامؒ رہا۔ انقلاب کے لیے کشت وخون نہیں بلکہ روح کی تازگی اور بالیدگی کی ضرورت ہے۔اِک سجدہ جسے تو گراں۔ سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات ۔انسان کی زندگی کے جتنے بھی ادوار ہیں شیر خوارگی، بچپن لڑکپن،جوانی بڑھاپا سارئے ادوار انسان کی سوچ کے رنگ میں رنگے ہوتے ہیں۔ سوچ کا آئینہ دھندلا ہونے کی وجہ سے چاند چہروں کے خدوخال تک بگڑ جاتے ہیں اور اِس کیفیت میں گزرئے ہوئے لمحات تقدیر اور تدبیر کی حقیقت کی ہیت میں ایسا اُتار چڑھا ہوا ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ محبت کے لمس سے محروم ساعتیں بے آب وگیاہ صحرا کی مانند ہو جاتی ہیں۔خالق کی عطا کا مستحق بندہ وہی قرار پاتا ہے جس نے خالق کے بندوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ہوتا ہے جس طرح کا سلوک وہ خود دوسروں سے چاہے جانے کی تمنا کرتا ہے۔ پھولوں پہ اٹھکھیلیاں بھرتی تتلیاں رنگ بکھیرتی خود کو تقدیر کے نقش پاء پر بسیرا کیے ہوئے شاداں ہوتی ہیں۔ پھولوں کا رس پی کر شہد جیسا لازوال آب مرورت تخلیق کرنے پر مامور شہد کی مکھی تقدیرکی جانب سے تحفہ ہے۔ بندہ نواز ی خالق کی عظیم رحمت کا سر چشمہ ہے ۔اپنے جذبات کو دوسروں پر لاگو کرنے کی چاہت میں حدود قیود کا پاس نہ رکھنا۔انسانی جبلت میں موجود سب کچھ حاصل کرنے کی خواہش اعتدال کی راہ میں رکاوٹ بننے لگ جاتی ہے۔اعتدال کے جذبوں کی تو تشکیک لازم ہونا من کی صفائی کے مرہون منت ہے۔وقت کی رفتار کا احساس صرف اُن کو ہو پاتا ہے جن کی اپنے خالق کے ساتھ لو لگ جاتی ہے۔ جو سیم و زر کے بندئے بن جائیں جن کو دنیاوی آسائشیں بھا جائیں اُن سے پھر فطرت روٹھ جاتی ہے۔ دنیاوی مال و حشمت اُن کے پاؤں کی زنجیر جاتی ہے۔ اِس زنجیر نے پھر ہر اُس راستے کی طرف جانے سے بندئے کو روکنا ہوتا ہے جس میں خالق کی رضا ہو ۔ جس میں مخلوق سے وفا ہو۔ انسان کی جبلتی خواہشات کی تکمیل کا تو کوئی اختتام ہی نہیں۔ جو ہے اُس کو زیادہ ہونا چاہیے تھا اور جو نہیں ہے وہ کیوں نہیں ہے۔ بندہ اپنے خالق کی حاکمیت کی بجائے اپنے نفس کی حاکمیت کے زیر سایہ بہتا چلا جاتا ہے۔ من کی دنیا ویران ہوجاتی ہے۔ کھو جانے کا ڈر لُٹ جانے کا ڈر۔مر جانے کا خوف۔ طرح طرح کے دھڑکے لگے رہتے ہیں وہ زندگی جس کو گزارنے کے لیے اپنے دماغ کو خواشوں کی بھٹی میں جھونک دیا ہوتا ہے ۔ اُس زندگی میں رہنے کا مزہ ہی چھن جاتا ہے۔ مال دولت کی چاہ نے رب کی چاہ اور رب کی مخلوق کی چاہ ختم کردی ہوتی ہے۔ ہر کسی کو پھر مالی اسطاعت کی عینک لگا کر دیکھا جاتا ہے۔خلوص، وفا، محبت اور چاہت جیسے الفاظ ایسے شخص کے لیے معنی کھو دیتے ہیں۔خالق کا کرم اُس پر ہی ہونا ہوتا ہے جوخود کو خالق کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتا ہے جو عقلی سازشوں کے ذریعے خود کو ہوشیار بنا کر اور سمجھ کر رب کی خدائی سے مکرو فریب کرتا ہے اُس کی اپنی حثیت صفر ہوجاتی ہے۔ اپنی حثیت کو گنوا کر من کی دنیا کو ویران کرکے مال ودولت پا کر فقر کی دولت گنوا کر بندہ کیسے روحانی سکوں پاسکتا ہے۔خالق توہر ساعت اپنے بندئے پر کرم نوازی کے لیے تیار ہے۔ کوئی طلب گار تو ہو۔
عطا کرنے ولا تو طلب گار کے انتظار میں ہے
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430141 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More